• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنگ کی تباہ کاریوں کے درمیان یوکرین کا ادب پروان چڑھ رہا ہے

Updated: August 04, 2024, 3:30 PM IST | Literature Desk | Mumbai

ادب محض تفریح ​​کے طور پر نہیں بلکہ ایک لائف لائن کے طور پر کام کرتا ہے، اور بقا کا ایک ذریعہ ہے جو مایوسی کے خلاف بیانیہ اور افراتفری کے درمیان وجود کا اعلان کرتا ہے۔ یہ منظرنامہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہزار مشکلوں کے باوجود، کہانیوں کی طاقت ایک قوم کو متحد رکھ سکتی ہے۔

Despite ongoing tensions in the region, bookshops are populating Ukraine`s literary scene. Photo: INN
خطے میں جاری کشیدگی کے باوجود یوکرین کے ادبی منظر نامے میں کتابوں کی دکانیں آباد ہیں۔ تصویر : آئی این این

یوکرین اورروس کے درمیان جنگ کی وجہ سے جاری تباہی کے باوجود یوکرین اپنے ادبی منظر نامے میں ایک غیر معمولی متحرک تبدیلی کا سامنا کر رہا ہے۔ اگرچہ توپ اور میزائل کے حملوں نے ثقافتی اداروں سمیت اکثر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، لیکن یوکرینی ادب اور کتابوں کی دکانوں میں اب بھی وہی لکھنے پڑھنے کا جذبہ برقرار ہے بلکہ اس رجحان میں تیزی بھی آرہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال خارکیف میں واقع فیکٹر ڈرک نامی پرنٹنگ پلانٹ کی المناک لیکن طاقتور کہانی میں مل سکتی ہے، جسے مئی ۲۰۲۴ء کے آخر میں تباہ کن روسی میزائل حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حملے نے نہ صرف سات ملازمین کی جانیں لے لیں بلکہ یوکرین کے سب سے بڑے کتابوں کی طباعت کے ایک پلانٹ کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ حملے کے نتیجہ میں اس طباعتی ادارہ میں ہر طرف خون آلود دیواریں، دسیوں ہزار کتابوں کی جلی ہوئی باقیات اور مشینری کی مکمل تباہی دیکھنے کو ملی۔ 
 خارکیف ہی کے ایک دوسرے ممتاز طباعتی ادارے ’ویواٹ‘ کے چیف ایڈیٹر آرٹیم لیٹوینٹس نے اس حملے کو ’’منصوبہ بند ثقافتی نسل کشی ‘‘قرار دیتے ہوئے صورتحال کی سنگینی کا اظہار کیا۔ 
 اس طرح کے چیلنجوں کے باوجود، یوکرین میں کتاب کی اشاعت ایک قابل ذکر رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ اشاعت کا شعبہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، یوکرینی بک انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹس ملک بھر میں کتابوں کی دکانوں کی غیر معمولی ترقی کو نمایاں کرتی ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں قومی کتابوں کی دکانوں کے سلسلے کے تحت ۲۲؍ نئے کتب خانے کھولے گئے جو کہ ہنگاموں کے درمیان بھی ادب کی مقبولیت کا اظہار ہیں۔ اس کی ایک دوسری مثال ’ویواٹ‘ بھی ہے جس نے جنگ کے بعد غیرمعمولی طور پر طباعتی امور میں توسیع کرنے کے ساتھ اپنے عملے اور اسٹاک کو بھی دگنا کردیا ہے نیز اپنے آؤٹ لیٹس کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ یہ ترقی معاشرتی رجحان اور رویوں میں گہری تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں مطالعہ تلخ حقیقتوں سے فرار کا سبب بن گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۴)

اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آرٹیم لیٹوینٹس کہتے ہیں کہ ’’ایک ایسے وقت میں جب (جنگ کی وجہ) بجلی کی کٹوتی ہو یا انٹرنیٹ ہی سرے سے بند ہو، عوام مطالعہ کی طرف زیادہ رجوع ہورہے ہیں اور کتابیں زیادہ مقبول ہورہی ہیں۔ اس کے ذریعے وہ شہریوں کے بقا کی حکمت عملی پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ ‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ٹارچ اور موم بتی کی روشنی ادب میں پناہ لینے والوں کے ساتھی بن گئے ہیں، جو اردگردکی افراتفری سے لمحہ بہ لمحہ منقطع ہونے کا ذریعہ ہیں۔ کتابوں میں عوام کی دلچسپی ایک الگ ثقافتی محور کو ظاہر کرتی ہے۔ جنگ کے بعد کے اسرار اور رومانوی افسانوں نے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ ادب اُمید اور بقا کی کہانیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی عکاسی کرتا ہے۔ یوکرین کے مصنفین نے اپنی تحریروں کی مانگ میں اضافہ دیکھا ہے جس کا سبب تنازع کے دوران یوکرین کے لوگوں کی ہر چیز میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ یہ ثقافتی بحالی کیف جیسے شہروں میں کتب خانوں کے فروغ سے واضح ہے ۔ 
 خارکیف کے طباعتی ادارے ویواٹ کے کتب خانے میں کتابوں کی تلاش میں مصروف ایک ۱۸؍سالہ طالب علم کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اپنے گھر میں صوفے پر بیٹھنا اور کتاب کا مطالعہ کرنا پسند ہے۔ ‘‘ اس نے مطالعے کو قوم کے مستقبل سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’پریشان کن حالات میں مطالعہ کے ذریعے ہی ہم اپنے ذہنوں کو الجھنے سے بچا سکتے ہیں۔ ‘‘ 
  ثقافتی تحفظ اور ذہنی استقامت کے درمیان یہ تعلق ایک ایسے تناظر میں اہم ہے جہاں بیرونی قوتوں کے ذریعے سماجی تانے بانے کو مسلسل چیلنج کیا جاتا ہے۔ چونکہ جنگ کے نتیجے میں یوکرین کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہے اس لئے مقامی ادب و ثقافت کی حفاظت بھی ضروری ہے اور ملک بھر میں کتابوں کی دکانیں بمباری سے بچنے اور تحریری کاموں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے درمیان اس نازک توازن کو لے کر چل رہی ہیں۔ مطالعے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے ذریعے عوام کو نہ صرف روزمرہ کی پریشانیوں سے توجہ ہٹانے میں مددملتی ہے بلکہ ایک طرح سے قوم پرستی کے جذبات کو بھی تقویت ملتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہرزبان اہل ِزبان کے باعلم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے


روس۔ یوکرین تنازع اور جنگ سے پیدا ہونے والی سماجی تبدیلی قومی شناخت، مزاحمت اور امید کیلئے ایک محرک کے طور پر ادب کے کردار پر زور دیتی ہے۔ یوکرین کے عوام اپنی ثقافتی شناخت کو مضبوط کرنے کیلئے شعری محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں جہاں یوکرین کے شعراء اپنے تجربات اور خواہشات کو نظم کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ یوکرین کی ادبی ثقافت انسانی روح کی مضبوطی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ غیریقینی صورتحال کے درمیان آبادی والے علاقوں میں کتب خانوں کا قیام، صفحات پلٹنے کے ٹھوس عمل کو معمول بناتے اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ثقافت کا دل اپنی کہانی بیان کرنے اور بیان کرنے کی صلاحیت میں ہے۔ ادب محض تفریح ​​کے طور پر نہیں بلکہ ایک لائف لائن کے طور پر کام کرتا ہے اور بقا کا ایک ذریعہ ہے جو مایوسی کے خلاف بیانیہ اور افراتفری کے درمیان وجود کا اعلان کرتا ہے۔ یہ منظرنامہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہزار مشکلوں کے باوجود، کہانیوں کی طاقت ایک قوم کو متحد رکھ سکتی ہے، اسے ترقی کی منزلوں پر پہنچا سکتی ہے اور ایک روشن اور زیادہ پائیدارمستقبل کی اُمیدوں کو پروان چڑھاتے ہوئے موجودہ چیلنجوں سے گزرنے اور اُن کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ 
(دی پناسیل گزٹ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK