ہمارے عقائد کی جڑیں براہِ راست حسنِ معا شرت سے جڑی ہیں لیکن ہمارے اعمال میں ان افکار کی عکاسی نہیں ہو رہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جہاں اپنے جسم کو نجاستوں سے نجات دلائیں وہاں ذہن و قلب کی آلائشوں سے بھی چھٹکارا پائیں اور اسلام کی تعلیمات کو اپنے معاملات کا لازمی جز بنائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ تہذیبی اور ثقافتی آلودگی کا بھی تدارک ہو۔
اسلام دین فطرت ہے اور فطرت سے محبت کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے اطراف کو سرسبز و شاداب رکھ سکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این
اکیسویں صدی جہاں اپنے جلو میں ان گنت علمی تفاخر، سائنسی ایجادات و معاشی تحفظات و مفادات لا رہی ہے وہیں ماحو لیاتی آلودگی اور مہلک بیماریوں کے خطرات کا جال بھی پھیلا رہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے حل کیلئے دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک متفکر اور کوشاں ہیں لیکن اس زہر کے اثرات اتنے کرب انگیز ہیں کہ انسان بے بس و مجبور اور غمگین و رنجور دکھائی دیتا ہے۔ بحیثیت ایک بہترین امت ہونے کے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ جب کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو اس کا واسطہ فطرت کے ہر مظہر اور اس سے جڑی تبدیلیوں سے براہِ راست ہے اور جب ہم اپنی اساسی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو اس قدر حیرت ہوتی ہے کہ ہما را عمل ہمارے افکار کی عکاسی نہیں کرتا اور ہماری تعلیمات اور سوچ میں تضاد پایا جاتا ہے۔ دین کے مختلف دائرے ہیں جو ایک دائرے کو دوسرے سے جوڑ کر وسعت عطا کرتے ہیں جن میں مرکزی حیثیت عقائد کو حاصل ہے جو پانچ ہیں : توحید، رسالت، ملائکہ، کتب، قیامت۔ اس کے بعد ارکان کا دائرہ ہے یہ بھی پانچ ہیں : کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج۔ ان ارکان کی حقیقی روح کو اگر اجمالی طور پر سمجھیں تو نماز خشوع سے ادا کر نی چاہئے اور دکھاوے سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ روزہ کے تعلق سے بھی ہم جانتے ہیں کہ بعض روزہ داروں کو سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ کے لئے بھی فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ اسے احسان جتا کر ضائع مت کرو اور حج کی فضیلت میں بھی یہ بات بیان کی گئی کہ بعض سوائے تجارت کے کچھ حاصل نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھئے: صبرو شکر اور پیار و محبت کامیاب عائلی زندگی کی کلید ہیں
ایک اور دائرہ اس کے بعد اصلاحِ باطن کا ہے ان سب پر محیط ایک اور دائرہ معاملات کاہے یعنی آپ کا سلوک اپنے والدین سے بزرگوں سے پڑوسیوں سے اور ہم سفر سے کیسا ہے اور آخر میں ایک دائرہ حسنِ معاشرت کا ہے۔ معاشرت سے مراد معاشرہ نہیں بلکہ ماحول ہے جس کو ہم محسوس ہی نہیں کرتے کہ یہ ہماری اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ ایک مثال کے ذریعے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک یہودی اسکالر لیزلی ہیزل ٹن کہتی ہیں کہ وہ قرآن کی سیاح ہیں اور قرآن مناظرِ فطرت کا جا بجا ذکر کرتا ہے مثلاً آسمان سے پانی کا برسنا، زمیں پر سبزہ اگنا، اونٹوں کا قطار میں چلنا، سورج کا طلوع و غروب، ان تمام کو قرآن میں جتنی اہمیت دی گئی ہے وہ کسی اور قدیم کتاب میں نہیں ہے۔ یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ترجیح دی اور اپنی نشانیوں کے بطور ان کا ذکر کیا ہے۔
اب اگر ہم اپنے عقائد کو وسیع تناظر میں دیکھیں تو توحید کا مطلب اللہ ایک ہے اور خالق ایک ہے تو اس کی مخلوق میں بھی کثرت میں وحدت ہوگی جسے unity in the universe بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اس کائنات کا نظام مربوط ہے جس میں کہیں بھی بگاڑ ہو تو اس کے اثرات دوررس ہوتے ہیں جسے ہم غذائی زنجیر کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں میزان کا ذکر بھی فرماتا ہے جو کسی ایک مفہوم میں فطرت کے توازن سے بھی جڑا ہے۔ اس کے بعد رسالت کی بات کریں تو یہ سلسلہ سیدنا آدم ؑ سے شروع ہو کر نبیؐ کریم پر مکمل ہوجاتا ہے۔ ہر نبی اپنے دائرۂ رسالت میں شامل علاقوں پر اللہ کی رحمت کے نزول کا مظہر رہا۔ سورہ التین میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے انجیر اور زیتون کی، جبلِ طور اور امن والے شہر مکہ کی۔ تفسیر ابن کثیر میں ان کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ یہ مقامات ہیں۔ ’’تین‘‘ ایک پہاڑ ہے جو ملک شام میں ہے اور یہاں بنی اسرائیل کے برگزیدہ نبی مد فون ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ووٹ کی اہمیت اور شرعی نقطۂ نظر
’’زیتون‘‘ سے مراد بیت اللحم اور یروشلم کا علاقہ ہے اور جبلِ طور کی مناسبت حضرت موسیٰ ؑ سے، اس کے بعد امن والا شہر یعنی مکہ کی نسبت حضورؐ سے ہے۔ اس سے اساتذہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان جغرافیائی علاقوں کے ذکر کا مقصد ان کی اہمیت ہے۔ بہت سے حوالوں سے اور سب سے اہم یہ کہ نبیؐ کریم کا قولِ مبارک ہے کہ ’’ پوری زمین میرے لئے مسجد قرار دی گئی ہے۔ ‘‘ اب یہ سوچنے کی بات ہے کی مسجد کی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے تو زمین کی نگہداشت بھی ضروری ہے۔ ساتھ ہی احادیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وضو میں پانی کا اصراف اسے مکروہ کر دیتا ہے اگر چہ ہم چشمہ کے قریب ہوں۔ سبحان اللہ، آج پانی کی بچت پر دھیان دیا جا رہا ہے اور ہمیں اس کا حکم عرصہ پہلے مل چکا۔ اب ذکر کرتے ہیں ملائکہ کا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار اور پاک مخلوق ہے جو خوبصورت اور خوشبو دار جگہو ں سے گزرنا پسند کرتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے اطراف اور گھر کو پاکیزہ اور پودوں اور پھولوں سے آراستہ رکھنا چاہئے تاکہ ان کے گزرنے کیلئے راستے ہوں۔ ہمارا ایمان تمام آسمانی کتب پر ہے اس سے مراد رسالت اور کتب ہے۔ پہلے صاحبِ کتاب ہے پھر کتاب ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کتاب اللہ کا یعنی اللہ کی کتاب، کتابِ مبین کا یعنی کائنات کے علم پر محیط کتاب اور کتابِ نفس کا یعنی ہر انسان کی کتاب جو اس کا نامۂ اعمال ہے اور لفظ اقراء بھی تین بار آیا ہے یعنی عرفانِ نفس کس درجہ اہم ہے یہ بتا دیا گیا۔ اسی حوالے سے اگر ہم لفظ آیت کو دیکھیں کہ کتا ب اللہ کے ساتھ آیت کا مطلب جملہ، کتابِ مبین کے ساتھ آیت کا مطلب نشانیاں اور کتابِ نفس کے حوالے سے اس کا مطلب روح کی کیفیت ہے اور جو لفظ اقراء تین مرتبہ آیا ہے اگر اسے بھی جوڑ دیا جائے تو اس کا مفہوم ہوگا کہ پڑھو اللہ کی کتاب، سائنس اور اپنے آپ کو۔ اس سے ہی انسان خیر و شر کا باعث ہوتاہے جس کا ذکر ۲۱؍ ویں پارہ اور آیت نمبر ۴۱ ؍ میں ہے کہ وہ خشکی اور تری میں فساد کرتا ہے۔ آخر میں قیامت پر بھی ایمان ہونا لازم ہے جس کی تائید سورہ ٔ الزلزال میں ہے کہ اس دن یہ نظام درہم برہم ہوجائیگا۔ یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کہ اس کا محرک کیا ہو گا لیکن آج نیوکلیائی مادوں کا استعمال اور قدرت کے نظام کے ساتھ مسلسل رخنہ اندازی بھی قیامت لانے کیلئے کافی ہے جو اللہ کے حکم سے برپا ہوگی لیکن اس بات کا ہمیں لحاظ ہو نا چاہئے کہ ہم زمین پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں احسنِ تقویم کا درجہ عطا کیا ہے تو اس بات کی مکمل ترجمانی ہو جاتی ہے کہ ہمارے عقائد کی جڑیں براہِ راست حسنِ معا شرت سے جڑی ہیں مگر ہمارے اعمال میں ان افکار کی عکاسی نہیں ہو رہی ہے۔
آخر میں سورہ ٔ رحمٰن کی تکرار کرنے والی آیت کہ ’’تم اللہ تعا لیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ کو تین معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی نعمت کا جھٹلانا یعنی دینے والے کی ناقدری کرنا، مصرف پر استعمال نہ کرنا یا کم تر مصرف پر استعمال کرنا اور پھر ہم اس کی قیمت اس طرح چکا رہے ہیں کہ ہوا جینے کے لائق نہیں، پانی پینے کے لائق نہیں اور زمین رہنے کے لائق نہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ جہاں اپنے جسم کو نجاستوں سے نجات دلائیں وہاں ذہن و قلب کی آلائشوں سے بھی چھٹکارا پائیں اور اسلامی تعلیمات کو مساجد کے باہر بھی اپنے معاملات کا لازمی جز بنائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ تہذیبی اور ثقا فتی آلودگی کا بھی تدارک ہو اور یہ محاورہ کہا جا سکے کہ’جان ہے تو جہان ہے۔‘