• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سول سروسیز کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے میں رُکاوٹیں ہماری اپنی ہوتی ہیں

Updated: January 21, 2025, 11:53 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

لاعلمی، مفروضات، غیر دُور اندیشی اور پست ہمّتی، یہی وہ چند وجوہات ہیں جن کی بناء پر ہم مقابلہ جاتی امتحانات میں پچھڑ جاتے ہیں لیکن اگر ویژن واضح ہو اور جہد مسلسل ہوتو ہر ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔nآج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ سوِل سروسیز امتحانات میں ہمارے طلبہ کِن وجوہات کی بناء پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں:

تصویر: آئی این این
تصویر: آئی این این

لاعلمی، مفروضات، غیر دُور اندیشی اور پست ہمّتی، یہی وہ چند وجوہات ہیں جن کی بناء پر ہم مقابلہ جاتی امتحانات میں پچھڑ جاتے ہیں لیکن اگر ویژن واضح ہو اور جہد مسلسل ہوتو ہر ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 
nآج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ سوِل سروسیز امتحانات میں ہمارے طلبہ کِن وجوہات کی بناء پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں :
  سوِ ل سروسیز کے امتحان کے تعلق سے ہمارے معاشرے کے ذمہ داروں کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اس امتحان میں کوئی ’یو ٹرن‘ یعنی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے یعنی ہمارے نوجوانان اور (اُن سے زیادہ) والدین کے سر پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ (الف) خوب خوب تیاری کے بعد بھی اگر امتحان میں کوالیفائی نہیں ہوئے تو؟ (ب) آگے کیا؟ آگے بس ایک ڈیڈ اینڈیا بند گلی ہے جو کہیں نہیں جاتی (ج) کہیں کے نہیں رہیں گے اسلئے کوئی بڑا خواب دیکھنے کے بجائے روایتی طریقے سے روایتی کورسیز کرکے روایتی کریئر اپنانے میں ’عافیت‘ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سو ِل سروسیز میں بہترکارکردگی کیلئے وسائل کی فراہمی کیلئے مثبت فکر کی ضرورت ہے

 دراصل ہمارے نوجوانوں میں سے اکثریت کو اپنی استعداد کا اندازہ نہیں ہوتا۔ کچھ رُجحان ٹیسٹ کی طرف لپکتے ہیں، بھرپور طریقے سے وہاں پر بھی اندازہ نہیں ہوپاتا لہٰذا مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک ہونے کی ہمّت نہیں جُٹاپاتے۔ ہم اپنے طلبہ اور والدین سے کہنا چاہیں گے کہ ہر ملک میں سوِل سروسیز امتحان کچھ اسی طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اُس امتحان میں صرف شریک ہونے میں بھی فائدہ ہے۔ ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس امتحان کے ذریعے ایسے افسران تیار کریں جو زندگی سے جُڑے سارے علوم کی بھرپور جانکاری رکھیں کیوں کہ بالآخر پورے ملک کے سارے نظام اُنہی کے حوالے کرنے ہیں۔ اُن سارے نظام سے متعلق سیاست دانوں کو کچھ معلوم نہیں رہتا، سوِل سروسیز پاس کئے ہوئے بیوروکریٹ رہتے ہیں جو ساری پالیسیاں طے کرتے ہیں برسرِ اقتدار پارٹی کے سیاسی مفادات کا بھی وہ ہمیشہ ذہن میں رکھ کر چلتے ہیں۔ اسی بناء پراِن امتحانات میں شرکت کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ ملاحظہ کیجئے :
 (الف) بے حد تیار ی کے باوجود اگر طالب علم ناکام بھی ہوجائے تب بھی وہ آخری امتحان ہوگا جس میں وہ ناکام ہوا، اُس کے بعد وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ 
 (ب) آگے چل کرکسی بڑی سے بڑی کمپنی میں بھی اُس کا انٹرویو لینے کیلئے کسی ایچ آر ڈی منیجر کوبھی ہچکچاہٹ ہوگی کہ اُس نوجوان کا انٹرویو کیسے لیں جو معلومات کا ایک سمندر تیر کر آیا ہے۔ 
 (ج) ہمارے ناکام نوجوان اگر اپنے کوائف یا بائیوڈیٹا میں ’ یو پی ایس سی امتحان میں شریک ہوا ‘ بھی لکھ دیں تو یہ ایک معنی رکھے گا۔ 
nاب جہاں تک ’یوٹرن‘ (یا واپسی) کی بات ہے تو اس ضمن میں ہمارے نوجوانوں کو سوچنا یہ ہے کہ آخر یُوٹرن کی نوبت کیوں آئے گی؟ صحیح سمت میں محنت کرنے والے طلبہ ہر سال کامیابی سے ہمکنار ہورہے ہیں، میں بھی اُن میں سے ایک رہوں گا، یہ خیال ہر طالب علم کے ذہن پر ہمیشہ غالب رہنا چاہئے البتہ خدانخواستہ کسی بناء پر مطلوبہ کامیابی نہیں ملی تو صرف پریلمنری امتحان یا مین امتحان تک پہنچ کر بھی کریئر کی اننگر شروع کی جا سکتی ہے البتہ ہم طلبہ کو اس سے زیادہ کچھ کہنا چاہیں گے، اسلئے کہ ہم دل سے چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ سوِل سروسیز میں کامیابی حاصل کرنے کے اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور اپنے سفر کو ادھورا نہ چھوڑیں کیوں کہ محض مادی فائدے حاصل کرنا اس کریئر کا مقصد نہیں ہونا چا ہئے بلکہ سوِل سروسیز کی آخری منزل تک پہنچ کر قوم کی ترقی کیلئے فیصلہ کُن کردار ادا کرنااہم ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں تو تعلیمی نظام میں بہتری آسکتی ہے

n سوِل سروسیز امتحان میں ہمارے طلبہ کی بڑی کامیابیاں اسلئے بھی رقم نہیں ہورہی ہیں کہ ہمارے سارے طلبہ حکومت کے کوچنگ اداروں میں داخلہ حاصل نہیں کرپاتے اسلئے اُنھیں نجی اداروں کی طرف رُخ کرنا پڑتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بیشترادارے ابھی اس ’فکر‘ میں ڈوبے ہیں کہ سوِل سروسیز کی کوچنگ میں اپنے طلبہ کی مدد کریں یا نہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ سوِل سروسیز امتحان میں شرکت کی خواہش ظاہر کرنے والے طلبہ کو کچھ لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ ستار ہا ہوتا ہے کہ یہ بھی سرکاری آدمی بن جائیں گے۔ ویسے بھی اس منصوبے کیلئے جہاں ہمارے پاس چار چھ درجن ادارے ہونے چاہئیں، وہاں ہمارے پاس یہ تعداد دوچار سے زیادہ نہیں ہیں۔ 
n سوِل سروسیز کے امتحان میں ہمارے طلبہ کو مناسب رہنمائی نہ ملنے کی بناء پر وہ سب سے بڑی غلطی گریجویشن میں اپنے مضامین کے انتخاب میں کرتے ہیں۔ دراصل گریجویشن کیلئے انہیں اُس مضمون کا انتخاب کرنا چاہئے جس کو آگے چل کر سوِل سروسیز کے مین امتحان کیلئے منتخب کرنا ہے۔ ہمارے طلبہ کی ایک بڑی اکثریت چونکہ تذبذب کا شکار رہتی ہے کہ سوِل سروسیز کے امتحان میں اُنھیں شریک ہونا ہے یا نہیں اسلئے وہ پیشگی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ اُنھیں یہ سمجھنا چاہئے کہ گریجویشن کے تین سال یوپی ایس سی کی تیاری کا سب سے کلیدی دَور ہے۔ مثلاً اگر کوئی طالب علم تاریخ مضمون کے ساتھ گریجویشن کر رہا ہے تو اُس کی منصوبہ بندی یہ ہوکہ بی اے کے تاریخ کے نصاب سے کم از کم ۱۰۰؍گنا اپنا کینواس وسیع کرے اور موہن جوداڑو ہڑپّا سے لے کر سی اے اے، این آر سی اور مسجد کے تہہ خانے میں مندر تلاش کرنے کے دَور تک کے ہر دَور کی بھرپور تیاری کرے۔ 
n سوِل سروسیز امتحان کی تیاری میں ہمارے بیشتر طلبہ کی ایک بڑی کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خود کے نوٹس تیارکرنے میں سنجیدگی نہیں برتتے، اس سلسلے میں ہونا تو یہ چا ہے کہ :
 (الف)حالاتِ حاضرہ یا کرنٹ افیئرس پر ہر روز آپ کم از کم ایک گھنٹہ سمجھیں اور اُتنا ہی وقت اُن پر اپنے نوٹس تیار کریں (ہم یہ ’اپنے‘ نوٹس سے کیا مُراد ہے اور اُن کی شکل و صورت کیسی ہو، اس پر آئندہ کبھی تفصیلی گفتگو کریں گے)
 (ب)حالاتِ حاضرہ پر فکر کوئی معمولی کام نہیں۔ اُس کیلئے روزانہ کے اخبارات، اداریے، خصوصی مضامین و تبصروں پر بھرپور نظر ہونی چاہئے۔ صرف الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر سرسری نظر ڈال کر اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ نوجوانو! حالاتِ حاضرہ کا ہر زاویے سے مطالعہ کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے البتہ یہ کام مشکل نہیں، صرف محنت طلب ہے۔ 
 ہرسال سوِل سروسیز کے امتحان کے نتیجے ظاہر ہونے پر محلوں اور الیکٹرانک چوپالوں پر تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت بڑی کڑوی ہے کہ اُن تبصرہ نگاروں میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو اُن مقابلہ جاتی امتحانات کی بنیادی باتوں سے بھی آشنا نہیں ہوتے اور پھر نتائج پر بتصرہ کرتے وقت بالآخر ’تعصّب‘کی کہانی لے ہی آتے ہیں کہ ہماری قوم کے طلبہ پریلمنر ی اور مین امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں البتہ انٹرویو کے وقت انٹرویو لینے والے ہمارے طلبہ کی داڑھی، ٹوپی یا حجاب دیکھ کر اُن کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں کوئی اُن سے پوچھے کہ (الف)اس امتحان میں ہماری آبادی کے تناسب سے ہمارے طلبہ میدان میں کیوں نہیں اُترتے؟ (ب) اس انتہائی مفید امتحان میں ہمارے زیادہ سے زیادہ طلبہ شریک ہوں اس کیلئے ہم نے ذاتی طور پر کیا کوشش کی ہے؟ (ج) جہاں تک تعصّب کی بات ہے وہ بتائیں کہ ہمارے طلبہ کو پہلے دو امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے سے کس نے روکاہے؟ نمایاں ترین نمبر حاصل کرنے کے بعد ہمارے اُن طلبہ کو انٹرویو میں فیل کرنے کی کس کی مجال ہے؟

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK