اترپردیش اور مہاراشٹر میں اتحاد کو اہمیت دینے لگی، اگر اس نے یہی رویہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ میں اختیار کیا ہوتا تو ملک کا منظرنامہ کچھ اور ہوتا۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 4:38 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
اترپردیش اور مہاراشٹر میں اتحاد کو اہمیت دینے لگی، اگر اس نے یہی رویہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ میں اختیار کیا ہوتا تو ملک کا منظرنامہ کچھ اور ہوتا۔
مہاراشٹر میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ یہاں ۲۰؍ نومبر کو ایک ہی مرحلے میں انتخاب ہونا ہے۔ اس ریاست میں بہت کچھ داؤ پر ہے کیونکہ مہایوتی حکومت اقتدار میں برقرار رہنے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی ہریانہ میں ملی مشتبہ جیت کو یہاں بھی دہرانے کی امید کرے گی۔ اسی کے تحت ریاستی حکومت لاڈلی بہن یوجنا کے لئے رقم ٹرانسفر اور اس طرح کے دیگر فلاحی منصوبوں اور ممبئی اور پونے میں نئی میٹرو لائنوں جیسے منصوبوں کے افتتاح وغیرہ کی تشہیر کی کر رہی ہے۔ دوسری طرف یہ پہلی مرتبہ ہوگا جب شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے مل کر انتخابی تشہیر کریں گے۔ شیوسینا اور این سی پی میں شگاف ڈال کر ایم وی اے حکومت کو ہٹانے کی بی جے پی کی کامیاب کوششوں کے بعد ان دونوں ہی لیڈروں کے تئیں مہاراشٹر کے عوام میںہمدردی پائی جاتی ہے۔ریاست کے تقریباً نصف ووٹرس (مراٹھا،دلت اوراقلیتیں) ان دونوں کی حمایت میں نظر آرہے ہیں۔ ممبئی میں اڈانی اور ان کے سیاسی استفادہ کنندگان کے تئیں ناراضگی اورکچھ دیگر اسباب ہیں جو بی جے پی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مہاراشٹر کو دیکھا جائے تو یہ ہریانہ سے بہت مختلف معلوم پڑ رہا ہے۔مہاوکاس اگھاڑی میں جتیندر اوہاڑ، وجئے وڈیٹیوار اور امول کولہے جیسے مضبوط او بی سی لیڈران ہیں اور شیوسینا (یو بی ٹی) کے ساتھ ساتھ این سی پی (شرد پوار) بھی مضبوط کیڈر پر مبنی پارٹیاں ہیں۔ ایم وی اے کے حق میں کام کرنے والی مزیدکچھ باتیں ہیں جیسے مراٹھا، مسلم، دلت اور اوبی سی اتحاد اورزرعی بحران کو لے کر دیہی مہاراشٹر میں لوگوں کا غصہ۔ یہ جذبہ بھی کام کر رہا ہے کہ نام نہاد ڈبل انجن حکومت کے ذریعہ ریاست کے مفادات سے سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔
ٰیہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر کو درپیش سیاسی و عوامی مسائل، کیا ان پر بھی گفتگو ہوگی ؟
کچھ تبصرہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ہریانہ کا نتیجہ ایم وی اے میں کانگریس کے حوصلے اور اس کی حالت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایسا اس لئےکیونکہ پارٹی زیادہ سیٹوں پر لڑنے کی امید لگائے ہوئے تھی۔ لوک سبھا کی ۱۳؍ سیٹیں جیتنے کے بعد پارٹی کا حوصلہ بڑھا ہوا تھا۔ ویسے ادھو ٹھاکرے کے ذریعہ یہ کہنے کے بعد کہ انہیں کانگریس اور شرد پوار کے ذریعہ تجویز کردہ وزیر اعلیٰ عہدہ کا امیدوار منظور ہوگا ایم وی اے اور کانگریس دونوں کے حوصلے بلند کرنے والا ہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا تھا کہ اس بار کا انتخاب ان کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں واپسی کے لئے نہیں بلکہ ریاست کو بچانے اور بی جے پی اتحاد کو ہرانے کے لئےوجود کی لڑائی پر مشتمل ہے۔برسراقتدار اتحاد کے کئی لیڈران پہلے سے ہی ایم وی اے میں شمولیت کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پارٹی بدلنے والے لیڈران میں صرف این سی پی (اجیت پوار) کے اراکین اسمبلی ہی ہیں۔ دیویندر فرنویس کے قریبی ہرش وردھن پاٹل، ابھجیت پاٹل اور رمیش کدم جیسے بی جے پی لیڈران حال ہی میں شرد پوار کی این سی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اجیت پوار گروپ کے رامراجے نائک نمبالکر اور دیپک چوہان بھی شرد پوار کی این سی پی کے پاس لوٹ رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ایکناتھ شندے کے قریبی لیڈر دپیش مہاترے ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا میں شامل ہو گئے ہیں۔
مہاراشٹر میںکانگریس ، این سی پی اور شیو سینا تینوں کے پاس لیڈران کا بہت مضبوط کیڈر اور زمینی سطح پر بہترین کارکنان ہیں لیکن کانگریس اب تک اسی زعم میں تھی کہ وہ سب سے بڑی اور پرانی پارٹی ہے اور اس نے لوک سبھا میں مہاراشٹر میں ۱۳؍ سیٹیں جیتی ہیں لیکن ہریانہ اسمبلی میں پارٹی کی غیر متوقع شکست نے اسے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ہے ۔ ہریانہ کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی پارٹی کوتوقع کے مطابق نتائج نہیں ملے ہیں کیوں کہ جموں خطے میںجہاں اس کا مقابلہ بی جے پی سے براہ راست تھاپارٹی چند سیٹوں پر سمٹ گئی جبکہ وادی میں اسے جو فتح ملی ہے وہ نیشنل کانفرنس کی مرہون منت ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ پارٹی نے نیشنل کانفرنس سے اتحاد تو کیا تھا لیکن وہ ہریانہ کی وجہ سے کشمیر میں اس پارٹی کے ساتھ کم ہی نظر آنا چاہتی تھی اسی لئے کانگریس نے پوری طاقت سے کشمیر میں الیکشن نہیں لڑا۔ مگر ہریانہ کی شکست نے اس کے ہوش ٹھکانے لگادئیے ہیں۔
اب مہاراشٹر میں پارٹی نے نہایت عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۸۵،۸۵،۸۵؍ کے فارمولے پر اتفاق کیا ہے۔ حالانکہ اب تک پارٹی کی جانب سے ۱۰۰؍ سے زائد سیٹوں پر لڑنے کا اعلان کیا جارہا تھا لیکن سیٹوں کی تقسیم بات چیت کےٹیبل پر پہنچنے کے بعد پارٹی نے اپنی جانب سے قربانی دینا بھی قبول کیا ہے اور فی الحال وزارت اعلیٰ پر بھی گفتگو نہیں کررہی ہے۔ شیوسینا نے بھی اس معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کانگریس چونکہ قومی پارٹی ہے اس لئے اس کی جانب سے اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے پیچھے ہٹنے سے بہت بڑا پیغام جاتا ہے۔ ووٹرس بھی غالباً یہی دیکھنا چاہتے ہوں گے کہ کانگریس اپنے دعوئوں کے معاملے میں تھوڑی قربانی دے اور مہا وکاس اگھاڑی کو مضبوط کرنے کا کام کرے۔ پارٹی نے ووٹرس کی نبض کو سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے تاکہ اتحاد پر پورا زور رہے اور انتخابی میدان میں پارٹی اپنے ساتھیوں کے ساتھ متحد ہو کر اترے ۔
کانگریس پارٹی نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ صرف مہاراشٹر میں نہیں کیا ہے بلکہ اتر پردیش میں بھی کیا ہے جہاں ۹؍ سیٹوں کے لئے ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے ۔ یہ ۹؍ سیٹیں بی جے پی کے لئے اَنا کا مسئلہ ہیں جبکہ انڈیا اتحاد کے لئے بھی کافی اہم ہیں۔ کانگریس نے یہاں سماج وادی پارٹی سے ابتدائی بات چیت کے بعد اپنا کوئی بھی امیدوار نہ اتارنے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ سماج وادی پارٹی کے امیدواروںکیلئے بلاشرط انتخابی مہم چلائیں گے ۔ اتحاد کا یہ پیغام نہایت اہم ہے اور ہمارا خیال ہے کہ کانگریس کو اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹ جانا یا چند سیٹوںکا نقصان برداشت کرلینا بڑے فائدے کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: وَن نیشن، وَن الیکشن کا نفاذ کتنا مشکل، کتنا آسان؟
حالانکہ کانگریس کے پیچھے ہٹ جانے پر بی جے پی اور اس کے حامی میڈیا نے اسے مقابلے سے پہلے ہی میدان سے ہٹ جانے سے تعبیر کیا لیکن کانگریس نے اس کا بہت اچھا جواب دیا کہ ہم نے میدان نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس میدان کے بہترین کھلاڑیوں کو میدان میں اتارا ہے۔اس وقت ضروری ہےکہ مہاراشٹر اور یوپی دونوں ہی جگہ اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے اور اتحادیوں کو ساتھ میں لے کر بی جے پی کا مقابلہ کیا جائے کیوں کہ کئی ریاستوں میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جہاں کانگریس کا بی جے پی سے براہ راست مقابلہ رہا ہے وہاں بی جے پی کو بالادستی حاصل ہوئی ہے جبکہ جہاں بی جے پی کا مقامی پارٹیوں سے مقابلہ رہا ہے تو وہاں مقامی پارٹیاں فاتح رہی ہیں اسی لئے کانگریس کی موجودحکمت عملی قابل ستائش تو ہے ہی اسے اگلے کئی الیکشن تک برقرار بھی رکھا جانا چاہئے۔ یہ تجزیہ ظاہر کررہا ہے کہ مہاراشٹر میں اپوزیشن بہت اچھی حالت میں ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس کا رویہ بھی ہے جو اس وقت ہریانہ میں انتہائی غیرمتوقع شکست سے دوچار ہونے کے بعد ہوش میں آئی ہے۔ یہی رویہ اگر وہ ایم پی اور راجستھان میں اختیار کرتی اور ہریانہ میںبھی اتحاد کو اہمیت دیتی تو ملک کا منظر نامہ مختلف ہوتا اور نتائج بھی بڑی حد تک اس کی مرضی کے مطابق ہوتے۔بہر حال اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔
کانگریس کی سیاسی حکمت عملی
پارٹی نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ صرف مہاراشٹر میں نہیں کیا ہے بلکہ اتر پردیش میں بھی کیا ہے جہاں ۹؍ سیٹوں کے لئے ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے ۔ یہ ۹؍ سیٹیں بی جے پی کے لئے اَنا کا مسئلہ ہیں جبکہ انڈیا اتحاد کے لئے بھی کافی اہم ہیں۔ کانگریس نے یہاں سماج وادی پارٹی سے ابتدائی بات چیت کے بعد اپنا کوئی بھی امیدوار نہ اتارنے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کے لئے بلاشرط انتخابی مہم چلائیں گے ۔ اتحاد کا یہ پیغام نہایت اہم ہے کانگریس کو اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹ جانا یا چند سیٹوںکا نقصان برداشت کرلینا بڑے فائدے کا سبب بن سکتا ہے۔
مہاراشٹر میں اپوزیشن بہت اچھی حالت میں ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس کا رویہ بھی ہے جو اس وقت ہریانہ میں انتہائی غیرمتوقع شکست سے دوچار ہونے کے بعد ہوش میں آئی ہے۔ یہی رویہ اگر وہ ایم پی اور راجستھان میں اختیار کرتی اور ہریانہ میںبھی اتحاد کو اہمیت دیتی تو ملک کا منظر نامہ مختلف ہوتا اور نتائج بھی بڑی حد تک اس کی مرضی کے مطابق ہوتے۔بہر حال اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔