• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یونیورسٹیوں کی تعداد کے ساتھ ہی تعلیمی معیارمیں بھی اضافہ ضروری

Updated: August 12, 2024, 4:57 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی نے گزشتہ دنوں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کھولیں گے تاکہ عوام کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میںکوئی دقت نہ ہو۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

یوپی کے وزیر اعلیٰ نے ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک خوش آئند بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان کے مطابق یوپی حکومت ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کھولنے کیلئے پر عزم ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ ۷؍ برسوں میں ایک ڈویژن ایک یونیورسٹی کے ہدف کو پورا کر لیا ہے اور اب وہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کھولیں گے تاکہ عوام کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں آسانی ہو۔ آئین کی رو سے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے مراحل کو آسان بنانا سرکار کا فرض ہے اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوپی سرکارکا حالیہ بیان اپنے فرائض کے تئیں اس کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس بیان میں نئییونیورسٹیاں کھولنے کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کی فنڈنگ پر خصوصی زور دیا گیا ہے جو اعلیٰ تعلیم تک سماج کے ہر طبقے کی رسائی سے متعلق حکومت کی حساسیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت سے قائم ہونیوالی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر پانا ان طلبہ کیلئے آسان نہیں ہوگا جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں۔ ایسی صورت میں سب کیلئے تعلیم کے حصول کا حکومتی دعویٰ ناقص ٹھہرتا ہے۔ 
 تعلیمی شعبہ کی مالی اعانت کے معاملے میں مرکز اور ریاستی حکومتوں کا رویہ تقریباً یکساں نظر آتا ہے۔ دونوں سطح پر تعلیمی بجٹ میں تخفیف کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ کا حالیہ بیان بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ عوام کیلئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہ کو آسان بنانے کی خاطر سرکاری خزانے سے زیادہ پرائیویٹ سیکٹر کو ترجیح دیتے ہیں۔ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے سلسلے میں اس طرز کے حکومتی اقدامات مختلف قسم کے ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے ساتھ صریح فریب کے زمرے میں آتے ہیں ۔ عوام اپنی محنت کی کمائی سے ٹیکس ادا کرکے سرکاری خزانہ بھرتے ہیں اور اس کے عوض میں انھیں معیاری علاج دستیاب ہوتا ہے، نہ ہی معیاری تعلیم کے حصول کی راہ آسان ہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:کانوڑیوں کی شرانگیزی پر خاموشی قانون کی حکمرانی کے منافی ہے

ریاست کی آبادی میں اضافہ کے تناسب سے نئی یونیورسٹیوں کا قیام ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن اس فیصلے کو عملی شکل عطا کرنے میں حکومت جس طرح پرائیویٹ سیکٹر سے فنڈنگ کی بات کر رہی ہے اس سے آبادی کا ایک بڑا حصہ نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد بھی اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ سکتا ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں، معیاری تعلیم کے معاملے میں بھلے ہی اطمینان بخش کارکردگی انجام دے رہی ہوں لیکن ان کی بھاری بھرکم فیس ادا کرپانا ہر کسی کیلئے ممکن نہیں۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں یوپی کے حالات یوں بھی بہت اچھے نہیں ہیں اور گزشتہ ایک دہائی کے دوران جس طرح کی معاشی پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں ان کی وجہ سے نہ صرف دولت کی تقسیم کے معاملے میں عدم مساوات تشویش ناک سطح پر پہنچ گیا ہے بلکہ بے روزگاری میں اضافہ بھی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ ایسی صورت میں مالی اعتبار سے کمزور طلبہ کیلئے اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے معاملے میں اگر حکومت پرائیویٹ فنڈنگ کو ترجیح دے گی تو یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ سماج کے ہر طبقہ کیلئے اعلیٰ تعلیم تک رسائی ممکن ہو پائے گی۔ پرائیویٹ فنڈ نگ سے نئی یونیورسٹیوں کا قیام اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے کے بجائے تعلیم کو سماج کے مخصوص طبقوں تک محدود کر سکتا ہے جس سے تعلیمی سطح پر سماجی عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔ 
 ریاست میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو یونیورسٹیاں پہلے سے موجود ہیں ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ تعلیمی معیار کے معاملے میں یوپی کی بعض سینٹرل یونیورسٹیزکے علاوہ بقیہ تمام یونیورسٹیز کے حالات بہت اطمینان بخش نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کی درجہ بندی کیلئے قائم کئے گئے سرکاری اداروں سے امتیازی اسناد حاصل کرنے والی یونیورسٹیز کے حالات بھی بہت بہتر نہیں ہیں اور یہی حال ان کالجوں کا بھی ہے جو ان یونیورسٹیوں سے ملحق ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے قائم ہونے والے کالجوں کی تعداد کے لحاظ سے یوپی، مہاراشٹر کے بعد ملک کی دوسری ریاست ہے لیکن ان میں سے بیشتر کا تعلیمی معیار انتہائی ناقص ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معاملے میں مقدار سے زیادہ معیار کو پیش نظررکھنے کی ضرورت ہے۔ ادھر گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران جو یونیورسٹیاں یوپی میں قائم ہوئیں ان میں چند ایک کو چھوڑ کر ابھی تک کسی بھی یونیورسٹی کو تعلیمی معیار کے معاملے میں کوئی نمایاں حیثیت نہیں حاصل ہو سکی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ایس سی ایس ٹی ریزرویشن پرعدالتی فیصلےکو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے

ریاست میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے کم از کم دو اہم اقدام ناگزیر ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت یونیورسٹیوں کو مالی اعانت فراہم کرنے میں بجٹ کی کمی کا رونا، رونا بند کرے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران جن یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا ہے ان کے انفراسٹرکچر اور دیگر تعلیمی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بعض یونیورسٹیوں میں پینے کا پانی اور بیت الخلا جیسی بنیادی سہولتیں ندارد ہیں۔ ایسی سہولتوں سے محروم یونیورسٹیوں میں مختلف کورسیز کی فیس میں اضافے کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کے بعد بھی طلبہ نہ صرف بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں بلکہ انھیں وہ تعلیمی وسائل بھی دستیاب نہیں ہیں جو ان کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ 
 ریاست میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے معیار کو اس سیاسی روش نے بھی متاثر کیا ہے جس کے سبب تعلیم و تدریس سے زیادہ سرکاری پروپیگنڈہ کو ترجیح حاصل ہو گئی ہے۔ اس روش کے سبب طلبہ کو کئی طرح کے ایسے اضافی کاموں میں ملوث ہونا پڑتا ہے جن کا مقصد عوامی سطح پر حکومتی پالیسیوں کو مقبول بنانا ہے۔ اس ضمن میں طلبہ کے علاوہ اساتذہ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کا ایسے اضافی کاموں میں ملوث ہونا پورے تعلیمی نظام کو متاثر کر رہا ہے اور اقتدار کے بہی خواہ وائس چانسلروں کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ اس روش کی روک تھام کیلئے کوئی تدبیر کریں۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ریاست میں قائم ہونے والی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر، اساتذہ اورغیر تدریسی عملے کی تقرری میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے معاملات سامنے آئے ہیں ۔ بدعنوانی کے ایسے معاملات نے بھی تعلیمی معیار کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت ریاست کی بعض یونیورسٹیوں میں ایسے وائس چانسلر بھی عہدہ پر براجمان ہیں جن کی تعلیمی اہلیت مشکوک ہیں لیکن سیاسی رسوخ اور مالی جوڑ توڑ سے وہ ہر سطح پر سسٹم کا استحصال کر رہے ہیں۔ اقتدار کی بعض قد آور شخصیات سے قرب رکھنے والے وائس چانسلروں کی ایسی من مانی نہ صرف مالی اعتبار سے یونیورسٹیز کو کمزور بنا رہی ہے بلکہ اس کے سبب اساتذہ اور طلبہ کے اندر عدم تحفظ کی کیفیت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا اساتذہ اور طلبہ جی ہاں، جی ہاں کرتے رہنے کی خو اختیار کر لیتے ہیں اور اس کی وجہ سے تعلیم و تدریس کے ماحول میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو مجموعی طور پریونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو متاثر کرتی ہیں۔ اس وقت یوپی کی کئی اسٹیٹ یونیورسٹیوں کے حالات کم و بیش اسی نوعیت کے ہیں ۔ 
 ریاست میں ’ایک ضلع، ایک یونیورسٹی‘ کا عزم ظاہر کرنے والے وزیر اعلیٰ کو اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ان خامیوں کو بھی دور کرنے کی ٹھوس تدابیر کرنا چاہئےلیکن اس کیلئے انھیں بھی اپنے بعض ایسے عارضی مفادات کو درکنار کرنا ہوگا جس کی زد پر آنے سے یوپی کی کئی یونیورسٹیوں کا تعلیمی معیار رو بہ زوال ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئی یونیورسٹیز کے قیام میں حکومتی سطح پر مالی اعانت کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کے ان کمزور طلبہ کیلئے بھی اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہو سکے جو پرائیویٹ یونیورسٹیز کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر حکومت ان نکات پر سنجیدہ توجہ دے تو ہی اعلیٰ تعلیم کو عام کیا جا سکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK