• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایس سی ایس ٹی ریزرویشن پرعدالتی فیصلےکو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے

Updated: August 11, 2024, 5:29 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai

گزشتہ ۷۵؍برسوں میں ’مہادلت‘ برادری ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ریزرویشن میں درجہ بندی کا فیصلہ اس’ مہادلت‘ برادری کو اپنا حصہ دینے کیلئے ایک چھوٹی سی تاخیر سے کی گئی پہل ہے لیکن اس پر جاری قومی بحث میں ان کی آواز غائب ہے۔اس سماج کے پاس نہ قومی لیڈر ہیں، نہ اس کے اپنے دانشور، ترجمان اور نہ ہی بڑے چہرے۔

The Supreme Court has revived this debate once again with its decision. Photo: INN
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے اس بحث کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ کے ایس سی، ایس ٹی کےریزرویشن میں داخلی تقسیم کو قانونی شکل دینے کے فیصلے سے پیدا ہونے والی بحث نے ہمیں نظریےکے کھیل کی یاد دلائی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں کالج یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا، لوہیا کے سوشلزم میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور دلت قبائل ریزرویشن کا حامی تھا، تب تک منڈل کمیشن نافذ نہیں ہوا تھا اور میری ذات کے لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملا تھا۔ 
ان دنوں میں اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں سے ریزرویشن پر تنقید سنتا تھا اور ان سے بحث بھی کیا کرتا تھا لیکن جیسے ہی منڈل کمیشن نافذ ہوا، ریزرویشن سے متعلق ان کے خیالات بدلنے لگے۔ اب وہ سماجی انصاف کی بات کرنے لگے۔ کبھی کبھار جیوتی با پھلے اور بھیم راؤ امبیڈکر کا ذکر بھی آنے لگا۔ اب جب میں شہری اور نسبتاً متمول یادو برادری کے لوگوں میں `کریمی لیئر کی مخالفت سنتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا ان کے نقطۂ نظر کا اس زاویے سے بھی کوئی تعلق ہے جہاں زندگی انہیں لے گئی ہے؟
ریزرویشن میں درجہ بندی کے لحاظ سے نقطۂ نظر کے تین مختلف زاویئے ہیں۔ پہلا گوشہ تماشائیوں کیلئے ہے۔ `یہ ان لوگوں کا معاملہ ہے، مجھے اس سے کیا لینا دینا؟ یا `اب مزہ آئے گا، جب وہ آپس میں لڑیں گے!، کیا وہ نہیں تھے؟ اب مزہ چکھو، جب تمہارے اپنے لوگ تم سے انصاف مانگیں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سنڈے اسپیشل : ویڈیو گیمز کی لت سے والدین اپنے بچوں کو کس طرح چھٹکارہ دلائیں؟

یعنی’ میاں کی جوتی میاں کے سر‘، اس معاملے پر میڈیا میں ہونے والی بحثوں میں اکثر یہی نظر آتا ہے۔ یا تو جہالت ہے یا بے حسی یا دونوں۔ گویا منی پور میں میتئی اور کوکی تنازع پر بات ہو رہی ہے یا پھر یوکرین روس جنگ پر۔ یہ ایک نوآبادیاتی ویژن ہے جیسا کہ مالک اپنے غلاموں کی لڑائیوں کو دیکھتا ہے۔ 
دوسرا نقطہ ٔ نظر دلت سماج کے اس حصے کا ہے، جسے اب ترقی یافتہ بتایا جا رہا ہے اور جسے اس فیصلے کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ذات پات کے نظام اور اچھوت کا شکار اس دلت سماج کا ایک چھوٹا سا طبقہ کسی نہ کسی طرح ریزرویشن کی مدد سے کھڑا ہوا ہے۔ وہ اپنے ہی شیئرز میں ریزرویشن کی تقسیم کے بارے میں سن کر پریشان ہے۔ لیڈران اس بات کو یقینی بنانے کیلئے انتظامات کرنے کیلئے تیار ہیں کہ اس کی تشویش جاری رہے۔ انہیں کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ آپ کا کوٹہ نہیں چھینا جا رہا ہے، آپ کا حصہ آپ کی آبادی کے مطابق رہے گا۔ 
جن کو الگ ٹکڑا دیا جا رہا ہے وہ بھی آپ کے لوگ ہیں، ذات پات کا شکار ہیں اور آپ سے کم تر جگہ پر کھڑے ہیں۔ کچھ سچے اور کچھ جھوٹے خدشات کو دکھا کر اور بڑھا کر یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ریزرویشن ختم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ 
تیسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جن کیلئے یہ فیصلہ سنایا گیا تھا یعنی دلت اور دلتوں کے `مہادلت۔ ہمارے سماج میں پائی جانے والی یہ وہ برادریاں ہیں جو ذات پات کے نظام کی سب سے نچلی سطح پر کھڑی ہیں۔ ان طبقات کو بالمیکی، مانگ، موسہر، بھوئیاں، ڈوم، پاسی، ماڈیگا، اروندھتیار، چکلیار جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ 
اپنے دماغ کی غلاظت کو چھپانے کیلئے باقی لوگ اس صاف ستھرے معاشرے کو حقیر سمجھتے رہے ہیں۔ گزشتہ ۷۵؍برسوں میں یہ ’مہادلت‘ برادری ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ریزرویشن میں درجہ بندی کا فیصلہ اس’ مہادلت‘ برادری کو اپنا حصہ دینے کیلئے ایک چھوٹی سی تاخیر سے کی گئی پہل ہے لیکن اس معاملے پر جاری قومی بحث میں ان کی آواز غائب ہے۔ اس سماج کے پاس نہ قومی لیڈر ہیں، نہ اس کے اپنے دانشور، ترجمان اور نہ ہی بڑے چہرے۔ ان کا نقطۂ نظر کہیں  کھو جاتا ہے۔ 
مجھےگزشتہ ۲۰؍ برسوں سے اس نظر اندازگوشے میں جانے اور اس کے تناظر کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ ’ آدی دھرم سماج ‘نامی مہم کے سربراہ درشن رتن `راون، کے ستسنگ میں، میں نے شمالی ہندوستان کی بالمیکی برادری کی حالت زار سنی ہے، ان کی جدوجہد کا گواہ رہا ہوں اور ان کی نئی نسل کے خوابوں کی پرواز میں حصہ دار بھی ہوں۔ 

یہ بھی پڑھئے:غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کا اب کیا ہوگا؟

چنانچہ جب عدالت کا فیصلہ آیا تو میں نے اس زاویے سے اپنا نقطۂ نظر شامل کیا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمارا نقطۂ نظر ہماری پیدائش کے اتفاق سے جڑا ہو لہٰذااس سوال پر بحث کرنے والے ہر فرد سے میرا سوال یہی ہے کہ اس تعلق سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟باقی لوگ صفائی والے طبقے کو حقیر سمجھتے رہتے ہیں لیکن آپ کیا سمجھتے ہیں ؟
کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ کوٹہ چھینا نہیں جارہا ہے
دوسرا نقطہ ٔ نظر دلت سماج کے اس حصے کا ہے، جسے اب ترقی یافتہ بتایا جا رہا ہے اور جسے اس فیصلے کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ذات پات کے نظام اور اچھوت کا شکار اس دلت سماج کا ایک چھوٹا سا طبقہ کسی نہ کسی طرح ریزرویشن کی مدد سے کھڑا ہوا ہے۔ وہ اپنے ہی شیئرز میں ریزرویشن کی تقسیم کے بارے میں سن کر پریشان ہے۔ لیڈران اس بات کو یقینی بنانے کیلئے انتظامات کرنے کیلئے تیار ہیں کہ اس کی تشویش جاری رہے۔ انہیں کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ آپ کا کوٹہ نہیں چھینا جا رہا ہے، آپ کا حصہ آپ کی آبادی کے مطابق رہے گا۔ جن کو الگ ٹکڑا دیا جا رہا ہے وہ بھی آپ کے لوگ ہیں، ذات پات کا شکار ہیں۔ کچھ سچے اور کچھ جھوٹے خدشات کو دکھا کر اور بڑھا کر یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ریزرویشن ختم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تیسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جن کیلئے یہ فیصلہ سنایا گیا تھا یعنی دلت اور دلتوں کے `مہادلت۔ ہمارے سماج میں پائی جانے والی یہ وہ برادریاں ہیں جو ذات پات کے نظام کی سب سے نچلی سطح پر کھڑی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK