• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

کارپوریٹ دنیا کے جغادریوں کا ملازمین کو غلام سمجھنے کا رویہ

Updated: January 21, 2025, 11:22 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

سبرامنین اور نارائن مورتی جس طرح ہفتے میں ۹۰؍ گھنٹے اور ۷۰؍ گھنٹے کام کرنے کی باتیں کرتے ہیں ،اس سے ان کے غیرانسانی رویے کااظہار ہوتا ہے

L&T chief SN Subramanian. Photo: INN
ایل اینڈ ٹی سربراہ ایس این سبرامنین۔ تصویرـ ائی این این

ایل اینڈٹی کے چیئرمین ایس این سبرامنین نے ملازمین کو ہفتے میں ۹۰؍گھنٹہ کام کرنے کا جو مشورہ دیا ہے وہ نہ صرف ان کے غیر انسانی رویے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کارپوریٹ دنیا میں اونچے عہدوں پر براجمان افراد ملازمین کو صرف ایک غلام ہی سمجھتے ہیں۔ سبرامنین نے اپنے اس آمرانہ قسم کے بیان کے جواز میں جس پہلو پر بطور خاص زور دیا ہے وہ بھی ان کے غیرانسانی رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک فرد اگر کسی فیکٹری، کمپنی یا کسی ادارے میں ملازمت کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ وہ اپنی خانگی اور سماجی زندگی سے وابستہ تمام فرائض اور ذمہ داریوں سے بری ہو گیا ہے۔ ان کے بیان میں خواتین کی ہتک کا پہلو بھی شامل ہے۔ کسی شخص کا اپنی بیوی کو نہارنا یا اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارناسبرامنین جیسے کارپوریٹ جغادریوں کو اب اس حد تک اکھرنے لگا ہے کہ وہ ہفتہ واری تعطیل کو بھی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ اس طرز کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل انفوسس کے معاون بانی نارائن مورتی نے بھی ہفتے میں ۷۰؍گھنٹے کام کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کے مطابق ہفتے میں ۷۰؍گھنٹے کام کرنے سے ہی ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھے گا۔ ترقی کا یہ ایسا ظالمانہ تصور ہے جو انسانوں کو ایک معمولی مادی شے سے بھی حقیر سمجھتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایسی دوستی، جس کیلئے ملک کی ساکھ داؤ پر لگادی گئی ہے

 سبرامنین اور نارائن مورتی جیسے لوگ جس طرح کی پرتعیش زندگی گزارتے ہیں اس عیش و آسائش کا عشر عشیر بھی ان کے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کو حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان بڑے عہدے داروں کے کام کی نوعیت بھی ماتحت ملازمین کے کاموں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا ہی انتہائی غیر مناسب ہے کہ چونکہ سبرامنین خود سنڈے کو بھی کام کرتے ہیں، اسلئے ان کے تمام ملازمین کو بھی اتوار کی تعطیل ترک کر دینا چاہئے۔ سبرامنین کی سالانہ تنخواہ ۵۱؍کروڑ روپے ہے جو اُن کی کمپنی کے ملازموں کی اوسط تنخواہ سے تقریباً۵۳۴؍گنا زیادہ ہے۔ ایسی موٹی تنخواہ لینے والوں کے ذہن و زبان پر چربی چڑھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ سبرامنین جیسے کارپوریٹ جغادری اپنے ملازمین کا مختلف طرح سے استحصال کرنا ایک عام بات سمجھتے ہیں۔ ۹۰؍گھنٹہ کام کرنے کا مشورہ دینے والے سبرامنین کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین ہفتے میں اکثر اس میعاد سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ایک ملک گیر سروے میں یہ سچائی کچھ اس طور سے ظاہر ہوئی تھی کہ اس سروے میں شامل ۸۸؍ فیصد ملازمین نے کہا تھا کہ ان کے باس چھٹی میں بھی بذریعہ فون ان سے رابطے میں رہتے ہیں اور اگر ان کے فون کا جواب نہ دیا جائے تو انھیں مختلف طرح سے پریشان کیا جاتا ہے۔ کارپوریٹ دنیا کی یہ ایسی سفاک سچائی ہے جو متوسط اور نچلے درجہ کے ملازمین کو گوشت پوست کا انسان سمجھنے کے بجائے ایک روبوٹ سمجھتی ہے جس سے ہر وقت کام لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ 
 ملک میں بے روزگاری جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس نے بڑی حد تک ملازمین کو اس استحصال کا عادی بھی بنا دیا ہے۔ شاپنگ مالس اور مختلف کمپنیوں کے شوروم میں کام کرنے والے ملازمین عموماً ۸؍ سے ۱۰؍گھنٹہ یومیہ کام کرتے ہیں اور اس کے عوض میں انھیں ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ یہ ملازمین ایسی قلیل تنخواہ میں جی توڑ کر محنت کرتے ہیں کیوں کہ انھیں پتہ ہے کہ ملک کی معیشت کو ناعاقبت اندیش ارباب اقتدار نے جس راہ پر ڈال دیا ہے اس میں یہی بہت ہے کہ انھیں تنخواہ کی شکل میں کچھ تو مل رہا ہے۔ ۸؍ سے ۱۰؍ گھنٹہ کام کرنے والے یہ ملازمین کم از کم بارہویں یا گریجویشن تک تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جو اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائےاپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے کتنا کرب اور اضطراب ہوتا ہے، اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو اس مہنگائی کے دور میں ایسی تھوڑی سی رقم کے سہارے اپنا گھر چلاتا ہو۔ یہ احساس نہ تو سبرامنین کو ہوگا اور نہ ہی نارائن مورتی کو جو انتہائی پرتکلف اور پرشکوہ زندگی گزارتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: طلبہ کی تعداد میں کمی تعلیمی نظام کی تشویشناک حقیقت بیان کرتی ہے

 گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک معاشی سطح پر جس عدم توازن کا نمونہ بن گیا ہے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ کارپوریٹ گھرانوں کا منافع گزشتہ ۱۵؍ برسوں میں سب سے زیادہ رہا جبکہ ان کے ملازمین کی تنخواہ میں بہت معمولی اضافہ ہوا۔ اقتدار کے منظور نظر کارپوریٹ گھرانے اس میں سر فہرست ہیں جنھوں نے کووڈ جیسی وبا میں بھی ۳؍ گنا زیادہ منافع کمایا۔ ٹیکس کے معاملے میں حکومتی سطح پر ان گھرانوں کو جو رعایت فراہم کی گئی وہ بھی ایک طرح سے ملازمین کی حق تلفی ہی ہے۔ اس تناظر میں سبرامنین اور نارائن مورتی کے بیانات سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اندر ہی اندر کچھ ایسامنصوبہ تیار ہورہا ہے جس کے ظہور اور نفوذ کے بعد بیچارے ملازمین کو اسے طوعاً و کرہاً قبول کرنا ہی پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے ہندوستانیوں کی وہ توانائی سلب کردی ہے جو ایسے غیر انسانی احکامات کے خلاف سینہ سپر ہوکر اپنے آئینی حق کو دریافت کر سکیں۔ 
  قانون نے ہرشہری کو ہفتے میں ۴۸؍گھنٹہ کام کرنے کا مجاز قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود پرائیویٹ اور بعض سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اس ہفتہ واری میعاد سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ اس کے عوض میں انھیں ۵۰؍ سے ۱۱۰ ؍ ڈالر ملتے ہیں۔ اگر اس کا موازنہ ترقی اور خوشحالی میں سرفہرست امریکہ، سوٹزر لینڈ، کناڈا، جاپان اور جرمنی جیسے ملکوں سے کیا جائے تو ایسی ہیبت ناک حقیقت آشکار ہوتی ہے جو ہندوستانی ملازمین کے استحصال سے عبارت ہے۔ ایک امریکی ہفتے میں ۳۰؍گھنٹہ کام کرتا ہے اور ۱۱؍سو سے ۱۶۵۰؍ ڈالر کماتا ہے۔ سوٹزرلینڈ میں ۳۵؍گھنٹہ اور ۱۶۵۰؍سے ۱۹۸۰؍ ڈالر، کناڈا ۳۲؍ گھنٹہ اور ۷؍سو سے ۱۱۲۵؍ ڈالر اور ایسی ہی صورتحال ان دیگر ملکوں کی ہے جو ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان چند مثالوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صرف کام کے گھنٹے بڑھا دینے سے ملک ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں نکل سکتا بلکہ اس کیلئے جس تدبرآمیز دور اندیشی کی ضرورت ہے وہ اس ملک کے پالیسی سازوں کو میسر نہیں ہے۔ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے سلسلے میں صرف زبانی دعوؤں سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کیلئے ایسی ٹھوس اور نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جاتی ہے جو ان دعوؤں کو حقیقی شکل عطا کر سکے۔ 
ترقی اور خوشحالی کے معاملے میں صورتحال بھلے ہی بہت اطمینان بخش نہ ہو لیکن کام کے دباؤ سے ملازمین کی اموات کے معاملے میں ہندوستان کا گراف تیزی سے اوپر اٹھ رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کی مانیں تو ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۱ء کے درمیان تقریباً ۷؍ہزار ملازمین کی موت کام کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کووڈ کے بعد جس طرح کام کے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اس کے مد نظر ایسی اموات میں بھی کافی اضافہ ہوا ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اوسطاً ۳؍ملازمین روازنہ کام کے دباؤ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ملازمین کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو اس دباؤ کے سبب امراض قلب، موٹاپا، بلڈ پریشر، ذیابیطس، مائیگرین اور دیگر قسم کی بیماریوں کا شکار ہو تے ہیں۔ ان مسائل سے دوچار ہونے والے ملازمین کی پیشہ ورانہ کارکردگی تو متاثر ہوتی ہی ہے اس کی خانگی اور سماجی زندگی میں بھی سنگین قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جس کے سبب ان کی زندگی ہمہ وقت انتشار اور کرب میں مبتلا رہتی ہے۔ 
 کارپوریٹ کے جغادری ملازمین کا خون چوسنے والے جو مشورے دے رہے ہیں وہ یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ دراصل ملک میں ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ۴۸؍گھنٹے کے بجائے ۷۰؍ یا ۹۰؍ گھنٹہ کام کرنے کو قانونی شکل دے دی جائے۔ اس ماحول سازی کے عمل میں اقتدار اعلیٰ کا وہ جملہ بھی بہت معنی خیز ہے جس میں ۴؍ گھنٹہ سونے اور بقیہ وقت کام میں مصروف رہنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس قبیل کے لایعنی دعوے اس میڈیکل سائنس کے بھی خلاف ہیں جو ایک صحت مند انسان کیلئے ۶؍ تا ۸؍ گھنٹہ کی نیند کو لازمی قرار دیتی ہے۔ کارپوریٹ اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انھیں کولہو کا بیل بنا دیا جائے اور وہ دھرم کی نشہ آور سیاست کے آگے اسے بھی تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK