• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

طلبہ کی تعداد میں کمی تعلیمی نظام کی تشویشناک حقیقت بیان کرتی ہے

Updated: January 19, 2025, 6:46 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

۲۴۔۲۰۲۳ء میں اسکولوں میںملک گیر سطح پر داخلوں میں ۳۷؍لاکھ کی کمی حالات پر سنجیدگی سے غور اور نتیجہ خیز اقدامات کی فوری ضرورت کی جانب متوجہ کرتی ہے

The current government`s behavior is like that of a warrior who claims to have conquered the battlefield with an empty quiver. Photo: INN
موجودہ حکومت کا رویہ اس جنگجو کی مانند ہے جو خالی ترکش کے سہارے میدان سر کرلینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ تصویر: آئی این این

وزارت تعلیم کی یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن(یو ڈی آئی ایس ای)رپورٹ کے مطابق تعلیمی سال ۲۴۔ ۲۰۲۳ء میں اسکولوں میں ملک گیر سطح پر داخلوں میں ۳۷؍لاکھ کی کمی آئی ہے۔ یہ کمی ایس سی، ایس ٹی، اوبی سی اور لڑکیوں کے زمرہ میں سب سے زیادہ ہے۔ ان ۳۷؍ لاکھ میں طلبا کی تعداد ۱۶؍ لاکھ جبکہ طالبات کی تعداد میں ۲۱؍لاکھ کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ حکومتی ڈیٹا تعلیمی نظام کی ایسی تشویش ناک حقیقت بیان کرتا ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور فوری طور پر نتیجہ خیز اقدامات کر نے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی محکمۂ تعلیم نے اپنے دفاع میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ کوئی گراوٹ نہیں ہے کیوں کہ کچھ طلبہ کی تعداد رجسٹرنہیں ہوئی ہے اور کچھ جگہوں کا ڈیٹا ابھی دستیاب نہیں ہوا ہے۔ ملک کے موجودہ تعلیمی نظام سے واقفیت رکھنے والوں کو بخوبی پتہ ہے کہ محکمہ ٔ تعلیم کا یہ جواز صرف کمیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک تدبیر ہے۔ ممکن ہے کہ بعض جگہوں کی تفصیلات اسے حاصل نہ ہو سکی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں کے حالات اس قدر اطمینان بخش ہیں جو اسکول اور کالج سطح پر طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کا خاطرخواہ بندوبست کرتے ہوں۔ 

یہ بھی پڑھئے: اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے مودی کو ایوارڈ،چاپلوسی کی انتہا

طلبہ کی گھٹتی تعداد اور سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ایسے حکومتی دعووں کی قلعی اتار دیتا ہے جس میں تعلیم کے تئیں اقتدار کی فکرمندی ظاہر کی جاتی ہے۔ اقتدار نے ملک کو ’وشو گرو‘ بنانے کا دلفریب زبانی عزم تو ظاہر کیا لیکن اس عزم کو حقیقت کی شکل عطا کرنے کیلئے تعلیمی شعبے میں جو اصلاحی اقدامات درکار تھے ان کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیارتشویش ناک حد تک خراب ہے۔ اس معیار کو بہتر بنانے کے عملی اقدامات کی بجائے اسکولوں اور کالجوں کو سرکاری تشہیر کا پلیٹ فارم بنا دیا گیا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی بھی ان اداروں کے تعلیمی معیار کے گرنے کی وجہ ہے۔ اس ضمن میں ایک بڑا سبب سرکاری تعلیمی اداروں کا ان بنیادی سہولیات سے محروم ہونا ہے جو طلبہ کی تعلیمی ترقی کیلئے لازمی عنصر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ارباب اقتدار اور محکمہ ٔ تعلیم کے ارباب حل و عقد اِن مسائل کا تصفیہ کرنے کی بجائے اسی روایتی طرز عمل پر منحصر ہیں جو بڑی حد تک اپنی افادیت اور معنویت کھو چکا ہے۔ 
اسکولوں میں طلبہ کے داخلوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی کمی کا ایک خاص سبب موجودہ حکومت کی غیر متوازن معاشی پالیسیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے متوسط طبقہ بہت تیزی سے دائرہ ٔ افلاس میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقات کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ ایسی صورت میں اگر ان طبقات کے بچوں نے پڑھائی سے منہ موڑ لیا ہے تواس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ حکومت اگر واقعی ان طبقات کے تئیں سنجیدہ ہے تو اسے یہ بھی پتہ لگانا چاہیے کہ ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقات کے جن بچوں نے پڑھائی ترک کر دی ان کی زندگی اب کس ڈھرے پر گزر رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گھر کی خستہ مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ان بچوں نے بچہ مزدوری کا راستہ اختیار کر لیا ہو؟ اس وقت ملک کا متوسط اور غریب طبقہ جس کمرتوڑ مہنگائی سے دوچار ہے اور اس طبقہ کیلئے آمدنی کے ذرائع جس طرح محدود سے محدور تر ہوتے جا رہے ہیں اس کے تناظر میں اس امکان کو یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا۔ 

یہ بھی پڑھئئے: اقتدار کی چاپلوسی کیلئے قومی وقار کا سودا کرنے والے مسلمان

 ملک میں بچہ مزدوری پر قدغن لگانے کی خاطر سخت قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ سماج میں برقرار ہے۔ دیہی علاقوں میں ہوٹلوں یا دیگر چھوٹی دکانوں پر کم عمر بچوں کو محنت مزدوری کرتے ہوئے اکثر دیکھا جا سکتا ہے۔ جس عمر میں ان بچوں کو تعلیم سے بہرہ مند ہونا چاہیے اس عمر میں وہ سخت محنت کرنے اور اپنے مالکان سے سخت سست سن کر اپنے گھر کے مالی مسائل کا تدارک کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ۲۰۲۱ء کے ایک سروے کے مطابق ملک میں بچہ مزدوروں کی تعداد تقریباً ۸۱؍لاکھ تھی جو ۲۰۲۵ء تک ۷۴؍لاکھ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ ملک میں بچہ مزدوروں کی کل تعداد کا ۵۶؍ فیصد یوپی، بہار، مہاراشٹر اور راجستھان میں ہے۔ ان میں مہاراشٹر کو چھوڑ کر بقیہ تینوں ریاستوں میں صورتحال تشویشناک حد تک غیر اطمینان بخش ہے۔ ان ریاستوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ٹھوس اور نتیجہ خیز حکمت عملی کا فقدان ایسی تلخ حقیقت ہے جسے نظرا نداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
 ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کی زندگی کو کئی سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ مالی اعتبار سے کمزور طبقہ میں تعلیم سے زیادہ پیسہ کمانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسکولوں میں داخلے کم ہو رہے ہیں تو یہ حکومت کی اس ناکامی کو نمایاں کرتے ہیں جو عوامی زندگی کو بہتر بنانے کے صرف زبانی دعوے کرتی ہے اور جب مرحلہ ان باتوں کو عملی شکل دینے کا آتا ہے تو مختلف طرح کے عذر پیش کرنے لگتی ہے۔ داخلوں میں کمی کے سلسلے میں بھی ایسا ہی عذر پیش کرکے اسے ایک عام بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقات کے علاوہ لڑکیوں کے داخلے میں بھی کمی درج کی گئی ہے۔ حالانکہ ملک گیر سطح پر لڑکیوں کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو لڑکوں کے مقابلے بیشتر ان کا گراف اونچا ہی رہا ہے۔ اس وقت معاشرہ جن سماجی اور اقتصادی پیچیدگیوں سے دوچار ہے اس کے پیش نظر لڑکیوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ بعض ریاستوں میں لڑکیوں کی تعلیمی صورتحال خوش آئند ہے لیکن ملک کی شمالی ریاستوں میں یہ منظرنامہ اب بھی بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ حکومت کی غیر متوازن اور ناقص معاشی پالیسیوں نے بیشتر والدین کو اسی روایتی فکر کا حمایتی بننے پر مجبور کر دیا ہے جس میں لڑکیوں کی ناخواندگی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ کم آمدنی اور بڑھتی مہنگائی کے سبب لڑکیوں کی تعلیم کو اضافی مالی بوجھ سمجھنے والے والدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے والدین لڑکیوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی دلیلوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر بھی انھیں گھربار ہی چلانا ہے۔ حکومت نے جس زور و شور سے ’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘ کا دلفریب نعرہ دیا تھا اس پر اگر اسی جوش و خروش کے ساتھ عمل بھی ہوتا تو اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے میں ایسی کمی واقع نہ ہوتی۔ 

یہ بھی پڑھئے: نئی تعلیمی پالیسی کےنفاذ میں طلبہ پرمرکوز طرز ِعمل کا فقدان بڑی خامی ہے

حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کا خاطر خواہ بندوبست نہ ہونا بھی داخلوں میں کمی کا ایک اہم سبب ہے۔ پینے کا صاف پانی اور بیت الخلا کا مناسب انتظام نہ ہونا اب بھی سرکاری اسکولوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کی دیگر تعلیمی ضروریات کی فراہمی کا معاملہ بھی بیشتر سرکاری اسکولوں میں بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ ایسے مسائل کے تدارک کے لیے حکومت کی جانب سے جو فنڈ مختص کیا جاتا ہے وہ بھی افسر شاہی کی بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ مختص رقم کا ایک مخصوص حصہ ہی اسکول کے مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کاغذی طور پر اسکولوں کے حالات بہتر ہونے کا دعویٰ تو افسران کی جانب سے خوب کیا جاتا ہے لیکن ان اسکولوں میں طلبہ کی گھٹتی تعداد ان دعووں کی حقیقت کوآشکار کر دیتی ہے۔ 
 تعلیم کے سلسلے میں موجودہ حکومت کا رویہ اس جنگجو کی مانند ہے جو خالی ترکش کے سہارے میدان سر کرلینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران سیکڑوں مرتبہ ملک کو ’وشو گرو‘ بنانے کی بات کہی گئی لیکن اس ہدف کے حصول میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے تعلیمی شعبہ کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کا بیشتر فقدان ہی نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ دائیں بازو کے سیاسی و مذہبی عناصر نے تعلیمی اداروں میں بھی فرقہ واریت کو جو بڑھاوا دیا ہے وہ بھی ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کم عمر بچوں کو مذہبی بنیاد پر زد و کوب اور ذلیل کیا گیا۔ محکمہ ٔ تعلیم اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے جو بھی تاویل پیش کرے لیکن سچائی یہ ہے کہ جب تک ان مذکورہ مسائل کے تدارک کا خاطرخواہ بندوبست نہیں کیا جائے گا تب تک نہ تو طلبہ میں تعلیم کا ذوق پروان چڑھے گا اور نہ ہی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار میں اضافہ ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK