• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملک کے ’سول کوڈ‘ کو فرقہ وارانہ قرار دینا دراصل ’دستور ساز اسمبلی‘ کی توہین

Updated: August 25, 2024, 5:55 PM IST | Prof. Ravi Kant | Mumbai

کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ جو جماعت کھلے عام سیکولرازم کو ملک پر داغ قرار دیتی رہی ہے، وہ اچانک سیکولر ہونے کا ڈراما کرنے لگی ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بی جے پی کی شکست کی وجہ سے ہے یا نریندر مودی کا اپنا انداز ہے جس کے ذریعے وہ ملک کو مسلسل گمراہ کرتے رہے ہیں؟

This time Prime Minister Modi has tried to target Muslims by using the name of `secularism`. Photo: INN
وزیراعظم مودی نے اس مرتبہ ’سیکولرازم ‘ کا نام لے کر مسلمانوں پر نشانہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ تصویر : آئی این این

ملک کے۷۸؍ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے کی گئی وزیر اعظم مودی کی تقریر کی الگ الگ طریقوں سے تنقید و تعریف کی جا رہی ہے۔ مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ سول قانون فرقہ وارانہ ہے۔ ان کی حکومت ’کامن سول کوڈ‘ کے ذریعے ملک میں ’سیکولر سول کوڈ‘ قائم کرنا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ سول کوڈ کے حوالے سے آئین ساز اسمبلی میں طویل بحث ہوئی تھی۔ ڈاکٹر امبیڈکر اور اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ’کامن سول کوڈ‘ کے حقمیں تھے، لیکن آئین ساز اسمبلی میں اس پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا۔ اسلئے رہنمایانہ اصولوں کی دفعہ ۴۴؍ میں یکساں سول کوڈ کو شامل کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ اس کا نفاذ مسلم، عیسائی اور دیگر مذہبی طبقوں کی رضامندی ہی سے کیا جائے گا۔ 
 اس پر پہلے بھی بحث ہو تی رہی ہے لیکن موجودہ سول قانون کو فرقہ وارانہ قرار دے کر کیا نریندر مودی نے پوری دستور ساز اسمبلی، ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو اور آئین کے خالق ڈاکٹر امبیڈکر کو فرقہ پرست قرار نہیں دے دیا ہے؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ جو جماعت کھلے عام سیکولرازم کو ملک پر داغ قرار دیتی رہی ہے، وہ اچانک سیکولر ہونے کا ڈراما کیوں کرنے لگی ہے؟ کیا یہ بی جے پی کی شکست کی وجہ ہے یا نریندر مودی کا اپنا انداز ہے جس کے ذریعے وہ ملک کو مسلسل گمراہ کرتے رہے ہیں ؟ تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیکولرزم، ہندوستانی دستور اور جمہوریت کیلئے کتنی اہمیت رکھتی ہے؟ آج بھی سیکولر بمقابلہ فرقہ وارانہ بحث کیوں جاری ہے؟
 سیکولرازم دراصل ہندوستانی آئین کی ایک بنیادی قدر ہے۔ اگرچہ اصل آئین میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ اپنی نوعیت میں موجود ہے۔ آزاد ہندوستان کیلئے شروع ہی سے سیکولرازم بڑا چیلنج رہا ہے۔ فرانسیسی مصنف آندرے میل راکس کے ایک سوال کے جواب میں جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ’’اس وقت ملک کے سامنے دو سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔ اول یہ کہ منصفانہ ذرائع سے مساوات پر مبنی معاشرے کی تعمیر اور دوم یہ کہ مذہبی ملک میں ایک سیکولر ریاست کی تعمیر۔ ‘‘قوم کی تعمیر کا ایک مقصد سیکولرازم کا قیام تھا لیکن فرقہ پرست ہندوتواوادی سیاسی اور ثقافتی تنظیموں کی طرف سے سیکولرازم پر مسلسل حملے کئے گئے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سنجےرائے اور اکشے شندے کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوگا؟

آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانے پر تھے۔ ان کا مقصد صرف مسلمانوں کی مخالفت کرنا نہیں تھا بلکہ تمام اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا اور ایک غیر مساوی ’ورن ذات‘ پر مبنی سماجی نظام قائم کرنا تھا۔ تقسیم کے وقت ملک میں فرقہ وارانہ جنون پیدا کیا جا رہا تھا۔ جواہر لال نہرو، آر ایس ایس کے اقدامات سے بہت فکر مند تھے۔ ۷؍ ستمبر ۱۹۴۷ء کو وزرائے اعلیٰ کے نام اپنے خط میں، انہوں نے لکھا تھا کہ ’’ہمارے پاس اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جو نجی فوج رکھنے کی قائل ہے اور جو یقینی طور پر سخت گیر نازی ازم پر چل رہی ہے، یہاں تک کہ نازیوں کی تکنیک کا بھی استعمال کررہی ہے۔ ہماری خواہش شہری آزادی میں مداخلت کی نہیں ہے لیکن بڑی تعداد میں لوگوں کی مسلح تربیت کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر نظر رکھے اور ضرورت پڑنے پر مناسب کارروائی بھی کرے۔ ‘‘
 اسی پاگل پن نے مہاتما گاندھی کی جان بھی لی تھی۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ونائک دامودر ساورکر کے شاگرد، مہاراشٹرین برہمن ناتھو رام گوڈسے نے۳۰؍ جنوری۱۹۴۸ء کو گاندھی جی کا قتل کر دیا تھا۔ اسی لئے پٹیل نے ہندو راشٹر کے خیال کو پاگل پن قرار دیا تھا۔ آر ایس ایس نے ہندوستان کے آئین کو کبھی قبول نہیں کیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے لکھے ہوئے آئین کو سنگھ پریوار نوآبادیاتی وراثت کی علامت سمجھتی رہی ہے۔ ۳۰؍ نومبر۱۹۴۹ء کو آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں لکھا گیا تھا کہ یہ آئین ہمیں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس میں ’منو‘ کے ضابطے نہیں ہیں۔ 
 آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا شروع ہی سے سیکولرازم کے مخالف رہے ہیں۔ ’ہندوتوا اور سیکولرازم‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں گولوالکر نے لکھا ہے کہ’’مغرب میں پیدا ہونے والا سیکولرازم کا نظریہ ہمارے ملک میں نامناسب ہے۔ ‘‘
 ہندو مہاسبھا کے سابق صدر اور جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۷؍ ستمبر۱۹۵۱ءکو پارلیمنٹ میں سیکولرازم کو’سیکولرائٹس‘ نامی بیماری قرار دیا تھا۔ چھٹی دہائی کے دوران ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے تھے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے نہرو نے۱۹۶۱ء میں ’قومی اتحاد کونسل‘ تشکیل دی تھی۔ اس کا مقصد ریاستوں کے درمیان تال میل اور پالیسیوں کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بحال رکھنا تھا، لیکن ہندوتوا وادی طاقتیں وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہیں۔ لفظ’سیکولر‘ کو اندرا گاندھی حکومت نے۱۹۷۶ء میں ۴۲؍ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تمہید میں شامل کیا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف ملک کی اپوزیشن متحد ہو گئی تھی۔ اس کے بعد کانگریس(اندرا) کے خلاف ۱۹۷۸ء میں جنتا پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ سماجوادیوں کے ساتھ حکومت میں رہنے کی وجہ سے سماج میں جن سنگھ کی قبولیت بڑھ گئی۔ جنتا پارٹی کی حکومت میں مضبوط ہونے والے ہندوتوا وادی مختلف سرکاری اداروں میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن جلد ہی جنتا پارٹی کی حکومت اپنا اعتماد کھو بیٹھی۔ جنتا پارٹی کے ٹوٹنے کے بعد ۱۹۸۰ء میں جن سنگھ کی جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا قیام عمل میں آیا۔ رام مندر تحریک کے دوران بی جے پی اور آر ایس ایس نے کئی ہندوتوا تنظیمیں قائم کیں۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی خود ساختہ ہندوتواوادی تنظیمیں ’سیکولر ہندوستان‘ کو ’ہندو ہندوستان‘ میں تبدیل کرنے کیلئے بے چین نظر آنے لگیں۔ 
 بابری مسجد کو۶؍ دسمبر۱۹۹۲ء کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ یہ سیکولرازم پر سب سے بڑا حملہ تھا۔ فرقہ وارانہ جنون اور ذات پات پر مبنی ہندوتواوادی نظریے کی وجہ سے بی جے پی مکمل طور پر اعلیٰ ذاتوں کی جماعت بن گئی تھی لیکن بعد میں سوشل انجینئرنگ کے ذریعے بی جے پی نےپسماندہ طبقوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء اور پھر۱۹۹۹ء میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں ملک میں این ڈی اے کی حکومت تشکیل پائی۔ اس عرصے میں، تعلیمی اداروں، اکیڈمیوں اور تاریخ نویسوں میں ہندوتواوادی نظریے کو فروغ دیا گیا، جس سے ہندوستان کی کثیر ثقافتی شناخت غیر متعلق ہو گئی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ کئی لیڈروں نے سیکولرازم پر براہ راست حملہ کیا۔ اس دوران فرقہ وارانہ جنون پروان چڑھا اورہندوتوا وادی خیالات فروغ پانے لگا۔ اب فسادات کے بجائے اقلیتوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ ادیشہ، جھارکھنڈ اور شمال مشرق کی کئی ریاستوں میں عیسائیوں پر حملے ہوئے۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا تھا۔ 
 ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ہندوتوا تنظیمیں بے لگام ہوگئیں۔ گائے کے نام پر معصوم لوگوں کو مارنا اور ماب لنچنگ کرنا ان کاایک محبوب مشغلہ بن گیا۔ لو جہاد اور لینڈ جہاد جیسے نئے اصطلاحات مسلمانوں کو ہراساں کرنے کیلئے وضع کئے گئے۔ سیاسی مہرہ بننے والے بھگوا دھاری باباؤں نے مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ آئین کے تمہید سے لفظ سیکولرازم کو ہٹانے کی مہم چلائی گئی۔ 

یہ بھی پڑھئے:مرکز کا یوٹرن جمہوریت کیلئے فال ِ نیک

یہ رجحان شمالی ہندوستان سے جنوبی ہندوستان تک پھیل گیا۔ نریندر دابھولکر، ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش کو ہندوتوا وادیوں کی مخالفت کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑی۔ تاریخ کے واقعات اور ہیروز کو فرقہ وارانہ بنا دیا گیا۔ اکبر سے لے کر ٹیپو سلطان تک کو صرف مسلم بادشاہ کے طور پر دکھایا گیا۔ تاریخ کو زعفرانی رنگ دیا گیا۔ قدیم تاریخی عمارتوں کو ہندو مندروں کا نام دیا جانے لگا۔ سوشل میڈیا اور بی جے پی آئی ٹی سیل نے فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنے کیلئے دن رات جھوٹ پھیلایا۔ ہندو نوجوانوں کے ذہنوں کو مسلم مخالف اورجنونی بنانے کیلئے طرح طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ رام نومی کے جلوسوں میں مساجد پر بھگوا لہرانا اور مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کرنا عام ہوگیا۔ اب نہ صرف چوراہوں پر بلکہ پارلیمنٹ میں بھی ایک مسلم رکن پارلیمان کو غدار، دہشت گرد، پاکستانی اور نہ جانے کیا کیاکہا گیا۔ الیکشن میں ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ 
 ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی نے کہا تھا کہ کوئی بھی پارٹی سیکولرازم پر بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔ ۳۰۳؍ سیٹوں کو ہندوتوا کی جیت اور ہندو راشٹر پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے بعد۲۰۲۴ء کے انتخابات سے ٹھیک پہلے، آئین کو تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا، لیکن اس الیکشن میں دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں نے بی جے پی کو سبق سکھادیا جس کی وجہ سے مودی اب سیکولر پارٹیوں کی بیساکھیوں کے سہارے سرکار چلا رہے ہیں۔ انتخابات میں شکست کے بعد بی جےپی نے اچانک سیکولر ہونے کا ڈراما شروع کر دیا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کبھی سیکولر نہیں ہو سکتے۔ ان کی فکر کا ڈی این اے فرقہ واریت ہے۔ ان کی ساری سیاست مسلمانوں اور عیسائیوں کی مخالفت پر مبنی ہے۔ 
  نریندر مودی نے ملک کے موجودہ سول کوڈ کو فرقہ وارانہ کہہ کر دراصل دستور ساز اسمبلی کی توہین کی ہے، جس میں تمام نظریات کے روشن خیال رہنما موجود تھے۔ آئین میں سماجی انصاف، سوشلزم اور سیکولرازم جیسی جدید اور انسانی اقدار کو شامل کرنے والی دستور ساز اسمبلی پر بالواسطہ حملہ کر کے مودی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے رضاکار ہیں، جو بابا صاحب امبیڈکر سے نفرت کرتی ہے اور منوسمرتی کا احترام کرتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK