ملک میں چاروں طرف مہنگائی کا شور ہے اور لوگوں کا معیشت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔کرپشن، مفلوج معاشی پالیسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے جیسی سرمایہ کاری ہونی چاہئے، ویسی نہیں ہورہی ہے۔روپیہ اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔روپیہ کی قدر میں کمی سے درآمدی لاگت بڑھ رہی ہےجس کے نتیجے میں توقعات سے زیادہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہےجس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوگئی ہے
روپے کی قدر کم ہونے سے اسٹاک مارکیٹ میں بھی ہلچل ہے اور ہر دن اس گراوٹ کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ تصویر: آئی این این
ملک میں چاروں طرف مہنگائی کا شور ہے اور لوگوں کا معیشت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کرپشن، مفلوج معاشی پالیسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے جیسی سرمایہ کاری ہونی چاہئے، ویسی نہیں ہورہی ہے۔ روپیہ اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ روپیہ کی قدر میں کمی سے درآمدی لاگت بڑھ رہی ہےجس کے نتیجے میں توقعات سے زیادہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہےجس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوگئی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر لگاتار گرنے پر غیر اردو اخبارات میں کیا کچھ شائع ہوا ہے۔
حکومت کوئی ٹھوس قدم اٹھائے
مراٹھی اخبار ’لوک مت‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’ مکر سنکرانتی کے موقع پر امریکہ میں جاری کردہ اعداد و شمار نے عالمی منڈی کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہندوستان پر اس کے تشویشناک اثرات پڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔ ایک طرف ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے تو دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ پر ہمیشہ بحث کی جاتی ہے تاہم اس مرتبہ حالات غیر معمولی نازک بنے ہوئے ہیں۔ روپیہ دو سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ایک امریکی ڈالر کی قدر ۸۶ روپے کے پار پہنچ گئی ہے۔ یہ اب تک کی سب سے بڑی تنزلی ہے۔ یقیناً اس سے ملک کی معیشت اور عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی متاثر ہوگی۔ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے بعد امید کی جارہی تھی کہ نئے سال میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔ پیٹرولاور ڈیزل سستا ہوجائے گا اور بینک لون کی شرح سود کم ہوگی تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ پچھلے سال جنوری میں ایک ڈالر کی قیمت ۸۳ روپے تھی اب اس کی قیمت ۸۷ روپےتک پہنچ گئی ہے۔ ملک کی معیشت کی شرح نمو چار سال کی کم ترین سطح ۶ء۴؍فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ روپے کی گراوٹ روکنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے کیونکہ دل فریب نعروں اور پولرائزیشن کے زور پر انتخابات جیتے جا سکتے ہیں لیکن حکومت چلاتے وقت مثبت، درست اور جامع فیصلے کرنےپڑتے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: ایئر ہوسٹس کو فون پر باتوں میں الجھاکر۱۰؍لاکھ روپے کا پرسنل لون اپنے کھاتے میں ٹرانسفر کروالیا
سرمایہ کاروں میں مایوسی کی لہر
ہندی اخبار ’جن ستہ‘ نے۱۳؍ جنوری کے اداریے میں لکھا ہے کہ’’ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی، معیشت کیلئے اچھی علامت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلے دو مہینوں میں کوئی ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گزرا جب ہندوستانی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ریکارڈ نہ کی گئی ہو۔ اس کے متوازی روپے کی قدر بھی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گر رہی ہے۔ روپیہ ۸۶؍ سے تجاوز کرگیا ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں امریکی فیڈرل ریزرو کی پالیسیوں میں تبدیلی، ڈالر کا مضبوط ہونا اور ہندوستانی بازار سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا انخلا بتایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنے کیلئے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے نکاسی شروع کی تھی لیکن یہ حل کارگر ثابت نہیں ہوسکا۔ یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، قرضوں پر سود کی ادائیگی، ضروری درآمدات وغیرہ کے پیش نظر انتہائی تشویشناک ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے درآمدات مہنگی ہوجاتی ہے اور سیاحت، غیر ملکی تعلیم وغیرہ کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ متوقع غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آرہی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور ہورہا ہے۔ اسلئے وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔ ایسا اسلئے بھی ہورہا ہے کہ ہندوستانی معیشت میں تیزی سے ترقی کی جو تصویر پیش کی جارہی تھی وہ اب دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ ‘‘
روپے کی گراوٹ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے
مراٹھی اخبار’سامنا‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ اسٹاک مارکیٹ سے لے کر روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو گہن لگ چکا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم مودی عوام کے سامنے ملک کی معیشت کی گلابی تصویر پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے دو دن پہلے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت اب ہندوستان کو ترقی کرنے سے روک نہیں سکتی۔ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے اور ہر دن اس گراوٹ کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو ۲۵؍ لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ چھوٹےسرمایہ کار سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اسی طبقے کو ہمارے وزیر اعظم ترقی یافتہ ہندوستان کا خواب بیچ رہے ہیں۔ سینسیکس کی طرح روپے کی گراوٹ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ عالمی معیشت میں ہونے والی اتھل پتھل اسٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر کو بری طرح سے متاثر کررہی ہے۔ وزیراعظم مودی کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ عالمی منڈی میں پھر ایک بار خام تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں پیٹرول۔ ڈیزل کے داموں میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔ یہ اضافہ پہلے سے بڑھی مہنگائی کی آگ کو مزید بھڑکا دے گا۔ اس کا اثر عام آدمی کی جیب پر پڑے گا۔ ملک کی معاشی حالت انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور وزیر اعظم عوام کو حسین سپنے دکھا رہے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی ہندو جوڑوں سے تین بچے پید ا کرنے کی اپیل
یہ روپے کے تئیں اعتماد میں نمایاں کمی کا اظہار ہے
انگریزی اخبار ’دی فری پریس جنرل‘ نے لکھا ہے کہ’’ پیر کے روز روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے ۶۶؍ پیسے مزید گر کر ۸۶ ؍روپے ۷۰؍ پیسے تک پہنچ گیا۔ یہ اب تک کی سب سے نچلی سطح ہے۔ ۳۰؍ دسمبر کے بعد ڈالر کی قدر میں تقریباً ایک روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ تجارت سے متعلق وضاحتوں سے قطع نظر، تیزی سے گراوٹ روپے میں اعتماد میں نمایاں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ مودی سرکار لاکھ کوشش کے باوجود روپے کی گراوٹ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس گراوٹ کی کئی وجوہات ہیں ان میں سر فہرست غیر ملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) کا انخلاء ہے۔ پچھلے سال ایف ڈی آئی۱ء۲؍ لاکھ کروڑ تھا اور اس سال۲۲؍ ہزار ۱۹۴؍ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی بطور امریکی صدر واپسی سے بھی ڈالر کی مضبوطی کو تقویت ملی ہے۔ حالانکہ کے ریزو بینک آف انڈیا نے روپے کی گراوٹ کو کم کرنے کیلئے مداخلت کی ہے لیکن مزید گراوٹ کی توقع ہے۔ شیئر مارکیٹ کے تجزیہ نگاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ روپیہ جلد ہی۸۸؍ روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ تاہم روپے کی کمزوری مکمل طور پر منفی نہیں ہے۔ کمزور روپیہ برآمدی مسابقت کو بڑھا سکتا ہے، گھریلو صنعت کاروں کی مدد کرسکتا ہے اور ممکنہ طور پر کچھ مالی چیلنجوں کو پورا کرسکتا ہے۔ ‘‘n