نئے ضابطے کے تحت انڈسٹری، عوامی انتظامیہ ،عوامی پالیسی کے شعبوں یا اور کسی عوامی سیکٹر میں ۱۰؍برس کا تجربہ رکھنے والوں کو وائس چانسلر بنایا جاسکتا ہے
EPAPER
Updated: February 04, 2025, 11:03 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
نئے ضابطے کے تحت انڈسٹری، عوامی انتظامیہ ،عوامی پالیسی کے شعبوں یا اور کسی عوامی سیکٹر میں ۱۰؍برس کا تجربہ رکھنے والوں کو وائس چانسلر بنایا جاسکتا ہے
یونیورسٹیگرانٹس کمیشن (یوجی سی) کا قیام ۱۹۵۳ء میں عمل میں آیا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں حکومت نے پارلیمانی ایکٹ کے ذریعہ اسے ایک قانونی ادارے کا درجہ عطا کیا جس کے قیام کا بنیادی مقصداعلیٰ تعلیم میں تدریس، امتحان اور تحقیق کے معیار کی نگہداشت کرنا اور مختلف علوم کی نئی دریافتوں سے اس معیار کو ہم آہنگ بنانا ہے۔ اس بنیادی مقصد کے تناظر میں یوجی سی ملک گیر سطح پر قائم یونیورسٹیوں اور ان سے ملحق کالجوں کے تعلیمی عمل کو بہتر بنانے کی غرض سے ایسے تجرباتی اقدام کرتارہا ہے جو طلبہ کی دانش و مہارت کو ترقی دینے کے علاوہ یونیورسٹی اور کالج کے تعلیمی ماحول اور انتظامی امور کو موثر اور نتیجہ خیز بنا سکے۔ اس کے تحت تدریس، امتحان اور تحقیقی امور کے علاوہ تدریسی اور انتظامی عہدوں پر تقرری کے ضابطوں میں وقتاً فوقتاً ترمیم یا تبدیلی کا عمل بھی یوجی سی کی کارکردگی کا حصہ رہا ہے۔ اسی طرز کارکردگی کے ضمن میں یوجی سی نے ۶؍جنوری کو ایک مسودہ جاری کیا ہے جو وائس چانسلر، اسسٹنٹ پروفیسر، اسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے عہدوں پر تقرری کے نئے ضابطوں پر مبنی ہے۔ انہیں لاگو کرنے سے قبل تعلیمی عمل کے فریقین کیلئے مسودہ پر اعتراض یا رائے دینے کی آخری تاریخ ۵؍فروری طے کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ایسی دوستی، جس کیلئے ملک کی ساکھ داؤ پر لگادی گئی ہے
اعلیٰ تعلیم کے وزیر دھرمیند پردھان نے یہ مسودہ جاری کرتے ہوئے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ اس کے ذریعہ متنوع مہارتوں کی شناخت اور شمولیت نیز تعلیمی عمل میں لچکداری کو فروغ دے کر ہم ملک کیلئے ایک توانا مستقبل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ پردھان کا یہ بیان بھی موجودہ حکومت کے ان تمام بیانات کی مانند ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے بلند بانگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن حقیقت حال ان دعوؤں سے یکسر برعکس ہے۔ تمل ناڈو، کیرالا اور کرناٹک کی ریاستی حکومتوں نے یوجی سی کے اس دستاویز کی پرزور مخالفت کی ہے۔ تمل ناڈو اور کرناٹک کی حکومتوں نے ۹؍ اور ۲۱؍ جنوری کو اس کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ نے بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو مکتوب بھی لکھا ہے جس میں اس دستاویز کو مسترد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ یوجی سی کے دستاویز کی مخالفت چونکہ غیر بی جے پی حکومتوں کی جانب سے ہورہی ہے لہٰذا ان نئے ضابطوں کے ممکنہ فوائد یا نقصانات کا جائزہ معروضی اور منطقی طور سے لینے کی بجائے اسے بھی سیاسی موضوع بنا دیاگیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم جیسے حساس موضوع پر غور و فکر کے عمل میں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر حقیقت حال کا معروضی اور منطقی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس زاویہ سے اعلیٰ تعلیمی نظام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو درس و تدریس، تحقیق اور اختراع کے علاوہ تدریسی اور انتظامی عہدوں پر مامور بیشتر افراد کی کارگزاریوں کے دم پر علم و دانش کی ترقی اور ملک کے روشن مستقبل کی امید کرنا محض خیال خام ہے۔ ارباب اقتدار اور ان کی ہر بات کو آمناو صدقنا قبول کرنے والا طبقہ بھلے ہی ’وشو گرو‘ بننے کا دعویٰ کرے لیکن سچائی یہ ہے کہ عالمی سطح پر معیاری اعلیٰ تعلیم کے تناظرمیں ملک کی یونیورسٹیوں کی کارکردگی بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ یوجی سی کا تشکیل کردہ دستاویز اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ اس دستاویز کی مخالفت کرنے والی ریاستی حکومتوں کا خصوصی زور اس بات پر ہے کہ نئے ضابطوں کے نفاذ کے بعد وائس چانسلر کی تقرری کا معاملہ علم و دانش کی بجائے سیاسی اغراض و مقاصد سے وابستہ ہو جائے گا۔ نئے ضابطوں کی رو سے وائس چانسلر کی تقرری کے عمل میں گورنروں کو جو اختیارات حاصل ہوں گے اس کے پیش نظر اس خدشہ کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یوجی سی کے دستاویز میں اس اہم عہدے پر تقرری کی اہلیت کے پیمانے کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یوجی سی ریگولیشن۲۰۱۸ء (جواب تک نافذ ہے) کے مطابق اس عہدے پر تقرری کیلئے بحیثیت پروفیسر ۱۰؍سال کا تجربہ اور انتظامی امور میں نمایاں مہارت درکار تھی لیکن مجوزہ ضابطہ میں اہلیت کے دائرے کو وسعت دے کر انڈسٹری، عوامی انتظامیہ، عوامی پالیسی کے شعبوں یا کسی دیگر عوامی سیکٹر میں ۱۰؍برس کا تجربہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ ضابطہ میں اس تبدیلی کی وکالت کرنے والوں کے مطابق اس سے کثیر الجہت صلاحیتوں کی حامل ممتاز شخصیات سے استفادہ کی راہ ہموار ہوگی۔ یہ دعویٰ محض جزوی طور پر نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ تعلیمی دنیا کے علاوہ دیگر شعبوں سے وابستہ افرادکو ایسے اہم عہدے کا اہل قرار دینا اعلیٰ تعلیمی نظام میں مختلف قسم کے تدریسی اور انتظامی مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ انڈسٹری یا دیگر پبلک سیکٹر سے وابستہ شخصیات کو وی سی کا اہل قرار دینے سے یونیورسٹیاں علم و فضل کا مرکز بننے کے بجائے مالی نفع و نقصان کا مدار بن جائیں گی۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ وائس چانسلروں کی تقرری سے متعلق نئے ضوابط یونیورسٹیوں اور کالجوں کی نج کاری کی طرف پیش رفت کا وسیلہ بن سکتے ہیں اور پھر اعلیٰ تعلیم تک سب کی رسائی بھی مشکل ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے: طلبہ کی تعداد میں کمی تعلیمی نظام کی تشویشناک حقیقت بیان کرتی ہے
وائس چانسلر کے علاوہ تدریس کے مختلف درجات پر تقرری کی اہلیت میں جو مجوزہ تبدیلی یوجی سی نے کی ہے اس سے اعلیٰ تعلیم چوں چوں کا مربہ بن سکتی ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تقرری کیلئے اب متعلقہ مضمون میں یوجی اور پی جی کی شرط ہٹا دی گئی ہے۔ اب امیدوار کسی بھی مضمون میں یوجی، پی جی کر کے کسی دوسرے مضمون کو پڑھانے کیلئے درخواست دے سکتا ہے بس اسے قومی اور ریاستی سطح پر ہونے والے اہلیتی امتحانوں ’نیٹ، سیٹ یا سلیٹ‘کو اس مضمون کے ساتھ پاس کرنا ہوگا جسے پڑھانے کیلئے اس نے درخواست دی ہو۔ اسی طرح اسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کیلئے بھی متعلقہ مضمون میں یوجی، پی جی کی شرط ہٹا کر صرف پی ایچ ڈی کو اہلیت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فنون لطیفہ اور مختلف کھیلوں کی تدریس کو نیٹ، سیٹ سے مستثنیٰ قرار دیاگیا ہے۔ ان مجوزہ تبدیلیوں کو یوجی سی نے طلبہ کیلئے کار آمد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تبدیلیاں متنوع صلاحیتوں کے حامل اساتذہ سے استفادہ کی راہ ہموارکریں گی۔
یونیورسٹی سطح پر تدریس کے ضابطوں میں یوجی سی کی مجوزہ تبدیلیاں تدریس کے معیار کو متاثر کرنے کے ساتھ ہی طلبہ کیلئے کسی مضمون کے ان اختصاصی پہلوؤں سے واقفیت کے عمل کو پیچیدہ بنائیں گی جن کے بغیر تدبرو تفکر اور تجزیہ و تنقید کی صلاحیت نہیں پیدا ہو سکتی۔ اعلیٰ تعلیم کا بنیادی مقصد طلبہ میں ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے تاکہ ان کے اندر تجسس اور تحقیق کا رجحان پیدا ہو جو زندگی کے ارتقائی عمل میں ان کی دست گیری کر سکے۔ اگر اساتذہ خود ہی اس صلاحیت سے محروم ہوں گے تو وہ طلبہ کی رہنمائی کس طرح کر سکیں گے؟ یوجی اور پی جی کے تعلیمی مراحل کسی مضمون کے ان نظریاتی اور فلسفیانہ نکات سے واقفیت عطا کر تے ہیں جن سے اس مضمون کی معنویت اور افادیت واضح ہوتی ہے۔ اب اگر اساتذہ کو خودہی ان کا ادراک نہیں ہوگا تو وہ طلبہ کے تعلیمی تجسس کی تشفی کس طرح کر پائیں گے؟
یوجی سی کی ان تبدیلیوں کے تئیں اہل دانش جس فکر مندی کا اظہار کررہے ہیں وہ کسی تعصب یا نظریاتی عدم اتفاق کی بنا پر نہیں بلکہ علم و دانش کے معیار کو درپیش ان ممکنہ خطرات کے تناظر میں ہے جن سے اعلیٰ تعلیمی نظام متعدد پیچیدہ مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی نظام میں دائیں بازو سے وابستہ افراد کی اکثریت کو یقینی بنانے کی راہ بھی ان مجوزہ تبدیلیوں سے ہموار کی جائے گی۔ یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں کیوں کہ اس دستاویز کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے یوجی سی کے چیئر مین ایم جگدیش کمار کا دائیں بازو سے تعلق جگ ظاہر ہے۔ یوجی سی کے چیئرمین بننے سے قبل جے این یو کے وائس چانسلر کے طور پر ان کی میعاد کارمیں یونیورسٹی ان تنازعات سے دوچار رہی تھی جن کا مقصد کیمپس میں شدت پسند ہندوتوا افکار کو فروغ دینا تھا۔ یوجی سی کے دستاویز پر مرکزی حکومت میں شامل جنتا دل یونائیڈ نے بھی اعتراض کیا ہے اور جو بھی اعلیٰ تعلیم کے معیار میں بہتری اور ترقی کا خواہاں ہوگا وہ سیاسی تحفظات سے بالاتر ہوکر تعلیم جیسے حساس موضوع کے تئیں مصلحت کوشی یا مفاہمت پسندی کی راہ اختیار نہیں کرے گا۔