بے سمت زندگی سے ذہنی تنائو پیدا ہونا لازمی ہے اسلئے اپنی منزل کی نشاندہی کریں ا ور نگاہیں منزل پر مرکوز رکھیں، کسی بھی صورت میں اپناہدف تبدیل نہ کریں
EPAPER
Updated: January 07, 2025, 9:43 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
بے سمت زندگی سے ذہنی تنائو پیدا ہونا لازمی ہے اسلئے اپنی منزل کی نشاندہی کریں ا ور نگاہیں منزل پر مرکوز رکھیں، کسی بھی صورت میں اپناہدف تبدیل نہ کریں
یکم جنوری کو اکثر گزرے ہوئے سال کو کوساجا تا ہے، اُس کی ملامت بھی کی جاتی ہے اور نئے سال سے کافی سار ی اُمّیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ ہم البتہ یہ نہیں سوچتے کہ گزرا ہوا سال اگر بُرا تھا یا بُرا گزرا تو اس کی بنیادی وجہ ہم ہی تھے کہ کوتاہیاں ہم ہی سے سرزد ہوئی ہوں گی۔ ہمیں اکثر یہ بھی لگتا ہے کہ آنے والا سال بہر حال اچھا ہی ہوگا البتہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم نے اُسے اچھی طرح جیا تو اچھا گزرے گا مگر گزشتہ سال کی ساری غلطیاں دُہرائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
نوجوانو!نیا سال ایک اچھا بہانہ بلکہ موقع تو ہوتا ہے نئے عہد و پیماں کے لیے۔ ہر ۳۱؍دسمبر کو نئے نئے منصوبے تیار ہوتے ہیں اُنھیں کاغذ پر بلکہ نئے سال کی ڈائری میں بھی لکھا جاتا ہے مگر یہ کیا؟ پہلی جنوری ہی کو وہ سب کچھ چوپٹ ہوجاتا ہے۔ نیو ایئر کی دھماچوکڑی میں دن چڑھے آنکھ کھلتی ہے اور سارے ٹائم ٹیبل، سارے منصوبے بالائے طاق رکھ کر پورا دِن نئے سال کا ’استقبال‘ کرتے گزرجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے سال تو بدل جاتے ہیں مگر دن نہیں بدلتے!
اکیسویں صدی کے پہلے لگ بھگ ۲۵؍برس گزرجانے کے موقع پر ہم نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ۲۰۲۵ء میں مایوسی کو اپنے اِرد گرد پھٹکنے بھی نہ دیں۔ بس اتنا عہد کرلیں :
مسائل نہیں, وسائل
ہر کوئی یہ کہتا ہے, لکھتاہے، بولتا ہے کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگ تویہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مایوسی کس چیز کو کہتے ہیں, یہ بھی اُنھیں پتہ نہیں البتہ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی مایوسی سے دوچار ہوتا ہے۔ مایوسی پر کتابیں لکھنے والے، ریسرچ کرنے والے بھی مایوسی کی کالی آندھی سے اپنے آپ کو بچانہیں پاتے۔ البتہ اُن میں سے چند مدبّر و مفکّر ایسے ضرور ہوتے ہیں جو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے بھی اپنے حصے کے اُجالے نکال لیتے ہیں۔ اُن میں یہ بصیرت کہاں سے آتی ہے؟ وہ کاغذ قلم تھام لیتے ہیں اور اپنے مسئلے اُس پر تحریر کرتے ہیں۔ اپنے پہاڑ جیسے کسی مسئلے کو ٹکڑے ٹکڑے اور پھر ریزہ ریزہ کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ دراصل وہ مسائل کو قبول کرتے ہیں مگر اُن کی نگاہ ہمیشہ وسائل پیدا کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کیلئےہمارے نوجوانوں کوبھی وہی بصیرت و بصارت اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی:
یہ بھی پڑھئے: والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں تو تعلیمی نظام میں بہتری آسکتی ہے
امتحان میں ناکامی پر مایوسی:
(الف) اپنے طریقۂ کارپر نظر ثانی کریں (ب) نئے سرے سے منصوبہ بندی کریں (ج) ناکامی کے اصل وجوہات سے فرار حاصل نہ کریں یا اُنھیں نظر انداز بھی نہ کریں (د) یہ بھی سمجھ لیں کہ کوئی بھی امتحان زندگی کا آخری امتحان نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ کسی ایک، دو امتحانات میں ناکامی سے زندگی کے سارے راستے مسدود نہیں ہوتے۔
مالی تنگدستی پر مایوسی : (الف) ہم خواہشات کے مخالف نہیں, بے لگام خواہشات کو مضر سمجھتے ہیں ۔اس لیے زندگی میں حقیقی سکون کیلئے اُسے بے ہنگم اور بے لگام خواہشات کا اسیر نہ بنائیں۔ (ب) کاغذ قلم سنبھالیں اور اپنے خرچ و آمدنی کاموازنہ کریں (ج) گھر کے سارے افراد کی میٹنگ لیں, اُنھیں آگاہ کریں کہ کفایت شعاری آپ کے گھر اور آپ کی زندگی کا اہم اُصول ہوگا اور خاص طور پر نئی نسل کو سمجھا دیجئے کہ کفایت شعاری اور قناعت پر وہ اپنے دوستوں کے سامنے ہر گز پشیمان نہ ہوں۔
مایوسی کے بنیادی اسباب
آج جب تعلیمی،معاشی، و معاشرتی نظام سیاسی مکاّریوں کے سبب تہہ و بالا ہوچکے ہیں ہمارے نوجوانوں کو اپنے لیے راہیں تلاش کرنے کی فکر کرنی ہے اور مایوسی کا لبادہ اُٹھاکر پھینک دینا ہے۔ آغاز کہاں سے کرنا ہے؟ یہ یاد رکھنا ہے کہ ذہنی انتشار کا ایک بڑا سبب ہے:نصب العین کا فقدان ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اچھے اچھے باصلاحیت اورپُر عزم نوجوان بھی اپنے ہدف سے اکثر بھٹک جاتے ہیں اور کئی سارے تو افسردگی اور ذہنی انتشار کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ ہم اس ضمن میں نوجوانوں کو دومشورے دینا چاہیں گے اوّل یہ کہ بے سمت زندگی سے ذہنی تنائو پیدا ہونا لازمی ہے اس لیے بہر صورت اپنی منزل کی نشاندہی کریں اور اپنی نگاہیں ہر زاویے سے اپنی منزل ہی پر مرکوز رکھیں۔ ہمارا دوسرا مشورہ اُنھیں یہ ہے کہ کبھی بھی، کسی بھی آفت یا بَلا کے دَور میں بھی اپنے ہدف تبدیل نہ کریں۔ہمارے نوجوانان (الف) خود اعتمادی کے فقدان (ب) والدین ورشہ داروں کے دبائو میں آکر (ج) اپنی سیمابی طبیعت کی بناء پر اپنا ہدف بار بار بدلتے ہیں۔ زندگی کے ہدف یا نصب العین کی تبدیلی سے صرف ذہنی تنائو میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مایوسی و ڈِپریشن اسی طرح پیدا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قوم غفلت کے اندھیروں سے نکل کر آگہی کے اُجالوں کی جانب رواں دواں ہے
دنیا کو بدلنے کی خواہش
کوئی دو انسان بالکل ایک جیسے اور یکساں مزاج کے نہیں ہوتے۔ نوجوانو! یہاں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ سمجھوتہ کرنا پڑتاہے، برداشت بھی کرنا پڑتا ہے۔دوستو! اس دھرتی پر ایک ہی شخص ایسا ہے جس کو تھوڑا بہت نہیں بلکہ پورا تبدیل کیاجاسکتا ہے اور وہ ہے بذات ِخود! خود کو بدلے بغیر حالات اور پوری دنیا کو بدلنے کی خواہش حماقت ہے۔ سماج میں رائج حماقت کی نوجوان بھی نقل کرتے ہیں۔ وہ اپنے سارے ساتھی، اپنا پورا کلاس روم، اپنا پورا تعلیمی ادارہ بدلنے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ البتہ تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے نہیں کرتے۔ اس لئے اُنھیں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملتی اور فرسٹریشن کا آغاز وہیں سے ہوجاتا ہے۔ ہم نوجوانوں کو یہ بتاناچاہیں گے کہ اپنے قول کے بجائے فعل پر اپنی طاقت و انرجی لگائیں۔ایک مثالی شخصیت وہیں سے بنتی ہے جو پھر دوسروں کیلئے بھی رول ماڈل بن جاتی ہے اور اُس کیلئے اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی برتنے کے نظم و ضبط اور ڈسپلن کی بناء پر وہ ذہنی تنائو کا شکارنہیں ہوتا اس لیے اُسے ہمیشہ قلبی سکون حاصل رہتا ہے جب کہ غیر منظّم شخص ہمیشہ ہڑ بڑاہٹ, بوکھلاہٹ اور اُکتاہٹ کا شکار رہتاہے، ڈپریشن کا آغاز وہیں سے ہوتاہے۔
ترجیحات کو سمجھنا ضروری
نوجوانو! ہم فرسٹریشن, ڈپریشن سے پورے نکل جائیں اس کیلئے اب ہمیں ’جہانگیریت‘ اور ’عالمگیریت‘ سے نکلنا پڑے گا۔ لال قلعہ کے لال پتھر اور تاج محل کے سفیدپتھر کے ہم وراث ہیں, ہم نے کبھی یہ نہیں سمجھا کہ جغرافیائی لکیریں تاریخ پر بھاری ہیں۔ جغرافیہ ہی تاریخ مرتّب کرتا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر ہماری قوم کے چھوٹے موٹے کاروبار پر بُل ڈوزر بھی چلے ہیں تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب یہ ملک بُل ڈوزر جمہوریہ بن گیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ: (ا) کب تک ہم ٹھیلے، کباڑی اور باکڑے پرکاروبار کرتے رہیں گے؟ (س) ہم کارپوریٹ بزنس میں کب آئیں گے؟ (۳) دوسرے فرقے کچھ بھی کریں مگر ہم کب تک غیر قانونی تعمیرات کرتے رہیں گے؟ (۴) کب ہم اپنے عالیشان بزنس ہائوس تعمیر کریں گے جہاں کی سیکوریٹی میں کوئی پرندہ بھی پَر نہ مارسکے؟ (۵) کب تک ہم نسل در نسل وہی کاروبار کریں گے؟نئی نسل اعلیٰ تعلیم پر مبنی اپنی نئی راہیں کیوں نہیں اپناتی؟
نئے سال میں مایوسی کی ساری گٹھری اُٹھاکر پھینک دیں ۔ ہمیں ترجیحات کا ادراک ہوجائے تو نیا سال اور ہر سال کامیاب ہی رہے گا۔