۱۹۶۰ کے بعد آنے والے جدید افسانہ کے علم برداروں نےاپنے پیش رو افسانہ نگاروں کی حقیقت پسندی کے روایتی، سطحی، یک پرتی اور اُتھلے مظاہرے کے خلاف جو شدید ردّعمل کا اظہار کیا تھا وہ ایک طرف پلاٹ، کردار، وحدت تاثر اور عصریت سے پلّہ جھاڑنے پر اُنہیں مجبور کررہا تھا تو دوسری طرف نئے اسلوب کی سیاحت، متعین لسانی قواعد سے پیچھا چھڑانے کے لیے اُن کو اُکسا رہی تھی۔
سریندر پرکاش۔۔ تصویر : آئی این این
۱۹۶۰ کے بعد آنے والے جدید افسانہ کے علم برداروں نےاپنے پیش رو افسانہ نگاروں کی حقیقت پسندی کے روایتی، سطحی، یک پرتی اور اُتھلے مظاہرے کے خلاف جو شدید ردّعمل کا اظہار کیا تھا وہ ایک طرف پلاٹ، کردار، وحدت تاثر اور عصریت سے پلّہ جھاڑنے پر اُنہیں مجبور کررہا تھا تو دوسری طرف نئے اسلوب کی سیاحت، متعین لسانی قواعد سے پیچھا چھڑانے کے لیے اُن کو اُکسا رہی تھی۔ جدید افسانہ نگاروں کی اس بھیڑ میں سریندر پرکاش کو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اُن کا افسانہ فکشن کی قدیم روایت کی اہمیت اور معنویت کو ردّ کرتا ہے نہ ہی زندگی اور زمانے کے حوالوں اور سوالوں کو مُسترد لیکن ترقی پسند برانڈ حقیقت نگاری کے تصور کو توڑنے اور اردو افسانے کی زمین اور آسمان کو بدلنے میں بنیاد گزار کی اپنی بھومیکا پوری طرح برقرار رکھتا ہے۔ تجربات کی مختلف دنیا، مشاہدات کا ایک منفرد جہاں، کرداروں کی انوکھی بستیا، اساطیرکے دُھندلے راستوں اور زبان و بیان کے نت نئے ذائقوں کو اپنے افسانوں میں اپناتے اور آزماتے ہوئے بھی سریندر پرکاش قصہ گوئی کی روایتوں کوفراموش نہیں کرتے، جی ہاں ! کبھی نہیں کرتے۔ بیدی کی یہ بات غالباً اُنہوں نےگرہ میں باندھ لی تھی کہ: ’’ کوئی کتنا ہی ’کہانی‘ سے بچنے کی کوشش کرے، وہ اُس کے بندھے ہوئے اُصولوں سے بہت دور نہیں جا سکتا۔ ‘‘ کہانی سے بندھے اور کہانی میں بیندھے رہنے کے باعث ہی اُن کاافسانہ اپنی آخری شکل میں، افسانہ ہی رہتا ہے، مجذوب کی بڑ، معمہ، مصوری یا موسیقی کی کوئی قسم نہیں بنتا۔ قصّے کی جس بالادستی کو جدیدیت ختم کرنے کے درپے رہی، وہی قصّہ گوئی سریندرپرکاش کے فکشن میں Survival Kitکی طرح موجود تھی۔ ایک ایسے دور میں جب وجودیت اور اجنبیت کے پیچیدہ ایجنڈے کے باعث افسانے کی قرأت کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اور فکشن کاقاری کہانی کے بنیادی اوصاف سے دور ہوتاجا رہا تھا اُس وقت بھی سریندر پرکاش کے افسانے اپنی دلکشی، تازگی، کہانی پن اور Readablity کی طاقت سے اس صنف کو زمین فراہم کرنے میں مصروف تھے ۔
اس گفتگو کے بعد غالباً یہ بتانےکی ضرورت نہیں کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں اردو افسانے کے اُفق پر وجودیت پسندی، سرریلیزم یا ایکسپریشن ازم کی جو چونکا دینے والی پرچھائیاں اُبھری تھیں اُن میں سے کچھ نے تو اردو افسانے کو بے شک نئی شکلیں اور صورتیں عطا کیں لیکن بیشتر شہاب ثاقب کی طرح چمک کر بجھ گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ذات پرستی، بے چہرگی اور لایعنیت جیسے موضوعات کی بھو ل بھلیوں میں بھٹکنے والے علامتی، تمثیلی، تجریدی اور تجرباتی افسانے فن کی معراج ٹھہرائےجا رہے تھے۔ شعوری اورغیر شعوری طریقے سے ادب میں پنپنے والے اس رحجان کو سریندر پرکاش نے بھی پوری شدت اور انہماک سے قبول کیا اور زماں و مکاں کے میکانکی تصور کی نفی کرنے والے ابہام انگیز افسانے لکھے، لیکن چونکہ وہ جانتے تھے کہ افسانہ محض لسانی تجربے کانام نہیں لہٰذاحقیقت نگاری سے حتمی انحراف کے باوجود اپنے افسانے کو اُنہوں نے اسلوبیاتی پھوٹ پھاٹ کا شکار ہونےنہیں دیا۔ سریندر پرکاش کی قصہ گوئی کا یہی کرشمہ ہے کہ ٹھوس اور ٹھس حقیقتیں بھی پگھل کر سیال اورپُر فریب ہو جاتی ہیں ۔ افسانوی بیانیہ میں اجنبی دُنیا کے بعید از فہم واقعات، اقدار کی شکست و ریخت، معلوم نامعلوم احساسات، مانوس اور نامانوس کیفیات، دھند میں لپٹے ہوئے خیالات، پُراسراراساطیری فضا اور ناقابلِ فہم صورت ِحالات کے درمیان اُن کی قصہ گوئی نہ صرف زمین سے لگ کر چلتی ہے بلکہ کہانی کی صورت اپنے پیروں کے نشانات بھی چھوڑتی جاتی ہے۔ کہانی کے یہ نقشِ پا افسانوی کینواس پرکہیں چمکدار شیشے کے ٹکڑوں کی مانند جگمگاتے ہیں تو کہیں متن کی داخلی ساخت میں دل جیسا دھڑکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: برف کا مجسمہ
قصہ گوئی سریندر پرکاش کا ایک ایساوصف ہےجس کے قتیل سبھی رہے۔ پیدائشی طور پر وہ قصہ گو ہیں کہ قصوں نے اُن کو اور اُنہوں نے قصوں کو اپنے اعتبار اور اظہار کیلئے برسوں پہلے ہی منتخب کر لیا تھا۔ قصے اُن کےذہن و دل میں بسے رہتے ہیں اور وہ خود سر تا پا قصوں میں یوں شرابور رہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ ویتال کی طرح قصوں کے کندھوں پر وہ سوار ہیں یا نت نئے قصّے اُن پر سواری گانٹھتے ہیں۔ اُن کی خوبی یہ نہیں کہ اپنے یا کسی اور کے قصے کو اس طرح بیان کرتےہیں کہ سننے والا اُس سے بندھتاچلا جائے بلکہ اصل کمال یہ ہے کہ اُنہیں ہر بات، ہرواقعہ، ہر منظر، ہر کردار اور ہر صورتحال کو قصے کے فارم میں دیکھنے، پرکھنے اور برتنےکا قرینہ آتا ہے۔ قصے سریندر پرکاش کے فکشن کی ریڑھ کی ہڈی کےمنکے ہیں اورقصہ ہی اُن کے افسانوی بیانیہ کی نسوں میں بہنے والا لہو ہے۔ ’تلقارمس ‘ یوں تو محض اُن کےایک اہم کرداری افسانے کا عنوان بھر ہے، لیکن اُن کے افسانوں میں بیان ہونے والے ہر قصے، وقوعے، منظر نامے اور حکایت کا راوی تلقارمس ہے۔ پہلے مجموعے کے پہلے افسانے سے لے کر آخری مجموعہ کے آخری افسانے تک ہر جگہ کبھی نامدار تو کبھی بے نام کردار / راوی بن کر ہر صفحہ سے جھانکنے والا دورِ جدید کا یہ قصہ گو ’تلقارمس‘ اصل میں ، سریندر پرکا ش کا ہمزادہے۔ انسانی تاریخ اور انسانی تقدیر کے اُس دوراہے پر جسے Point of no return کہتے ہیں ، تلقارمس تنہا اور نہتا کھڑا بے ضمیر قوتوں کےخلاف اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ تلقارمس عصر ہے اور تلقارمس ہی روح عصر ہے۔ اس کا بنیادی وصف عصری بصیرت، ساختیاتی شعوراورجمالیاتی فضا ہے جس کا ماخذ وہ بوڑھا داستان گو ہے جسے سریندرپرکاش نے بچپن میں لائل پور کے گھنٹہ گھرکے پاس اکتارہ لے کر نثری داستانوں کو گاتے سنا تھا۔ آصف فرخی کو دیئے گئے انٹرویو میں اپنےبچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے، وہ کہتے ہیں :
’’دیکھا جائے تو وہ میرا گرو ہے، جس سے میں نے کہانی کہنا سیکھا ہے۔ آج بھی اگر آپ محسوس کریں، میری تحریر کو پڑھیں تو آپ کو لگے گا اُس میں ایک تال ہے، ایک آہنگ ہے، اکتارے کی آواز، پائوں کی تھاپ ہے، ایک لہراتا ہوا شملہ پگڑی کا، جو وہ باندھتا تھا اور اُس کی لنگی اور ناچنے میں اُس کی لنگی کا گھمائو، اُس کے ہاتھ، اُس کے ہونٹ اور اُس کی آنکھیں، وہ ساری چیزیں کہیں نہ کہیں میری کہانیوں میں آپ کو نظر آئیں گی۔ ‘‘
نوعمر سریندرپرکاش کویہ داستان گو یوں عجیب لگا تھا کہ گھنٹہ دو گھنٹہ پورے مجمع کو اپنے قصّے کہانیوں سے باندھ کر بٹھا دیتا تھا۔ شاید یہی وہ لمحات تھے جب اُس داستان گو کی قصہ گوئی کا انداز، اُس کااکتارہ، اُس کی تال اور آہنگ اور اُس کےلہجے کے ڈرامائی اُتار چڑھائو سریندر پرکاش کے باطنی اور فنی وجود کا حصّہ بن رہے تھے اور پھربرسوں بعد جب اُنہوں نے افسانہ نگاری کا ڈول ڈالا تو ہم سب نے دیکھا کہ وہ بوڑھا داستان گو ہاتھ میں اکتارہ لئے اُن کے افسانوں میں بھی چپکے سے چلا آیا ہے۔ جن خطوط پر زندگی نے سریندرپرکاش سے اپنا رشتہ استوار کیا تھا، اُس نےبنے بنائے راستوں پر چلنے کی اجازت اور موقع اُنہیں کبھی نہیں دیا۔ سریندرپرکاش اور زندگی، اصل میں دونوں ہی ایک دوسرے کو سمجھنے اور برتنے کی خاطر نئے نئے اسلوب کے واسطے خود کوبدلتے رہے۔ اعتدال، ضبط اور توازن سریندر پرکاش کی زندگی اور فن دونوں میں نہ تھا، لیکن زندگی سے معمور اکتارہ کا آہنگ اُن کے افسانوی بیانیہ کے جوہرکے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے امکانات کو معدوم ہونے دیتا نہ قرأت کے مزے کو بگڑنے دیتا۔ قصّہ گوئی ایک خاص معنی میں اُن کے ہاں وجدانی تجربہ میں ڈھلتی چلی جاتی ہے اور افسانہ نگار کے منشا اور ارادے یا Intentions کو منہدم کرتے ہوئے اپنا راستہ خود وضع کرتی ہے۔
ہندوستانی کتھا واچن کی روایت سے سریندر پرکاش چونکہ بخوبی واقف تھے لہٰذا قصّوں سے ترتیب پانے والے اُن کے افسانوی بیانیہ میں وقت جو گزر چکا ہے، گزر رہا ہے یا گزرنے والاہے، ایک جیتے جاگتے آج کی طرح سانسیں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ تمام زمانی اور مکانی جہتیں پگھل کر ایک دوسرے میں جذب ہو جاتی ہیں اور ایک اجتماعی کُل کی شکل اس طرح اختیار کر لیتی ہیں کہ اُن کے درمیان کے جوڑ دکھائی نہیں دیتے۔ تخلیقی و تخیلی اظہار میں سُر، تال، لے اور دھڑکنوں کے طے شدہ زیروبم کو ملحوظ رکھنے کے باوجود افسانہ کی زبان کو سریندر پرکاش سماجی ڈسکورس کے طور پر ہی اخذ کرتے ہیں۔ بظاہر اُن کے افسانوں کا منظر نامہ باطنی و ذہنی وقوعات سے ہی کیوں نہ مرتب ہو رہا ہو لیکن اُس کی تہہ میں عصری تقاضوں اور عصری حقایق کی معنویت کی موہوم لکیر رینگتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے۔ متعدد افسانوں میں علامتوں کی تشکیل اور کرداروں کی تعمیر بار بار اُنہیں اپنے عصر سے رجوع ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ ’’جپی ژاں ‘‘ کا یہ حصّہ ملاحظہ کریں : ’’دن ڈھلتے ہی تمام عورتیں گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ وقت اپنے پائوں میں مو زے پہننے لگتا ہے۔ برساتیں ختم ہوتی ہیں تو گلابی جاڑا شروع ہوجاتا ہے۔ گملے میں اُگا ہوا گیہوں کا پودا لہلہانے لگتا ہے اور اُس کا خوشہ حاملہ بالی کے بوجھ سے جھُک جاتا ہے۔ دھوپ اُونگھتی ہوئی ہمارے شہر کی دیواروں پر پہرہ دینے لگتی ہے...اور ہم...جپی ژاں کے انتظار میں اپنے آنگنوں میں آرام کرسی ڈال کر نیم دراز ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ اساطیری، تاریخی اور تہذیبی ہی نہیں ہارڈ کور سیاسی تناظرات بھی سریندرپرکاش کی قصّہ گوئی میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ (بقیہ آئندہ ہفتے)