’دی فال آف اے اسپیرو‘ کے عنوان سے اپنی خود نوشت میں ’برڈمین آف انڈیا‘ سے مشہور سالم علی نے اپنی زندگی کے مختلف گوشوں پر اظہار خیال کیا ہے۔۱۹۸۵ء میں شائع ہونے والی اس شہرہ آفاق کتاب کے اب تک ۳۶؍ ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 1:57 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
’دی فال آف اے اسپیرو‘ کے عنوان سے اپنی خود نوشت میں ’برڈمین آف انڈیا‘ سے مشہور سالم علی نے اپنی زندگی کے مختلف گوشوں پر اظہار خیال کیا ہے۔۱۹۸۵ء میں شائع ہونے والی اس شہرہ آفاق کتاب کے اب تک ۳۶؍ ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔
آپ بیتیاں پڑھنے کے کئی فوائد ہیں۔ مشہورشخصیتوں کے احوالِ حیات کی معلومات فراہم کرنے کے علاوہ وہ زندگی کی پیچیدگیوں کو بہترطورپرسمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہیں اور ہمارے سوچنے کے انداز کو بہتر بناتی ہیں۔ عمدگی سے لکھی گئی خود نوشت قاری کو مُصنف کی زندگی میں غرق کردیتی ہے۔ سچے واقعات کی گوناگوں اورزندگی کے اُتارچڑھاؤ میں پوشیدہ اور اِمکانات کی حیرت انگیز دنیا کتاب بین پرمنکشف ہوتی ہے۔ جہاں سے وہ خود اپنی زیست کیلئے اُمید کی کِرنیں چُنتا ہے۔ ’ اے فال آف اے اسپیرو‘(ایک چڑیا کا گِرنا) مشہور ماہرِمطالعۂ طیور’ سالم علی‘ کی خُود نَوِشت ہے۔
علمِ مطالعۂ طیور(آرنِتھولوجی) سائنس کی ایک شاخ ہے جس میں پرندوں کے انواع واقسام کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔ اُن کے عادات واطوار اور ان کے جینے مرنے کے ہر پہلو کی تفصیلی معلومات جمع کی جاتی ہے۔ تصویرکشی اور فِلم بندی کی جاتی ہے۔ اُن کے بال و پرسمیت جِلد کے اندر بھوسا بھر کر کیمیائی مصالحوں کے ذریعہ اُن کو محفوظ کیا جاتا ہے جنھیں ہم عجائب گھروں میں دیکھتے بھی ہیں۔ اِس علم کے فروغ کیلئے ملک میں جتنا کام سالم علی نے کیا شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ اِسی لئے اُنھیں ’برڈمین آف انڈیا‘ کہا جاتا ہے۔
اُنھیں اعلیٰ شہری اعزاز پدم بھوشن اور پھر پدم وِبھوشن سے نوازا گیا۔ اُن کی یاد میں دو ڈاک ٹکٹ جاری کئے گئے۔ گوا اور کیرالا میں اُن کے نام پر پرندوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں جو لاکھوں پنچھیوں کا بسیرا ہیں۔ کئی یونیورسٹیزمیں اُن کے نام سے تدریسی مراکز جاری ہیں۔ چمگادڑ، کوئل اوردیگر پرندوں کی چارمختلف انواع اُن سے منسوب ہیں مثلاً ’اپوز سالم علی‘ اور ’لاٹیڈین سالم علی‘۔ اُن کی اہلیہ تہمینہ کا نام بھی ایک ہُد ہُد سے جُڑا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی پھر سامنے آگئی
وہ ۱۸۹۶ء میں ممبئی کے ایک سُلیمانی بوہرہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ کم عمری ہی میں والدین چل بسے۔ سالم اور اُن کے بہن بھائیوں کی پرورش ماموں امیرالدین اورمُمانی حمیدہ بیگم نے بڑی شفقت کے ساتھ کی۔ کھیت واڑی میں رہائش تھی۔ گھریلو خادم کے ساتھ کرا فورڈ مارکیٹ سے مرغیاں خریدنے جاتے پھر وہاں موجود تیتر بٹیر، بطخیں اوردیگر پرندوں کو بغور دیکھا کرتے تھے۔ چَھرّوں بھری بندوق سے لڑکپن میں ایک گوریّا پر نشانہ لگایا۔ وہ گِری تو دیکھا کہ وہ دیگر چڑیوں سے مختلف تھی۔ وہ اُس کی گردن پر موجود زرد ہالے پرغور کرنے لگے۔ اس گہرے تجسس نے انھیں ’بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی‘ (بی این ایچ ایس) کے انگریز سیکریٹری تک پہنچایا جس نے اُنھیں پرندوں کی شناخت کے علم سے متعارف کروایا۔ عام طفلانہ تجسس کوایک سِمت مِلی اوراُن میں پرندوں کے مُشاہدے اورمطالعے کا شوق پروان چڑھا جو بعد میں اُن کا عشق، جُنوں ، دیوانگی بنا اور پیشہ بھی۔ بعد کے دور میں وہ ’بی این ایچ ایس‘ کے اعلیٰ عہدیدار بنے۔ یہ۱۴۰؍ سال پُرانا اِدارہ ہے جو آج بھی فطرت اور ماحولیات بالخصوص تحفظِ چرند و پرند کے متعلق تحقیقی کام میں مصروف ہے۔
سابق ریاست حیدرآباد میں پرندوں کے سروے سے سالم علی کے کریئر کی اصل شروعات ہوئی۔ کام دشوار تھا جسے انھوں نے بخوبی مکمل کیا۔ بعد میں کَچھ کا صحرا، نیل گری کے پہاڑ، بھرت پور، بَستَر اور افغانستان میں ان کی مہم جوئیوں نے پرندوں کی سیکڑوں اقسام سے دنیا کو روشناس کروایا۔ ہم لوگ اردو میں کوّا، کبوتر، مَینا، طوطا، چیل، چکور، ابابیل، شکرہ، قمری، بلبل، مور، عقاب، شُترمرغ اور اُلو وغیرہ کے نام تو جانتے ہیں لیکن کتاب ہم کو نہ جانے کتنے پرندوں کے خوشنما انگریزی ناموں سے واقف کرواتی ہے۔ سالم کی سائنسی جستجو قابل قدر تھی اور ان کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ منفرد تھا۔ اُن کے قلم نے بعد میں ’دی بک آف انڈین برڈس‘جیسی متعدد کُتب کو وجود بخشا اورعالمِ عِلم میں بیش بہا اضافہ کیا۔ مذکورہ کتاب پہلی مرتبہ۱۹۴۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ ہرایڈیشن کے ساتھ اس کے مشمولات میں اضافہ ہوتا رہا۔ لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد نے احمدنگر جیل میں چڑیا چڑے پرانشائیہ تحریرکرتے وقت اس کتاب سے بھی استفادہ کیا تھا۔
۱۹۳۴ء میں سالم علی نے ایک پروجیکٹ کے ابتدائیے میں لکھا کہ زراعت وباغبانی میں پرندوں کا رول دوطرفہ ہے۔ کچھ پرندوں کے جُھنڈ کھڑی فصلوں اور پھلوں کو برباد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب وہ فصلوں کو کیڑے مکوڑے اور چوہوں سے بچاتے بھی ہیں لہٰذا اس موضوع پر ریسرچ کی ضرورت پرزور دیا۔ انھوں نے پرندوں کی نقل مکانی پر بھی اپنے زمانے کے لحاظ سےکافی ترقی یافتہ تبصرے کئے۔ سالم علی حقوقِ حیوانات کے موضوع پر کلام کرتے ہیں۔ مکمل اہنِسا کے تصور سے اختلاف کرتے ہیں۔ تحصیلِ علم کی خاطر اُنھوں نے بیشمار پرندوں کو مار گِرایا۔ یہی علم بعد میں اُن پرندوں کے انواع کی ختم ہوتی نسلوں کی حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوا۔
کتاب میں آزادی سے پہلے کے بامبے شہر کا نقشہ خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے۔ گھوڑوں کے ذریعے کھینچی جانے والی ٹرامیں جو گرانٹ روڈ، پائدھونی وغیرہ سے متعینہ اوقات پر خدمات فراہم کرتی تھیں۔ بھاپ کے انجن سے چلنے والی لوکل ٹرینیں، پالی ہل کے نو تعمیر شدہ بنگلے اورکھار، سانتا کروز میں دھان کے کھیت اور چمبور پورا جنگل تھا۔ قریبی اسٹیشن کرلا تک پیدل یا بیل گاڑی کے ذریعے جانا پڑتا تھا۔ پیٹرول، سرخ اور پیلے ڈبوں میں فروخت کیا جاتا تھا، پمپ کم تھے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’مغل انتظامیہ کے تحت مندروں کو حکومت کا تحفظ حاصل تھا اور دیکھ بھال میں تعاون بھی‘‘
آرام وآسائش کی زندگی کے باوجود سالم علی کی اہلیہ تہمینہ نے، بعد از نکاح پرندوں کی دُنیا کے درویش، سالم کے ساتھ دوردراز پہاڑوں کی چٹانوں پر، جنگلوں، خیموں میں سہولتوں سے عاری زندگی کی مشکلیں بخوشی برداشت کیں۔ دہرہ دون میں قیام کے دوران مشاعروں میں شرکت کے سبب تہمینہ پراُردو سیکھنے کا جنون طاری ہوا۔ ایک پیشہ ور ٹیوٹر کی خدمات حاصل کیں۔ سالم بھی بچپن میں اپنی بڑی بہن فرحت سے اُردو کے اسباق پڑھ چکے تھے۔ فرحت اپنے شوہر کے ساتھ جب بھی سالم کے گھر آتیں اپنی گفتگو سے ماحول کو خوشگوار کردیتیں۔ غالب واقبال کا کلام، کبھی مُسدِس حالی، کبھی پریم چند کی کہانیاں، سارا گھر شوق سے سنتا تھا۔
اُن کے دوست عثمان، مشہور قومی رہنما عمرثوبانی کے بھائی تھے جِن کی رہائش، وائی ایم سی اے میدان کے مقابل ان کے فلیٹ کی اوپری منزل پرتھی۔ اُس وقت کے اکابر و قائدین وہاں آیا کرتے تھے۔ اس دوران سالم سروجنی نائیڈو سے متعارف ہوئے۔ سروجنی کو بُلبلِ ہند کہا جاتا تھا البتہ سالم کو اُس وقت تک مردِ طیورِہند کا خطاب نہیں ملا تھا۔ تحریک خلافت کے رہنما مولانا شوکت علی اوراُن کے رفیق شعیب قریشی سے بھی سالم اور تہمینہ کی علیک سلیک ہونے لگی تھی۔ ان محفلوں میں شعیب قریشی، علامہ اقبال کی نظم’شِکوہ‘ پڑھتے اورسوزِ یقیں سے لہو گرماتے لیکن سالم نے ان تحریکات سے خود کو دوررکھا۔ توجہ کو کُنجَشک ہائے فرومایہ، شاہینوں، مَمولوں، شہبازوں اور دیگر لاہوتی طُیورکے مشاہدے ومطالعے تک محدود رکھا۔
اُن دنوں بازارمیں ایک خاص قسم کی الماری آئی جو اشیاء خوردونوش کو خراب ہونے سے بچاتی تھی۔ آموں کے شوقین سالم، ٹھنڈے ہاپوسوں کی لذت سے آشنا ہوئے۔ ایک دفعہ مولانا شوکت علی نے غالباً غلطی سےعثمان کے بجاے سالم کے دروازے پردستک دی تو تہمینہ نے ازراہِ تکلف فریج میں موجود آم چکھنے کی دعوت دی۔ اب آم تو یوں بھی صاحبِ شاخِ برگ وبار ہوتا ہے اور ناز پرورۂِ بہار بھی۔ یہاں آموں میں، اپنے ہونے اوربہت ہونے کےعلاوہ ٹھنڈے ہونے کی صفت بھی موجود تھی۔ مولانا جھٹ سے تیار ہوئے۔ بہترین کوالیٹی کے آٹھ بڑے بڑے آم تیز رفتاری کے ساتھ فریج سے مولانا کے شکم میں منتقل ہوگئے۔ تہمینہ کو سبق ملا کہ تکلُّف مہمان کے جُثّے کی مناسبت سے کیا جانا چاہئے۔ سالم علی موٹر بائیکوں کے شوق کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ہارلے ڈیوڈسن جیسی مضبوط و دَم دار مشینوں پرسواری کے لطف کا ذکرکرتے ہیں۔ بی ایم ڈبلیو کی سواری کا ارمان البتہ پورا نہیں ہوسکا۔
سالم اپنے اقربا، دوستوں اور ہم کاروں کی یادوں کے خشک پھول کاغذ پرنفاست سے چسپاں کرکے پیش کرتے ہیں۔ اختتامیے میں انھوں نے متفرق موضوعات پراپنے خیالات کا اظہار کُھل کر لیکن شائستگی سے کیا ہے۔ روح سے عاری ظاہری دینداری، ملک میں انگریزی زبان کی حوصلہ شکنی، انسان اورحیوان کے درمیان فرق کی وجہ، روحانی و مادی وجود اورایسے دیگر سوالوں پر اُن کے خیالات سے ہم پورے طور پر اتفاق نہیں کرسکتے۔
’دی فال آف اسپیرو‘، نو دہائیوں کی رودادِ حیات ہے جو پہلی دفعہ ۱۹۸۵ ءمیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی۔ اب تک ۳۶؍ ویں طباعت بازارمیں دستیاب ہے۔ سالم علی سائنسداں تھے لیکن خودنوشت، کسی کہنہ مشق ادیب کی طرح لکھی۔ انگریزی الفاظ کی دلفریب ترکیبات کا جا بجا استعمال کیا۔ سیاہ سفید تصاویر کے البم سے تزئین کی۔ کتاب، اعلیٰ ذوق کے حامل قارئین کیلئے ذائقے اورغذائیت سے پُرخوراکِ ذہن ہے۔