• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہرزبان اہل ِزبان کے باعلم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے

Updated: August 04, 2024, 3:21 PM IST | Muhammad Hussain Azad | Mumbai

زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہل ملک میں علم آتاہے، پھر علمی اشیا کے لئے الفاظ یا تو اس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی گئیں، ویسے ہی ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ یہ عمل کل بھی جاری تھا، یہ آج بھی جاری ہے۔

One way to expand your language is to acquire knowledge and arts yourself, spread it in your country and inform your brothers and sisters about it. Photo: INN
اپنی زبان کو وسعت دینے کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو، اپنے ملک میں پھیلاؤ اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ تصویر : آئی این این

اگر زبان کو فقط اظہار مطلب کا وسیلہ ہی کہیں، تو گویا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بیچارے یا نادان بچے کے اشارے سے ہوتے ہیں، وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس کا مرتبہ ان لفظوں سے بہت بلند ہے۔ زبان حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں میں ایک قلعہ فولادی تیار کردے جو کسی توپ خانہ سے نہ ٹوٹ سکے، اور چاہے تو ایک رات میں اسے خاک میں ملا دے جس میں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ زبان ایک جادوگر ہے جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کر دیتا ہے، اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے، ان سے حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ایک نادر مرصع کار ہے کہ جس کی دست کاری کے نمونے کبھی شاہوں کے سروں کے تاج اور کبھی شہزادیوں کے نولکھے ہار ہوتے ہیں۔ کبھی علوم و فنون کے خزانوں سے زر و جواہر اس کی قوم کو مالامال کرتے ہیں۔ 
  وہ (زبان جسے سطورِ بالا میں معمار کہا گیا ہے) ایک چالاک عیار ہے جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے قفل کھولتا اور بند کرتاہے، یا مصور ہے کہ نظر کے میدان میں مرقع کھینچتا ہے یا ہوا میں گلزار کھلاتا ہے اور اسے پھول، گل، طوطی و بلبل سے سجا کر تیار کر دیتا ہے۔ اس نادر دست کار کے پاس مانی اور بہزاد کی طرح موقلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر آتی ہیں لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوش نما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کرکے لال چہچہا کر دیتا ہے۔ پھر بے اس کے کہ بوند پانی اس میں ڈالے، ایک ہی بات میں اسے ایسا کر دیتا ہے کہ کبھی نارنجی، کبھی گلنار، کبھی آتشی، کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ جی خوش ہو جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جال در جال

جس زبان میں ہم تم باتیں کرتے ہیں، اس میں بڑے بڑے نازک قلم مصور گزر گئے ہیں جن کے مرقعے آج تک آنکھوں اور کانوں کے رستہ سے ہمارے تمہارے دلوں کو تازہ کرتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ آج کل گویا ان کے قلم گھس گئے ہیں اور پیالیاں رنگوں سے خالی ہو گئی ہیں، جس سے تمہاری زبان کوئی نئی تصویریا باریک کام کامرقع تیار کرنے کے قابل نہیں رہی اور تعلیم یافتہ قومیں اسے سن کر کہتی ہیں کہ یہ نا کامل زبان ہر قسم کے مطالب ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ 
 میرے دوستو! یہ قول ان کاحقیقت میں بے جا نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں میں ہر ایک زبان جو عزت پاتی ہے، تو دو سبب سے پاتی ہے۔ اول یہ کہ اس کے الفاظ کے خزانے میں ہر قسم کے علمی مطالب ادا کرنے کے سامان موجود ہوں۔ دوم اس کی انشا پردازی ہر رنگ اور ہر ڈھنگ میں مطالب ادا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ ہماری زبان میں یہ دونوں صفتیں ہیں مگر ناتمام، اور اس کے سبب ظاہر ہیں۔ علمی مطالب ادا کرنے کے سامانوں میں جو وہ مفلس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ تم جانتے ہو، کل ڈیڑھ سو برسوں تخمیناً اس کی ولادت کو ہوئے۔ اس کا نام اردو خود کہتا ہے کہ میں علمی نہیں، بازار کی زبان ہوں۔ اٹھنے بیٹھنے، لین دین کی باتوں کیلئے کام میں آتی ہوں۔ سلاطین چغتائیہ کے وقت تک اس میں تصنیف و تالیف کا رواج نہ تھا۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو کہ ایک بچہ شاہ جہاں کے گھر پیدا ہوا اور انگریزی اقبال کے ساتھ اس کا ستارہ چمکا۔ جب صاحب لوگ یہاں آئے تو انہوں نے ملکی زبان سمجھ کر اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا مگر سوا چند دیوانوں کے اس میں نثر کی کتاب تک نہ تھی۔ ان کی فرمائش سے کئی کتابیں کہ فقط افسانے اور داستانیں تھیں، تصنیف ہوئیں اور انہی کے ڈھب کی صرف و نحو بھی درست ہوئی۔ ۱۸۳۵ ءسے دفتر بھی اردوہونے شروع ہوئے۔ ۱۸۳۶ ءمیں ایک اردو اخبار جاری ہوا۔ ۱۸۴۲ ءسے دہلی کی سوسائٹی میں علمی کتابیں اسی زبان میں ترجمہ ہونے لگیں اور اُردو نے برائے نام زبان کا تمغہ اور سکہ پایا۔ اب خیال کرنا چاہئے کہ جس زبان کی تصنیفی عمر کل۷۰۔ ۷۲؍برس کی ہو، اس کی بساط کیا اور اس کے الفاظ کے ذخیرہ کی کائنات کیا ہیں ؟ 

یہ بھی پڑھئے:ابن صفی کی تحریروں میں قاری کی دل بستگی کا سامان ہی نہیں ایک پیغام بھی ہوتا تھا

میرے دوستو! کسی زبان کو لفظوں کے اعتبار سے مفلس یا صاحب سرمایہ کہنا بے جاہے۔ ہرزبان اہل زبان کے باعلم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے اور کسی ملک والے کا یہ کہنا کہ علمی تصنیف یا بات چیت میں اپنے ہی ملک کے الفاظ بولیں، بالکل بے جاہے۔ عربی زبان بھی ایک علمی زبان تھی۔ مگر دیکھ لو، سارے لفظ تو عربی نہیں، صدہا رومی، صدہا یونانی، صدہا فارسی کے لفظ ہیں وغیرہ۔ اردو میں فارسی کا تو ذکر ہی نہیں۔ انگریزی زبان آج علوم کا سرچشمہ بنی بیٹھی ہے، مگر اس میں بھی غیر زبان کے لفظوں کا طوفان آ رہا ہے۔ 
 زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہل ملک میں علم آتاہے، پھر علمی اشیا کے لئے الفاظ یا تو اس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہو جاتے ہیں۔ علمی الفاظ کا ذخیرہ خدا نے بناکر نہیں بھیجا ہے نہ کوئی صاحب علم پہلے سے تیار کرکے رکھ گیا ہے۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی گئیں، ویسے ویسے ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ اول خاص وعام میں علم پھیلتا ہے، ساتھ ہی اسکے الفاظ بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً ریل کا انجن اوراس کے کارخانہ کے صدہا الفاظ ہیں کہ پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب وہ کارخانے ہوئے تو ادنیٰ ادنیٰ ناخواندے، سب جان گئے۔ اگربے اس کے وہ الفاظ یہاں ڈھونڈتے یا پہلے یاد کرواتے، توکسی کی سمجھ میں بھی نہ آتے۔ اسی طرح مثلاً میجک لینٹرن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا، خواہ اس کا یہی نام لیں، خواہ فانوس جادو کہیں، خواہ اچنبھے کا تماشا کہیں، ہرگز کوئی نہیں سمجھےگا۔ لیکن اگر وہ مشاہدہ میں عام ہو جائے اور گھر گھر میں جاری ہو جائے تو الٹے سے الٹا اس کا نام رکھ دیں، وہی بچہ بچہ کی زبان پر مشہور ہو جائیگا اور وہی سب سمجھیں گے۔ انگریزی میں جوعلمی الفاظ ہیں مثلاً ٹیلی گراف یا الیکٹریسٹی وغیرہ، ان میں بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ اپنے اصلی معانی پر پوری دلالت نہیں کرتے مگر چونکہ ملک میں علم عام ہے اور وہ چیزیں عام ہیں، اسلئے الفاظ مذکورہ بھی ایسے عام ہیں کہ سب بے تکلف سمجھتے ہیں۔ 
 پس لفظوں کی کوتاہی ہماری زبان میں اگر ہے تو اس سبب سے ہے کہ وہ بے علمی کے عہد میں پیدا ہوئی ہے اور اسی عہد میں پرورش اور تربیت پائی۔ اب اس کی تدبیر ہو سکتی ہے تو اہلِ ملک ہی سے ہو سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو، اپنے ملک میں پھیلاؤ اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ جب اس میں سب قسم کے کاروبار ہوں گے تو ان کے الفاظ بھی ہوں گے، ملک کے افلاس کے ساتھ زبان سے بھی افلاس کا داغ مٹ جائےگا۔ 

(’نیرنگ خیال‘ کے مضمون ’اردو اور انگریزی انشاپردازی پر کچھ خیالات‘ کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK