• Wed, 25 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک نو عمر گینگسٹر جوخود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگاہے

Updated: October 28, 2024, 5:14 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ایک مجرم کو ہیرو کے طور پر پیش کر نے کا جو رویہ میڈیا نےاختیار کر رکھا ہے وہ نظام قانون کیلئے تو مسئلہ ہے ہی ، نئی نسل کو لاقانونیت پر اُکسانے والا بھی ہے۔

Lawrence Bishnoi. Photo: INN
لارنس بشنوئی۔ تصویر: آئی این این

 ۱۲؍ فروری ۱۹۹۳ءکو پنجاب کے ایک گاؤں دتراوالی میں پیدا ہونے والا ’بل کرن برار‘ اس وقت لارنس بشنوئی کی شکل میں ملک کے قانونی نظام کیلئے ایک ایسا چیلنج بن گیا ہے جس پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ تو اقتدار کی جانب سے ہورہی ہے، نہ ہی وہ ادارے اس معاملے میں فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جن پر قانون کی پاسداری اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہے۔۱۲؍ اکتوبر کو مہاراشٹر کی صوبائی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے این سی پی لیڈر بابا صدیقی کے قتل کے بعدگودی میڈیا اور عوام کا ایک طبقہ اس نوعمر  گینگسٹر کو جس انداز میں دیکھ اور پیش کر رہا ہے وہ یقیناً قانون کے نفاذ کیلئے ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں سماج میں تفریق پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے میں میڈیا کا ایک طبقہ جس طرح صحافتی اخلاقیات کو تار تار کرتا رہا ہے، اس  تناظر میں اب اس کیلئے گودی میڈیا کی اصطلاح بھی بے معنی لگنے لگی ہے ۔ میڈیا کے اس طبقے کو موذی میڈیا کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو اپنے مفاد کو یقینی بنانے کیلئے سماج کو گمراہ کرنے اور قانون کو سبوتاژ کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتا۔میڈیا کا یہ گروہ اقتدار کے سیاسی ایجنڈے کی تشہیر میں بھی سرگرم رہتا ہے لہٰذا اس کو کھل کھیلنے کا موقع دانستہ طور پر فراہم کیا جاتا ہے۔ بشنوئی کے معاملے میں بھی موذی میڈیا کا رویہ اسی طرز کا ہے جو نظام قانون کو ہیچ ثابت کرنے اور ایک   گینگسٹر کی مدح سرائی میںفعال دکھائی دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: فسادات کے اسباب و نتائج کا جائزہ انسانی بنیادوں پر لینا چاہئے

موذی میڈیا کے اس رویے نے ایک مجرم کو ہیرو کے طور پر پیش کر نے کا جو وطیرہ اختیار کر رکھا ہے وہ نہ صرف نظام قانون کیلئے مسئلہ ہے بلکہ اس سے سماجی سطح پر بھی ایسے ممکنہ مسائل پیدا ہوں گے جو نوجوان نسل کو لاقانویت پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ لارنس بشنونی نے جس عمر میںجرم کی دنیا میں قدآوری حاصل کر لی ہے اس عمر میں ملک کے بیشتر نوجوان اپنے مستقبل کیلئے جد و جہد میں اپنی ذہانت اور توانانی صرف کرتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت نوجوانوں کے جو حالات ہیں وہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ مستقبل سازی کی ان کی جد و جہد بیشتر  ناکامی سے دوچار ہوتی ہے اور دوسری طرف لارنس جیسا نو عمر گینگسٹر ہے جو گزشتہ دس برسوں سے جیل میں ہے لیکن اس کے جرم کا دائرہ روز بہ روز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ لارنس جس طرح جیل میں رہتے ہوئے ملک اور اب  بیرون ملک جرائم کو انجام دے رہا ہے وہ قانون کے نفاذ پر مامور اداروں کیلئے ایک چیلنج کے مترادف ہے ۔
 اس چیلنج کو ناکام بنانے کے بجائے ایسا ماحول تعمیر کیا جارہا ہے کہ جس سے لارنس بشنوئی کی عظمت کا تاثر پیدا ہو سکے۔اس کے گینگ نے جس طرح قد آور شخصیات کو ہدف بنانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اس کا مقصد معاشرہ کو ایسے خوف میں مبتلا کرنا ہے جو اس کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت نہ کرسکے۔اس خوفزدہ ماحول کو مزید سنسنی خیز بنانے میں وہ عناصر سرگرم ہیں جو اس  گینگسٹر کی تعریف کرنے میں ملک و مذہب کا حوالہ دیتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کام میں بیشتر وہ نسل سرگرم ہے جسے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی فکر ہونی چاہئے۔فرقہ واریت کے رنگ میں ڈوبے ہوئے یہ نوجوان ایک مجرم کو محب وطن اور دھرم رکشک ثابت کرنے کیلئے ایسی دلیلیں پیش کر رہے ہیں جو ملک کے وقار اور دھرم کے تقدس کو مجروح کرتی ہیں۔ ان عناصر کی تشہیر میں موذی میڈیا جس طرح فعال ہے وہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔جیل میں سزا کاٹ رہا یہ  گینگسٹر جس منظم انداز میں جرائم کو انجام دے رہا ہے وہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ پولیس محکمے کے بعض با اثر افراد کی پشت پناہی اسے حاصل ہے۔
 شراب اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ ، جبراً وصولی اور قتل جیسے جرائم میں ملوث گینگسٹر کو مجاہد آزادی بھگت سنگھ اور مقدس ہستی رام چندر جی سے مشابہ قرار دینے والی نوجوان نسل اگر چہ اپنی ذہنی قلاشی کا ثبوت دے رہی ہے تاہم یہ رویہ سماجی سطح پر سنگین مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: راہل کا نظریاتی سیاست کا دعویٰ اور کانگریس کی موجودہ صورتحال

یہ وہی طبقہ ہے جو مسلمانوں سے نفرت اور ان کے خلاف تشدد کو صحیح ٹھہراتا ہے۔ بشنوئی کے دفاع میں جس طرح داؤ د ابراہیم کی مثال دی جارہی ہے وہ بھی ان نوجوانوں کی مذہبی منافرت کو نمایاں کرتی ہے۔ کسی بھی غلط اقدام کو صحیح ثابت کرنے کیلئے اسی طرز کی غلط مثال پیش کرنے سے اسے حق بجانب نہیں ثابت کیا جا سکتا۔ اگر اس غیر منطقی رویہ کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو صحیح و غلط کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ملک کے نظم ونسق کو سبوتاژ کرنے اور قانون کی پاسداری کے عمل کو پیچیدہ بنانے والے تمام عناصر ایک ہی زمرے میں آتے ہیں اور مذہب کو ان کی شناخت کا حوالہ بنانا انتہائی غیر مناسب عمل ہے۔ بشنوئی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ اس وقت ملک میں فرقہ واریت نے جو نفرت آمیز رنگ اختیار کر لیا ہے اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اسی لیے وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے دفاع کیلئے خود کو محب وطن اور سناتن کے رکشک کے طورپر پیش کر رہا ہے۔  اس گینگسٹر کو مقبولیت عطا کرنے میں اس دھرم آمیز سیاست کا بھی رول ہے جو اپنے سیاسی مفادکیلئے دھرم کو ایک آلہ  ٔ کار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی واضح شواہد منظر عام پر نہیں آئے ہیں لیکن اس امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ بعض سیاسی عناصراس کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کر رہے ہوں۔  قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے ارباب اقتدار کا اس کی مجرمانہ سرگرمیوں پر خاموش رہنا اس امکان کو تقویت عطا کرتا ہے۔ اس گینگسٹر کے متعلق جو خبریں میڈیا کے توسط سے عوام تک پہنچ رہی ہیں وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کی جیل کے اندر بھی وہ ان سہولتوں اور آسائشوں سے استفادہ کر رہاہے جو اس کے حوصلوں کو تقویت عطا کرتی ہیں۔ اس کے اہل خانہ مبینہ طور پر جیل کے اندرسالانہ ۳۰؍ سے ۴۰؍ لاکھ روپے اس پر خرچ کر رہے ہیں۔
 جیل میں رہتے ہوئے کئی مرتبہ سلمان خان کو مارنے کی دھمکی دینے والا بشنوئی جس طرح نوجوانوں کے ایک طبقے کا ہیرو بن گیا ہے وہ اس طبقے کی گمرہی کو نمایاں کرتا ہے۔ صرف مذہبی یکسانیت کی بنیاد پر کسی مجرم کا دفاع کرنے کا عمل بھی قانون کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ایک مجرم کی طرفداری کرنے  والے یہ نوجوان اپنی اس دیدہ دلیری کی تشہیر بھی بڑے فخریہ انداز میںکرتے ہیں۔ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے اور اپنی گھریلو اور سماجی ذمہ داریوں کو بر طرف کرکے ایک مجرم کی حمایت میں ملک و مذہب کے حوالے دینے والے یہ نوجوان دھرم اور سماج دونوں کیلئے خطرہ ہیں۔
 لارنش بشنوئی قانون کی نظر میں ایک مجرم ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست کی زائیدہ مذہبی منافرت والی فضا بھلے ہی اسے اپنی دہشت کو برقرار رکھنے میں معاون نظر آتی ہو لیکن یہ فضا دائمی نہیں رہے گی۔ ملک کو سماجی اور معاشی سطح پر مختلف مسائل میں گرفتار کر دینے والی فرقہ وارانہ سیاست کا رنگ پھیکا پڑنے لگا ہے ۔ اب وہ لوگ بھی ہوش کے ناخن لے رہے ہیں جن کی آنکھوں پر کل تک نام نہاد مذہبی فضیلت کی پٹی بندھی تھی ۔قانون کے نفاذ پر مامور اداروں سے وابستہ بعض عناصر اور ممکنہ طور پر چند مفاد پرست ارباب سیاست اگر اس  گینگسٹر کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو یہ سلسلہ بھی بہت دیر تک قائم نہیں رہے گا۔لیکن فی الوقت جو صورتحال ہے اس کے سبب قانون کی بالادستی کا تصور معرض خطر میں پڑ گیا ہے ۔
 اس کے علاوہ موذی میڈیا کو ملک و معاشرہ کے تئیں جوابدہ بنانے کیلئے بھی سنجیدہ اقدامات وقت کا ایسا ناگزیر تقاضا ہے جسے مزید نظر انداز کرنے سے حالات میں خرابی ہی پیدا ہوگی ۔جذباتی ہیجان میں مبتلا نوجوان نسل کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ مذہبی منافرت کے اظہار کیلئے کسی مجرم کی حمایت کرنا سماج اور ملک کے وقار کو ہیچ سمجھنا ہے اور ساتھ ہی اس رویہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی پاسداری اور احترام کی انھیں قطعی پروا نہیں  ہے ۔ سماج میں ایسے عناصر کی تعداد بھلے ہی کم ہو لیکن ان کی تشہیر میں میڈیا جس طرح سرگرم ہے اس سے سماجی مسائل میںمزید پیچیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔  اقتدار اور قانون کے پاسبانوں کو اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مجرموں کی پذیرائی کرنے والی سماجی روش کی روک تھام ہو سکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK