• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲۰)

Updated: September 09, 2024, 4:38 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں علامہ اقبال کے کلام میں تصوف کے مختلف رنگ اور موافقت و مخالفت۔

Mohammad Iqbal. Photo: INN
محمد اقبال۔ تصویر : آئی این این

 علامہ اقبال نے نہ صرف تصوف کا اثبات اور اکابر صوفیہ کی تعریف کی ہے بلکہ وہ سلسلہ ٔ عالیہ قادریہ میں بیعت بھی تھے۔ 
 نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہوتو دیکھ ان کو
یدبیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں 
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی 
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
نہ تخت وتاج میں نے لشکروسپاہ میں ہے
 جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
 مگر انہوں نے کثرت سے ایسے اشعار بھی کہے ہیں جو تصوف اور صوفیہ سے ان کی بیزاری کے ثبوت میں پیش کئے جاتے ہیں، مثلاً
کسے خبر کہ سفینے ڈبوچکی کتنے 
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی 
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن 
انہوں نے’ اسرار خودی‘ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچہ میں تصوف اور حافظؔ پر اعتراضات بھی کئے تھےحتیٰ کہ انہوں نے ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں ابلیس سے کہلوایا ہے کہ 
مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہی میں اسے 
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
مگر اقبال نے حسن نظامی کے مضمون کے جواب میں یہ بھی لکھا ہے کہ 
 ’’ میرا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ نبی کریمؐ نے دین کی وساطت سے دنیا میں حصہ لینا سکھایا، خدائے تعالیٰ نے مسلم کو ہدایت کی کہ … یعنی دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر پھر اس کو حاصل کرنے کا طریقۂ کار بھی بتایا اوراسی کا نام شریعت اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:یوم اساتذہ: یہ دن اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی کیلئے احتساب کا ہوتا ہے

بظاہر ’ تصوف ‘ کے متعلق ان کی فکر میں بڑا تضاد ہے مگر ان کی ایسی تحریریں اور خطوط بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصوف کی اس خاص شکل کے مخالف تھے جس کا مقصد حالت ِ سکر پیدا کرنا ہے۔ تصوف کی اس شکل کے وہ مخالف نہیں تھے جس کی تائید کتاب وسنت کی تعلیمات سے ہوتی ہو یا جو باعمل زندگی گزارنے کا باعث بنتی ہو۔ 
 یہ بھی عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے اپنی کتاب ’حافظ اور اقبال ‘ میں دونوں شاعروں میں مغایرت کے ساتھ مماثلت کے پہلو بھی تلاش کئے ہیں۔ یہاں تک لکھا ہے کہ حافظ اور اقبال دونوں عشق کی بات کرتے رہے بس فرق یہ ہے کہ حافظ نشاط ومستی میں سرشار رہے جبکہ اقبال نے عشق کی قوت سے انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حافظ کے کلام میں لاشعور کا زیادہ دخل ہے اور اقبال کے کلام میں شعور کا۔ ان نکات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ پیغام اور نظام فکر کے لحاظ سے ہی نہیں فن اور زبان وبیان کے لحاظ سے بھی اقبال کا کلام نہ صرف اچھوتا ہے بلکہ اس میں وہ کیفیت بھی ہے جو پڑھنے، سننے والوں کو وجد کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی نہیں ان نکات اور مباحث پر سوچنے کے لئے بھی مجبور کرتی ہے جو تصوف کا موضوع اور ایک خاص کیفیت سے لبریز ہیں مثال میں پیش ہے بس ایک غزل
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں 
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں 
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں 
گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ورنہ 
گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں 
رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل 
حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں 
عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب 
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں 
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شئے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں 
بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں 
  پہلے شعر میں اس حقیقت کا اثبات ہے کہ خبر کا مطلب اطلاع وپیغام ہے جو حواس خمسہ کے ذریعہ بھی حاصل ہوتا ہے اور دوسروں کے ذریعہ بھی۔ 
  فلسفہ بھی رہین منت ہے عقل کا، فلسفہ گرہ کشائی کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ بیشتر تشکیک کی صورت میں برآمد ہوتا ہے مگر انسان کی کامیابی کا راز تشکیک نہیں حسنِ یقین ہے جو کسی اللہ والے کی توجہ یا مہربانی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ عقل کا نقص یہی نہیں کہ یہ حسن یقین سے محروم رکھتی ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ یہ انکار کو بھی انکار نہیں رہنے دیتی اسی لئے دنیا میں ملحد و منکرسے زیادہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ’لا ادر ی ‘ کہا جاسکتا ہے یعنی ایسے لوگ جو وثوق کے ساتھ مالک وخالق کے ہونے کے قائل ہیں نہ مالک وخالق کے نہ ہونے کے۔ 
 دوسرے شعر میں یاد دہانی کی ہے کہ زندگی مسافت وفتوحات سے بھی عبارت ہے اور روحانی ترقی سے بھی۔ اسی لئے صاحب ایمان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ 
  تیسرے شعر میں کہا گیا ہے کہ جس طرح موتی کی قدروقیمت آب وتاب سے ہوتی ہے انسان کی قدرومنزلت اس جوہر سے ہوتی ہے جس کو خودی کہتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۹)

 چوتھے شعر میں تاکید ہے کہ خون کی گردش تو ہر ذی روح کی رگوں میں ہے اصل حیات تو سوزجگر (عشق) کے بغیر نہیں ہے۔ 
  نسیم سحرسے اجتناب کا مطلب ہے پھول کا نکہت وشادابی سے محروم رہ جانا اسی طرح شاعر سے اجتناب معانی سے اجتناب ہے۔ شاعر ہی اشیاء کے وجود میں نئے نئے معانی تلاش کرتا ہے۔ 
 ’’ اسلام یا مشرق کی تہذیب اور علوم کو یورپی تاجر اگرچہ حقیر سمجھتے ہیں مگر مسلمانوں یا اہل مشرق کا اصل جوہر ان کی ہنرمندی اور علوم وتہذیب سے متصف ہونا ہے۔ ‘‘
  ساتواں یا آخری شعر اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ اقبال اگرچہ کریم وسخی ہے مگراس کا وجود شعلہ جیسا ہے اس لئے اگر وہ سخاوت بھی کرے گا تو شعلہ کے سوا کیا دے گا کہ انسان وہی دیتا ہے جو اس کو میسر ہو۔ اس شعر میں شعلہ اور شرر کا استعمال بہت زیادہ بامعنی ہے اور دونوں کی تعبیر و تشریح مختلف انداز سے کی جاسکتی ہے۔ 
  مندرجہ بالا غزل ’بال جبریل ‘  سے نقل کی گئی ہے اور ’بال جبریل‘ میں شامل دوسری غزلوں کی طرح اس غزل کے بھی حقیقی اور مجازی دونوں معنی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ ایسے کافی اشعار ہیں جن سے اقبال کے کلام اور فکر میں تصوف سے وابستگی کا اثبات ہوتا ہے، مثلاً 
عجب مزہ ہے مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں میں اپنے آپ میں نہ رہوں 
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں 
کبھی سوز وساز رومی کبھی پیچ وتاب رازی
حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی 
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں 
 پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
 محمد ؐ بھی ترا، جبرئیل بھی قرآن بھی تیرا
مگریہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
رقابت علم وعرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
 کسی ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اقبال تصوف کے مخالف اور موافق دونوں تھے تو آخر کیا تھے ؟جواب یہ ہے کہ اقبال تصوف کی حقیقت کو تو تسلیم کرتے تھے مگر صوفیہ کالبادہ اوڑھ کر ڈھونگ اور بے عملی کو راہ دینے والوں سے خبر دار بھی کرتے رہتے تھے۔ 
کنار ِ دریا خضر نے مجھ سے کہا بانداز محرمانہ 
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ 
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان خانقاہی 
انہیں یہ ڈر ہے میرے نالوں سے شق نہ ہو آستانہ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK