• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شاعری اور ادب کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے

Updated: August 11, 2024, 2:06 PM IST | Al Ahmed Sarwar | Mumbai

اردو کے شاعر اور ادیب بحیثیت مجموعی ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں نہ صرف شریک بلکہ پیش پیش رہے تھے۔ ہماری سیاسی تحریک کی ہر منزل اور ہر مرحلے کی ادبی تصویریں موجود ہیں۔

It is not necessary for a poet and a writer to write a poem on every political event and to make every new step eternal. Photo: INN
شاعر اور ادیب کے لیے ضروری نہیں کہ ہر سیاسی واقعے پر نظم لکھے اور ہر نئے قدم کو ابدی ٹھہرائے۔ تصویر : آئی این این

بیسویں صدی کا اردو ادب محض آزادی کے جذبے کی عکاسی پر قانع نہیں رہا۔ اس نے سماج کی رہنمائی کا کام اپنے ذمہ لے لیا۔ اقبال نے خضرراہ کے ذریعہ اردو میں سب سے پہلے مزدوروں کو ایک نئے دور کا پیغام سنایا اور آفتاب تازہ کے خیر مقدم کے لئے تیار کیا۔ قاضی نذر الاسلام کی نظموں کے ترجمے نے اس آفتاب تازہ کے جلوؤں کو بے نقاب کیا۔ ٹیگور کے تراجم سے ایک لطیف و نازک احساس کی تربیت ہوئی تھی، افسر میرٹھی، سیماب، ساغر، حفیظ نے گیتوں اور ہلکی پھلکی نظموں کے ذریعے سے وطن کی محبت کو عشق بنایا تھا اور اس عشق کی خاطر موت کو زندگی کہا تھا، مگر نذر الاسلام نے جذبے کو جوش اور جوش کو طوفان بنا دیا۔ 
اقبال اور نذر الاسلام کے بعد ہماری ادبی محفل میں جوش ؔکا ورود ہوا۔ یہ شاعر شباب کی حیثیت سے پہلے ہی مشہور تھے، ماحول کا تقاضا اور ان کی شخصیت کی افتاد انھیں انقلاب کی طرف لے گئی۔ اقبال کی انقلابی شاعری ایک عالمگیر انسانیت کے تخیل اور اس تخیل کی خالص اسلامی تعبیر کی وجہ سے ہندوستان کے دل کو زیادہ نہ گرما سکی مگر جوشؔ کی انقلابی شاعری تمام تر ہندوستانی ہے۔ نعرہ شباب میں وہ مذاہب کے اس انقلاب کو جو قومیت کے تصور میں خارج ہوتا ہے، اس طرح غالب کرتے ہیں :

یہ بھی پڑھئے:ظلم اور قہر

تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں 
ہڈیاں اس کفر و ایماں کی چبا ڈالوں گا میں 
اک نئے مذہب کی لکھوں گا کتاب زرفشاں 
ثبت ہوگا جس کے زریں نام پر ہندوستاں 
ان کی نظموں میں آزادی کی بڑی حسین و رنگین تصویریں ملتی ہیں۔ وہ آزادی کے ایک لمحے کو غلامی کی حیات جاوداں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ بغاوت میں وہ لوگوں کو اس طرح غیرت دلاتے ہیں : 
اے جواں مردو! خدارا باندھ لو سر سے کفن 
سر برہنہ پھر رہی ہے غیرتِ قومِ وطن 
شاعری اور ادب کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے اور سیاسی تحریکوں کے ہر پیچ وخم کا ساتھ دے۔ شاعر لیڈر نہیں ہوتا، وہ ہر واقعہ کو انقلاب اور ہر موج کو طوفان نہیں بنا سکتا۔ وہ طوفان و انقلاب کیلئے فضا تیار کرتا ہے۔ وہ دلوں کی ان گہرائیوں میں اترتا ہے جہاں آرزوئیں کروٹ لیتی ہیں اور ان تاریک گوشوں میں ایک بڑے نصب العین کی شمع جلاتا ہے۔ یہ شمع جب ایک دفعہ جل گئی تو گل نہیں ہوتی، یہ بنیادیں ایک دفعہ استوار ہو گئیں تو کوئی آندھی انہیں مسمار نہیں کر سکتی۔ اس لئے شاعر اور ادیب کیلئے ضروری نہیں کہ ہر سیاسی واقعے پر نظم لکھے اور ہر نئے قدم کو ابدی ٹھہرائے۔ مگر ہندوستان کے اس انقلابی دور نے جب ادبی تخلیق کی تو انسانی فلاح و بہبود، تہذیبی ترقی اور ذہنی عظمت سب کچھ سیاسی آزادی کے ساتھ اس سے وابستہ رہے۔ 
شاعروں میں سپاہیانہ رنگ اور مجاہدانہ اسپرٹ، سیاسی شعور، ادبی نقطۂ نظر سے بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ جوش اس سپاہیانہ رنگ کے شاعر ہیں۔ میں نے کتنے ہی سیاسی جلسوں میں ان کی مشہور نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے‘‘ سنی ہے اور دیکھا ہے کہ بڑی بڑی تقریروں سے جو ممکن نہ تھا وہ اس نظم نے کر دکھایا۔ یہ نظم بڑا ادبی کارنامہ نہیں لیکن اس بات کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ اردو کا شاعر دوسری جنگ عظیم کے دوران میں کہاں تھا اور کیا کہہ رہا تھا۔ 
جوشؔ کے اثر سے نئے شاعر بزم کو چھوڑ کر رزم کے مردِ میدان بن گئے۔ مجازؔ کے مجموعے آہنگ کا سرعنوان یہ شعر ہے۔ 
دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ 
تو جو شمشیر اٹھالے تو بڑا کام ہے یہ 
اندھیری رات کا مسافر، انقلاب، بدیسی مہمان سے، جلا وطن کی واپسی نے مجازؔ کو بزم خوباں سے نکال کر مجاہدین وطن کی صف میں کھڑا کر دیا۔ نئے شاعروں میں روشؔ، احسان دانشؔ، فراقؔ، ملاؔ، فیضؔ، جذبیؔ، مخدوم محی الدین، سردار جعفری، شمیم کرہانیؔ، علی جواد زیدی، ؔ جاں نثار اخترؔ، اختر انصاریؔ کے کلام میں آزادی کی جنگ ایک خوش آیند رومانی تصور کے بجائے زندگی کا ایک مقدس فریضہ بن گئی ہے۔ اردو شاعری میں قنوطیت، فرار، مردم بیزاری کی جو لَے ایک طرح سے چلی آرہی تھی، اسے ان شعرا نے بدل کر دنیا کو جنت بنانے اور انسانیت کو تہذیب سکھانے کیلئے استعمال کیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ہماری سیاست میں علاحدگی، انتشار، افتراق اور دوئی کی جو لہر تھی، اردو کے شعرا نے اسے مجموعی طور پر منہ نہیں لگایا۔ اقبال کی شاعری میں زیادہ مؤثر خطاب مسلمانوں سے ہے مگر وہاں بھی انسانیت کا ایک بلند تصور ہے جسے اسلامی جذبات اور اسلامی لباس دیا گیا ہے۔ اقبال وطن پرستی کے محدود تصور سے نکل کر وطن دوستی کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور مرنے سے دو سال پہلے خدا سے کہتے ہیں :

یہ بھی پڑھئے:عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۵)

میں بندۂ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا 
رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند 
اک دلولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو 
لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند 
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تونے 
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند 
اردو کے شاعر اور ادیب بحیثیت مجموعی ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں نہ صرف شریک بلکہ پیش پیش رہے تھے۔ ہماری سیاسی تحریک کی ہر منزل اور ہر مرحلے کی ادبی تصویریں موجود ہیں۔ لیکن لبرل نقطۂ نظر چکبست کے یہاں، انقلاب اور آزادی کے نعرے جوشؔ کے یہاں، آزادی کو سب کیلئے عام کرنے اور نچلے طبقے تک پہنچانے کا جذبہ ترقی پسند شعرا کے یہاں اور قید و بند، دار و رسن، مرنے مارنے کی داستان، جوہرؔ، حسرتؔ، سردار جعفریؔ اور شمیم کرہانیؔ وغیرہ کے یہاں ملتی ہے۔ روشن اندھیر ا شمیم کرہانی کی ان نظموں کا مجموعہ ہے جن میں ۱۹۴۲ء کی جنگ آزادی کا عکس ہے اور نئی دنیا کو سلام میں ایک وطن کا سپاہی اپنے ہونے والے بچے کو تلقین کرتا ہے کہ وہ اس کا ادھورا کام پورا کرے۔ 
 پریم چند نے ’’میدان عمل‘‘ میں سول نافرمانی کے دور کی روح کھینچ دی ہے اور ہمارے افسانہ نگاروں نے تو اس کا کوئی پہلو چھوڑا ہی نہیں۔ انہوں نے آزادی کے جذبے کو سب کیلئے نوائے سینہ تاب بنایا۔ ان کے نفس سے یہ چنگاری شعلہ بن گئی ہے۔ وہ محض جذباتی طور پر آزادی کا ترانہ نہیں گاتے۔ اس آزادی کا ایک صحت مند اور ترقی پسند تصور بھی رکھتے ہیں۔ 
آج ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ آزادی کی لڑائی لڑنے والے آزادی کے تصور میں ایک ہی رنگ بھریں اور ہندوستان کی تہذیب ومعاشرت نے صدیوں کے ارتقا کے بعد جو رنگارنگی، جامعیت اور ہمہ گیری پیدا کی ہے اسے فراموش کر دیں۔ اردو کے ادیب اس رنگارنگی، جامعیت کو ایک بڑی تہذیبی دولت سمجھتے ہیں اور اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں لینا چاہئے کہ وہ ہندوستان کی قومی زندگی میں وحدت کے خلاف ہیں۔ 
 اردو کا ادیب موحد ہوتا ہے مشرک نہیں ہوتا۔ وہ ایک بنیادی وحدت کا قائل ہے مگر اس وحدت کے رنگارنگ مظاہرے سے شرماتا نہیں۔ گزشتہ سال اس ملک میں نفرت کے جو حیرت انگیز مظاہرے ہوئے ہیں اور فسادات کی وجہ سے جو انسانیت سوز مناظر دیکھنے میں آئے ہیں، ان کے خلاف سب سے پرزور آواز اردو افسانہ نگاروں اور شاعروں کی ہے۔ کرشن چندر نے ’’ہم وحشی ہیں ‘‘ اور دیگر افسانوں میں مذہب کے نام پر انسانوں کا خون بہانے کے خلاف جنگ کر کے ادب اور انسانیت دونوں پر احسان کیا ہے۔ یہ آواز بعض لوگوں کو کمزور معلوم ہوتی ہے مگر نفرت، تعصب اور بربریت کی فضا میں توازن، عقلیت، مساوات اور رواداری کا ترانہ ہمیشہ شروع میں کمزور معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ یہ انسانیت کی آواز ہے اسلئے جلد یا بدیر اس کے پیچھے لوگ اس طرح ہو لیں گے جس طرح کوہ ندا کی آواز پر لبیک کہتے تھے۔ جب کبھی گزشتہ سو برس کی ذہنی تاریخ مرتب کی جائیگی، اردو ادیبوں اور شاعروں کا کارنامہ زریں حروف سے درج ہوگا جنہوں نے غلاموں کو آزادی کا احساس دلایا اور آزادی کو انسانیت اور تہذیب کی جنت بنانے پر اصرار کیا۔ ( ’’ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو کا حصہ‘‘ کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK