• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جال در جال

Updated: July 31, 2024, 1:36 PM IST | Mohammed Aslam Ghazi | Mumbai

عمران تقریباً نصف گھنٹے قبل ہوٹل میں پہنچا تھا۔ ہال میں داخل ہوکر وہ ایک میز کی طرف بڑھا تو کئی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں ۔ جن لوگوں نے اسے پہلی بار اس ہیئت کذائی میں دیکھا تھا ان کے چہروں پر استہزائی مسکراہٹ تھی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جولیا ہال کے داخلی دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رُکی پھر اندر جانے کی بجائے تیر کی طرح سیدھی اوپر گیلری میں چلی گئی۔ ذرا سی دیر میں ہی اس کی سانس پھول گئی تھی۔ تیز چلنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس خیال سے کہ اب کیا کرے ؟ در اصل آدھا گھنٹہ قبل اسے ایکسٹو نے فون پر بتایا تھا کہ عمران ہوٹل مےفیر میں بیٹھا ہے اور جولیا کو اس سے میک اپ میں ملنا ہے۔ جولیا نے جلدی جلدی ریڈی میڈ میک اپ کا سہارا لیا۔ سیاہ بالوں کی وگ سر پر جمائی، آنکھوں کا رنگ چھپانے کے لیے سیاہ کانٹیکٹ لینس لگائے، اسکرٹ کے بجائے ساڑی پہنی اور اونچی ایڑی کی سینڈل کی جگہ چپل پہن کر وہ باہر نکلی، اب اسے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ اپنی کار نکالنے کے بجائے اس نے مین روڈ پر آکر ٹیکسی پکڑی اور ۱۵؍منٹ کے اندر اندر ہوٹل مے فیر پہنچ گئی۔ لیکن یہ کیا ؟عمران اپنے ٹیکنی کلر لباس یعنی سرخ پتلون، پیلی قمیص، نیلی ٹائی، سفید جوتوں اور گلابی فلیٹ ہیٹ میں چہرے پر ازلی حماقتیں سجائے ایک میز پر کچھ کھا رہا تھا۔ 
عمران تقریباً نصف گھنٹے قبل ہوٹل میں پہنچا تھا۔ ہال میں داخل ہوکر وہ ایک میز کی طرف بڑھا تو کئی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں ۔ جن لوگوں نے اسے پہلی بار اس ہیئت کذائی میں دیکھا تھا ان کے چہروں پر استہزائی مسکراہٹ تھی۔ بعض پرانے لوگ اسے بیزار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن عمران سب سے بے پروا ایک میز پر جا بیٹھا۔ ہوٹل کے مستقل ممبران اور گراہک تو عمران کی افتاد طبع سے واقف تھے اس لئے کم ہی لوگ اس کی طرف متوجہ تھے۔ بیرا اسے پہچانتا تھا۔ فوراً آرڈر لینے پہنچا۔ عمران نےاسے دیکھتے ہی نہ صرف `سلاما لیکم جھاڑ دیا بلکہ کھڑے ہو کر اس سے مصافحہ بھی کیا اور اسکے بیوی بچوں کی خیریت بھی پو چھی۔ بیرے نے دانت نکال دیے اور آرڈر پوچھا۔ عمران نے کولڈ کافی لانے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر بعد عمران نے آئس کریم منگوائی اور اس کے ساتھ کھانے کا چمچہ منگوایا۔ اس کی میز کا بیرہ اس کے آرڈر لا لا کر رکھ رہا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے آہستہ آہستہ آئسکریم کھا رہا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:ابن صفی کی تحریروں میں قاری کی دل بستگی کا سامان ہی نہیں ایک پیغام بھی ہوتا تھا

جولیا نے اس کی ہیئت کذائی دیکھتے ہی اس سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا لیکن یہ سوچ سوچ کر اس کا دم پھولنے لگا کہ ایکس ٹو کو کیا جواب دے گی؟ اس نے ہال میں جھانک کر دیکھا تو اسے کچھ اطمینان ہوا۔ ہال میں آس پاس کی میزوں پر اسے صدیقی، خاور اور چوہان نظر آئے۔ تینوں میک اپ میں تھے لیکن جولیا نے انھیں فوراًپہچان لیا۔ اسے ان پر بے حد غصہ بھی آیا۔ اس نے ایکس ٹو کو اپنے مو بائل سے فون لگایا جو بلیک زیرو نے ریسیو کیا۔ بلیک زیرو ایکس ٹو کی آواز کی ہو بہو نقل کر سکتا تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’یس جولیا؟‘‘ جولیا نے اپنی کپکپاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’سر آپ کے حکم کے مطابق میں ہوٹل پہنچ گئی ہوں ۔ میک اپ کے باوجود میں ...میں ...عمرا ن سے چھپ کر گیلری میں آ بیٹھی ہوں ‘‘، ایکس ٹو سے بات کرتے ہوئے اس کے ماتحت ہکلانے لگتے تھے۔ بلیک زیرو نے غرا کر پوچھا ’’کیوں ؟‘‘ ’’س...س....سر وہ عمران اس وقت تماشہ بنا ہوا ہے۔ جو بھی اس کے پا س جائے گا وہ سب کےنوٹس میں آجائے گا‘‘ ’’ہمم! کیا تم میک اپ میں نہیں ہو؟‘‘ ’’ج ج جی! میں میک اپ میں ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ صدیقی، خاوراور چوہان بھی بہت بھونڈے میک اپ میں ہال میں موجود ہیں۔ میں نے انہیں فوراً پہچان لیا۔ مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں میں بھی پہچان نہ لی جاؤں ‘‘ ’’ہمم ! تم نے ٹھیک کیا ‘‘ بلیک زیرو نے ایکس ٹو کی بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’اچھا تو ایسا کرو کہ تم صفدر کو پوری صورت حال سے آگاہ کر دو اور اس سے کہو کہ صدیقی، خاور اور چوہان کو واپس بلا کر خود وہاں پہنچے۔ ‘‘ جولیا نے ڈسکنکٹ کی آواز سنی اور اطمینان کی ٹھنڈی سانس لی۔ پھراپنے بیگ میں سے رومال نکال کر پیشانی پر چمکنے والے پسینے کی بوندیں خشک کرنے لگی۔ اس نے فوراً اپنے مو بائل سے صفدر کے نمبر پر کال کی اور اسے دبی آواز میں جلدی جلدی تمام باتیں بتادیں۔ صفدر نے بتایا کہ وہ ۲۰؍ منٹ میں پہنچ رہا ہے۔ جولیا نے گیلری میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں جو تقریباً غیرآباد تھی۔ گیلری کے کنارے کھڑے بیرے کو اس نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ بیرا نزدیک آیا تو اس نے خوب گرم کافی کا آرڈر دیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس بھاگ دوڑ سے کیا حاصل ہوا؟ ایکس ٹو نے عمران سے ملنےکا حکم کیوں دیا تھا؟ صدیقی، خاور اور چوہان وہاں کیا کر رہے تھے؟ پھر سب کو واپس کیوں ہٹالیا گیا؟ اکیلا صفدر چار لوگوں کا کام کیسے کرے گا ؟ لیکن اس کے پاس اپنے سوالات کے تشفی بخش جوابات نہیں تھے۔ وہ کافی کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتی اور اپنے سوالوں میں مزید الجھتی رہی۔ صفدر کے آنے سے پہلے جولیا یہ تہیہ کر چکی تھی کہ وہ صفدر کو پہلے گیلری میں بلائے گی اور اس سے تمام حالات پوچھ کر اپنی الجھنیں دور کرے گی۔ اس نے پھر صفدر کے نمبر ملائے اور اس سے کہا کہ وہ پہلے گیلری میں آجائے۔ صفدر تھوڑی ہی دیر میں پہنچ گیااور گیلری کی میزوں پر نظریں دوڑانے لگا۔ وہ بھی میک اپ میں تھا۔ گیلری اس وقت تقریباً غیر آباد تھی اس لئےاسے جولیا کو شناخت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ جولیا کی میز پر آ کر بیٹھ گیا۔ جولیا نے گہرائی سے سر تا پیر صفدر کا جائزہ لیا اور بولی ’’ٹھیک ہے، مناسب میک اپ ہے‘‘۔ پھر اس نے بیرے کوبلا کر ایک کافی اور لانے کے لئےکہا۔ صفدر نے اسے استفہامیہ انداز میں دیکھ کر پوچھا ’’کیا بات ہے؟’’جولیا نے اپنے تمام سوالات اور الجھنیں اس کے سامنے رکھ دیے، صفدر نے اسے بتایا کہ خود اس کو ان سوالات کےجوابات نہیں معلوم اور کہنے لگا ’’تمہارے فون کے بعد میں نے ایکس ٹو کو فون کیا تھا۔ اس کی ہدایت کے مطابق مجھے میک اپ میں عمران سے مل بیٹھنا ہے‘‘ جولیا نے ٹھنڈی سانس لی، بیرے سے بل لانے کے لئے کہا اور بولی ’’میری الجھن اور بڑھ گئی‘‘، پھر نیچے بیٹھے عمران کی طرف اشارہ کیا جو اب بھی کھانے کے چمچہ سے آئس کریم کھا رہا تھا۔ 
صفدر عمران کی ہیئت کذائی کو نظر انداز کرتے ہوئے ہال میں آیا اور سیدھا عمران کی میز پر پہنچ گیا۔ عمران نے اسے دیکھتے ہی `سلاما لیکم کہا اور ہاتھ کے اشارے سے ایک کر سی پر بیٹھنے کو کہا۔ پھر دیدے نچا کر بولا ’’فرمائیے؟ تمہارا بجر بٹو ایکس ٹو مجھے گھیرنا کیوں چاہتا ہے۔ جو لیا سمیت پوری ٹیم واہیات قسم کے میک اپ میں میرے ارد گرد کیوں نظر آ رہی ہے؟ اب تم کیوں آئے ہو؟‘‘ ’’آپ سے ملنے کو کہا ہے ایکس ٹو نے‘‘ صفدر نے جواب دیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۴)

 ’’کنفیو شس نے کہا تھا کہ جب لوگ تمہارے نزدیک آنا چاہیں تو ان کو چائے ضرور پلانا۔ کیا پیو گے؟ چائے، کافی؟ یا آئس کریم کھاؤ گے؟ کنفیوشس نے یہ بھی کہا تھا کہ سردی میں آئس کریم کھانے سے زکام نہیں ہوتا۔ ‘‘’’کافی منگوا لیجئے۔ ‘‘ صفدر بولا۔ عمران نے بیرے کو اشارے سے بلایا اور ایک کافی لانے کو کہا۔ اس دوران صفدر عمران کے ٹیکنی کلر لباس کے متعلق سوچتا رہا کہ یہ حضرت جب بھی اس طرح کے لباس پہن کرکے ہوٹلوں میں بیٹھتے ہیں کوئی نہ کوئی نیا معاملہ ضرور سامنے آتا ہے۔ عمران نے صفدر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’بولو کیوں ملنا چاہتے ہو؟‘‘ صفدر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ’’پیرو مرشد! یہ ٹیکنی کلر لباس یونہی نہیں پہنا آپ نے۔ جب کبھی آپ ایسے لباس میں نظر آئے ہیں، کوئی نہ کوئی اہم معاملہ ضرور سامنے آیا ہے۔ ‘‘ 
 ’’میری مرضی! جیسا لباس چاہے پہنوں ! یہ بجر بٹو کون ہوتا ہے مجھے ٹوکنے والا؟‘‘ عمران نے مصنوعی چڑچڑے پن سے کہا۔ پھر اچانک زور زور سے چلانے لگا ’’تمہیں کیا مطلب! میں کیسے بھی کپڑے پہنوں، تم کون ہوتے ہو مجھ پر اعتراض کرنے والے؟‘‘ صفدر اس تبدیلی پر پہلے تو سٹپٹا گیا لیکن فوراً ہی سنبھل کر جارحانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ عمران کسی وجہ سے ہو ٹل میں ہلڑ مچانا چاہتا ہے۔ اس نے عمران کو تیز لہجے میں کہا ’’آپ آدمیوں کے جامے میں رہئے۔ سر کس کے جو کر مت بنئے۔ ‘‘ عمران کا چہرہ مصنوعی غصّے سے سرخ ہو گیا۔ صفدر کو اس کی اداکارانہ صلاحیتوں کا خوب تجربہ تھا لیکن اسے ایک نئی حیرت سے دوچار ہونا پڑا۔ مصنوعی غصہ لاکر چہرے کو سرخ کر لینا ناممکنات میں سے تھا۔ عمران نے کھڑے ہو کر اس کے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ قریب کی میز سے ایک شخص بیچ بچاؤ کیلئے دونوں کے درمیان آگیا۔ ’’ارے ارے صاحبان ! کیا کر رہے ہیں آپ لوگ؟ بیٹھ جایئے۔ یہ لیجئے پانی لیجئے، غصہ تھوک دیجئے۔ ‘‘
 جولیا نے بل ادا کیا اپنا پرس اٹھایا اور واپسی کے لئے اٹھی اسی وقت نیچے سے عمران اور صفدر کی تیز آوازوں نے اسے نیچے جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ بھی کسی اسکیم کا حصہ ہوگا۔ نیچے اتر کر وہ ہال کے دروازے کے پاس رک کر عمران اور صفدر کی طرف لاپروائی سے دیکھنے لگی جیسے ہرکوئی چلتے چلتے تیز آوازیں سن کر رک جاتا ہے۔ 
 عمران اس شخص کو خونخوار نظروں سے گھوررہا تھا ’’بیٹھ جاؤں ؟ غصہ نہ کروں ؟ اس بیوقوف آدمی نے مجھے سرکس کا جو کر کہا تھا۔ آپ نے سنا نہیں تھا؟‘‘ ’’بیوقوف تو آپ لگ رہے ہیں اس ٹیکنی کلر لباس میں ‘‘ صفدر زہر خند لہجے میں بولا۔ عمران احتجاجاً بولا ’’دیکھئے دیکھئے پہلے جو کر کہا، اب بیوقوف کہہ رہا ہے‘‘ پھر صفدر کا گریبان پکڑنے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ اجنبی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’ٹھہریئے ٹھہریئے‘‘ پھر صفدر کی طرف دیکھ کر کہا ’’جناب آپ چپ رہئے۔ کیوں انہیں پریشان کر رہے ہیں ؟ کیا یہ آپ کے دوست ہیں ؟’’ صفدر بولا ’’لاحول ولا قوۃ، ایسے مسخرے کو کو ن دوست بنائے گا؟‘‘ عمران پھر آگ بگولہ ہو کر چلایا ’’چپ رہو۔ تم مسخرے، جو کر، بیوقوف، الو کے پٹھے وغیرہ‘‘ اور ہانپتے ہوئے کرسی پر گر پڑا۔ اجنبی نے صفدر سے کہا ’’بس اب آپ چپ چاپ چلے جائیے جناب! شاید ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا ہے‘‘ عمران نے نظر بچا کر صفدر کو اشارہ کیا اور صفدر وہا ں سے خاموشی سے اٹھ گیا۔ اس نے ہال کے دروازے پرجولیا کو دیکھا اور اس کی طرف بڑھ گیا۔ 
  اجنبی دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے عمران سے بولا ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہےنا، آپ کرسی پر ایسے گرے تھے جیسے آپ کو غش آگیا ہو؟‘‘ عمران نے مصنوعی نقاہت بھرے لہجے میں کہا ’’ہاں شدید غصے کی وجہ سے میرا بلڈ پریشر بہت ہائی ہو جاتا ہے‘‘ وہ ایسے ہانپ رہا تھا جیسے کئی منزلیں زینے چڑھا ہو۔ اجنبی شخص سے عمران نے کہا ’’مجھے ڈاکٹر تک پہنچنے میں مدد دیجئے۔ ایسی حالت میں میں گاڑی نہیں چلا سکتا‘‘ اجنبی نے اسے تشویش آمیز نظروں سے دیکھا اور کہا ’’ڈاکٹر کو یہیں بلالیں ؟‘‘ ’’نہیں ! مجھے فوراً کسی بھی نزدیک ترین ڈاکٹر تک پہنچا دیجئے‘‘ عمران نے یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لیں ’’میں ابھی لے کر چلتا ہوں ‘‘ اس نے کہا اور ریسپشن کاؤنٹر پر جا کر ریسپشنسٹ سے بولا ’’میری بازو والی میز پر ایک صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ انہیں ڈاکٹر تک پہنچانے میں میری مدد کیجئے‘‘ ریسپشنسٹ بو کھلا کر کھڑا ہو گیا ’’کہاں ؟ کون! کیا ہوا؟‘‘ اسنے سوالات کی بو چھار کردی’’ اجنبی نے ہاتھ کے اشارے سے عمران کی میز کی طرف اشارہ کیا۔ ریسپشنسٹ نے اپنے ساتھ بیٹھے معاون کو تیزی سے عمران کی میز کی طرف جانے کیلئے کہا۔ اجنبی نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی جیب سے مو بائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا اور سر گوشیانہ لہجے میں ساری تفصیلات بتا کر پوچھا ’’اب کیا حکم ہے باس؟‘‘ ’’تمہیں خود سامنے نہیں آنا چاہئے تھا‘‘ باس نے انتہائی خشک لہجے میں کہا۔ اجنبی کے چہرے پر خوف کا ایک سایہ سا گزر گیا۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا ’’بباس۔ معاف کر دیجئے‘‘ باس نے کہا ’’چلو ٹھیک ہے۔ اب تم اسے اسپتال لے جانے کے بجائے سیدھے نمبر ۱ میں پہنچو‘‘ اجنبی نے اپنے خشک ہوتےہونٹوں پر زبان پھیری۔ کاؤنٹر پر عمران کا بل پوچھا۔ ریسپشنسٹ نےعمران کے ٹیبل والے بیرے کو بلایا، اس سے پوچھ کر بل کی رقم بتائی جو اجنبی نے فوراً ادا کی اور تیزی سےچل کر پارکنگ سے اپنی کار نکال کر ہوٹل کے پورچ میں لے آیا۔ تب تک دو بیرے عمران کو باہر لے آئے تھے۔ اجنبی نے کار کا پچھلا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ’’اسے یہاں لٹا دو۔ آپ کا بہت شکریہ‘‘ پھر تیزی سے گاڑی کو ہوٹل سے باہر نکال لایا۔ اس کی نظریں بیک ویو مرر پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ تعاقب کا اندازہ لگانا چاہتا تھا لیکن بھیڑ بھاڑ میں وہ اندازہ نہ کر سکا۔ البتہ اس کی گاڑی کے پیچھے دو گاڑیاں ہوٹل سے باہر نکلی تھیں۔ اجنبی نے اپنی گاڑی تنگ سی گلی میں موڑی اور شاہ راہ کے بجائے ایک سنسان سے راستے پر ڈالدی۔ اس نے بیک ویو مرر میں ان دو گاڑیوں کو دیکھا جو اس کا پیچھا کر رہی تھیں ۔ اجنبی نے اپنی کار کے اسٹیئرنگ کے پاس ایک خانے میں ہاتھ ڈال کر کوئی بٹن دبایا تو خانہ کھل گیا۔ اس میں ایک طاقتور ٹرانسمیٹر چھپا ہوا تھا۔ اجنبی نے ٹرانسمیٹر پر باس کو تعاقب کے بارے میں بتایا۔ ٹرانسمیٹر سے آواز آئی ’’یونہی گلیوں میں چکراتے رہو۔ ٹھیک دس منٹ بعد قائد اعظم شاہراہ کے پہلے سگنل سے دائیں طرف مڑجانا ‘‘ اجنبی نے او کے باس کہہ کر ٹرانسمیٹر بند کیا اور خانے کا بٹن دبایا تو خانے کا ڈھکن پھر بند ہو گیا۔ عمران پیچھے والی سیٹ پر پڑا تیزی سے بدلتے حالات کو محسوس کر رہا تھا۔ اس نے مزید وقت ضائع کئے بغیر بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال کے ڈرائیور کی گدی سے لگا دیا اور سانپ کی طرح پھپکارا ’’گاڑی روکو‘‘ لیکن اجنبی نے گاڑی روکنے کے بجائے اس کی رفتار مزید تیز کردی۔ عمران بجلی کی سی تیزی سے اگلی سیٹ پر آیا اور پوری قوت سے ریوالور کا دستہ اجنبی کی کنپٹی پر رسید کر دیا۔ دوسرے ہاتھ سے اسنے اسٹیئرنگ کو سنبھالا اور اپنا داہنا پیر گاڑی کے بریک پر رکھ کر گاڑی کو روک دیا۔ اسی اثناء میں پیچھے والی دونوں گاڑیاں نزدیک آ گئیں ۔ ایک صفدر چلا رہا تھا۔ دوسری گاڑی جو لیا ڈرائیو کر رہی تھی جو چوہان جولیا کیلئے چھوڑ گیا تھا۔ عمران نےصفدر سے کہا ’’اسے ڈرائیونگ وہیل سے ہٹا کر جولیا کی گاڑی میں ڈال دو۔ ہاتھ پیر باندھنے کی ضرورت نہیں ، اسے اور۱۵؍ منٹ ہوش نہیں آئے گا۔ جولیا! تم اسے دانش منزل پہنچا دو۔ ‘‘ صفدر نے بڑی تیزی سے بیہوش اجنبی کو کھینچ کر اسٹیرنگ وہیل سے ہٹایا اور جولیا کی گاڑی میں ڈال دیا۔ جولیا نے اپنی گاڑی کو تیزی سے پلٹایا اور دانش منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ عمران اجنبی کی گاڑی میں بیٹھ گیا اور صفدر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے گاڑی تیز رفتاری سےآگے بڑھا دی۔ صفدر اس کے پیچھے تھا۔ عمران نے گاڑی قائد اعظم شاہراہ کے پہلے سگنل سے دائیں طرف موڑ دی۔ اس نے عقب نما آئینہ میں دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ کی ٹویٹا گاڑی نے سگنل کے پاس سے اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ عمران نے اجنبی کی گاڑی کے شیشے چڑھا دیئے تھے۔ عمران نے خانے میں ہاتھ ڈال کر ٹرانسمیٹر کھولا، اسے باس کی آواز آئی ’’سیدھے چلتے رہو‘‘ عمران نے کھانستے ہوئے یس باس کہا تاکہ اس کی آواز نہ پہچانی جا سکے۔ چند فرلانگ کے بعد سڑک بالکل سنسان تھی کیونکہ آبادی کافی پیچھے رہ گئی تھی۔ عمران نے گاڑی روک دی۔ باس کی گاڑی اس کے پیچھے آ کر رکی۔ اس کے پیچھے صفدر تھا۔ عمران گاڑی میں بیٹھا رہا۔ باس اپنی گاڑی سے نیچے اترا۔ اس نے اپنے چہرے پر نقاب لگا رکھا تھا۔ وہ عمران کی گاڑی کے پاس پہنچا تو عمران نے تیزی سے دروازہ کھولا اور جیب سے ریوالور نکال کر باس کو کور کرتے ہوئے بولا ’’ اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو‘‘
 اتنی دیر میں صفدر بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔ اس نے بھی اپنا ریوالور نکال لیا تھا۔ عمران نے باس کی پسلیوں میں ریوالور چبھاتے ہوئے اسے صفدر کی گاڑی کی طرف دھکیلا۔ وہ خاموشی سے صفدر کی گاڑی کی طرف پلٹا لیکن وہ عمران کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔ عمران نے صفدر کی گاڑی کا عقبی دروازہ کھول کر باس کو پچھلی سیٹ پر دھکیلا اور خود بھی اس کے برابر بیٹھ گیا۔ صفدر ڈرائیورنگ وہیل پر بیٹھ گیا۔ گاڑی ایر کنڈ یشنڈ تھی۔ سیاہ شیشے چڑھے ہوئے تھے۔ عمران نے صفدر سے کہا ’’دانش منزل۔ تیزی سے‘‘
یہ بھی پڑھئے:برطانوی ادب سے : حُسنِ کامل

صفدر نے گاڑی پلٹائی۔ عمران نے ریوالور کا دستہ پوری قوت سے باس کے سر پر رسید کر دیا۔ وہ سیٹ پر لڑھک گیا۔ صفدر نے عقب نما آئینے میں عمران کو دیکھ کر مخاطب کیا ’’ کون ہیں یہ لوگ؟‘‘ عمران نے کندھے اچکائے۔ صفدر کی گاڑی تیزی سے دانش منزل کی طرف دوڑ رہی تھی۔ عمران نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکال کر منہ میں ڈالا۔ ایک چیونگم ہتھیلی پر رکھ کر صفدر کی طرف بڑھایا اور بولا ’’ مجھے نہیں معلوم تمہارے چوہے سے پوچھ لینا‘‘
 اجنبی اور باس کو دانش منزل میں الگ الگ کمروں میں بند کر دیا گیا۔ عمران نے بلیک زیرو سے دریافت کیا ’’اجنبی کو ہوش آگیا؟ ‘‘بلیک زیرو نے گردن ہلا کر حامی بھری تو عمران نے پوچھا ’’اس کا رویہ کیا رہا؟‘‘ بلیک زیروبولا ’’خاموش ہی رہا۔ البتہ تجربہ گاہ کے انچارج کا کہنا ہے کہ اس کی آنکھوں میں جو لینس لگا ہے اس میں انتہائی جدید قسم کا انفرا ریڈ کیمرہ بھی پو شیدہ ہے جس سے ۱۰۰ مربع میٹراطراف کی نہایت صاف تصاویر کہیں بھیجی جا رہی ہیں نیز اس میں آواز ریسیوکرنے والا انتہائی طاقتور مائک بھی لگا ہے جو آوازوں کو کہیں پہنچا رہا ہے۔ جیسے ہی یہ بات مجھےمعلوم ہوئی اجنبی کو فوراًبے ہوش کر دیا گیا تاکہ اس کی آنکھیں بند رہیں تو کیمرہ اور مائک کام نہ کر سکیں۔ ‘‘ عمران نے پسندیدگی سے سر ہلایا اور بولا ’’ تب تو اس باس کو بھی چیک کرنا چاہیےاور یقیناً دانش منزل بھی گھیری جا چکی ہو گی۔ تما م لوگوں کو الرٹ کر دو ‘‘چند منٹوں میں ہی اسکی بھی تو ثیق ہو گئی کہ باس کی آنکھوں کے کانٹکٹ لینس میں بھی کیمرہ اور مائک پو شیدہ ہیں ۔ عمران نے تجربہ گاہ کے انچارج کو بلا کر کہا کہ دونوں کی آنکھوں سے کانٹکٹ لینس نکال لئے جائیں۔ تجربہ گاہ کا انچارج بولا’’جناب ! ہمارے ہرفون اور مو بائل میں انتہائی ہلکی سی آواز محسوس ہو رہی۔ ہمارے فون اور موبائل ریکارڈ ہو رہے ہیں ‘‘دانش منز ل جدید آلات سے لیس ایک انتہائی پر اسرار عمارت ہے جو ایکس ٹو کے کئی خفیہ مراکز میں سے ایک ہے۔ 
 عمران نے ایک ٹھنڈی سی لہر ریڑھ کی ہڈی میں محسوس کی۔ اسے انتہائی حیرت تھی کہ اجنبی اور باس اتنی آسانی سے کیسے گرفت میں آگئے ؟ اب اس کو سمجھ میں آیا کہ یہ در اصل ایک چال تھی۔ انہیں گرفتار کرتے وقت بھی غالباً کیمرہ اور مائک سے آوازیں اور تصاویر کسی تک پہنچ رہی تھیں۔ انہیں ایک منصوبے کے تحت آسانی سے گرفتار ہونے دیا گیا تاکہ ان کے ذریعے ایکس ٹو تک پہنچا جا سکے۔ عمران کا ذہن بہت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ اس نے بلیک زیرو کو ہدایت دی کہ فون اور مو بائل پر گفتگو جاری رکھی جائے اور وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ احکامات دینا جاری رکھا جائے۔ پھر اسے سمجھا یا کہ وہ اور صفدر خفیہ راستے سے دانش منزل سے باہر جائیں گے۔ باہر یقیناً گھیرا تنگ کیا جا رہا ہوگا۔ عمران نے صفدر کو ساتھ لیا اور خفیہ راستے سے باہر نکل گیا جو دانش منزل سے چند میٹر دور ایک سنسان گلی میں نکلتا تھا جہاں مکانات کے پچھواڑے تھے اور صفائی ٹرک روزانہ آکر مکانوں سے کچرا جمع کر کے لے جایا کرتا تھا۔ عمران نے زیر زمین نالے کا ڈھکن ذرا سا ہٹا کر باہر کی سن گن لی۔ ہر طرف سناٹےکا راج تھا۔ دونوں جلدی سے باہر نکلے اور تیزی سے گلی کے مشرقی کنارے کی طرف چل پڑے جو دانش منزل کی مخالف سمت میں تھا۔ عمران نے اپنا مو بائل نکال کر احتیاطاً ایک جنرل اسٹور کے نمبر پر بات کی۔ مو بائل میں وہ ہلکی سی آواز اب نہیں آرہی تھی۔ عمران نے صفدر کو مخالف سمت میں بھیجا۔ منصوبہ یہ تھا کہ چکر کاٹ کر دونوں مخالف سمتوں سے دانش منزل کے سامنے والے میدان میں پہنچنے کی کوشش کرینگے اس طرح دانش منزل کے اطراف کی گلیوں اور راستوں کو چیک کر سکیں گے اور میدان سے دانش منزل کے سامنے والی چوڑی سڑک کی بھی نگرانی ہو سکے گی۔ پانچ منٹ بعد دونوں میدان میں متعینہ مقام پر پہنچ گئے۔ صفدر نے بتایا کہ دانش منزل سے شمال کی طرف ایک گلی میں ایک بڑی سی سیاہ وین کھڑی ہے جس کےشیشے چڑھے ہوئے ہیں ۔ اس وین کی ساخت عجیب قسم کی محسوس ہو تی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آرمرڈ ہے جس پر کسی قسم کے اسلحہ کا اثر نہیں ہو گا۔ اس نے بتایا کہ وین کی چھت پر ایک انٹینا بھی ہے۔ 
 عمران نے اپنے مو بائل سے روشی کو کال کیا۔ روشی نے فوراً موبائل پر فون ریسو کیا ’’ ہیلو، طوطے ! کیسے ہو ؟ بہت دنوں بعد یاد آئی ؟‘‘ ’’جلد سے جلد دانش منزل کے شمال میں نارتھ ایونیو ۲؍ میں پہنچو۔ ایک بند وین ہے اس میں جو کوئی ہے اس پر قابو پانا ہے۔ بے ہوشی کی گیس ساتھ میں رکھ لو ‘‘ عمران نے یہ کہہ کر فون ڈسکنکٹ کر دیا۔ 
 روشی نے جلدی جلدی اوباش قسم کی عورتوں کا سا میک اپ کیا۔ نیم عریاں سا لباس پہنا۔ پرس میں بے ہوشی کی خوشبو دار گیس کے ننھے ننھے کیپسول ڈالے، براؤنی کا چھوٹا سا پستول رکھا اور تیزی سے دانش منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ 

یہ بھی پڑھئے:اَدب اجتماعی شعور کی انفرادی دریافت اور تخلیقی اظہار کا نام ہے

اس نے نارتھ ایو نیو ۲؍کے شمالی سرے سے گلی میں داخل ہو نے کا منصوبہ بنایا جو دانش منزل کی مخالف سمت تھا۔ اس نے دور سے ہی وہ وین شناخت کر لی اورا ٹھلاتے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔ وین کے نزدیک پہنچ کر وہ تھوڑی سی لڑ کھڑائی اور ہلکی سی چیخ کے ساتھ وہیں بیٹھ گئی۔ گلی اس وقت سنسان تھی، لیکن روشنیاں کافی تھیں۔ جیسے ہی وہ چیخ کر زمیں پر بیٹھی اس نے اپنے ہاتھ میں دبے چھوٹے سے چاقو سے اپنے پیر کے انگوٹھے کو زخمی کر لیا جس سے خون رسنے لگا۔ اس نےچاقو اپنے اسکرٹ کی بیک پاکٹ میں ڈال لیا۔ اس نے کنکھیوں سے دیکھا، وین کا پچھلا دروازہ کھول کر ایک غیر ملکی با ہر نکلا اور روشی کے پاس پہنچا۔ اس نے ہمدر دی سے پوچھا ’’کیا ہوا ‘‘؟ لیکن اس کی سانپ جیسی آنکھیں روشی کےجسم کے ادھ کھلے نشیب و فراز پر رینگ رہی تھیں۔ روشی نے اس کی طرف دیکھا اور بولی ’’پتھر سے ٹھو کر لگی تھی ‘‘ غیر ملکی نے روشی کے نزدیک بیٹھ کر اس کے انگوٹھے کو دیکھا کہ خون رس رہا ہے تو ہاتھ سے انگو ٹھے کو دبا دیا اور بولا ’’چلو وین کے اندر چلو۔ بینڈیج لگا دیتا ہوں ‘‘ روشی اس کے ہاتھ کے سہارے کھڑی ہوئی اور وین کی طرف بڑھی۔ وین کے اندر داخل ہو کر غیر ملکی نے دروازہ بند کر لیا۔ 
 روشی نے دیکھا کہ وین میں ایک دیسی آدمی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے اور ایک دوسرا شخص ایک کمپیوٹر قسم کی مشین پر بیٹھا ہوا ہے۔ وہ بھی دیسی ہی تھا۔ کمپیوٹر نما مشین پر ایک اسکرین بھی تھا جواس وقت بند تھا۔ غیر ملکی نے مشین پر بیٹھے دیسی آدمی سے فرانسیسی زبان میں کہا ’’ ڈرائیور کو لے کر با ہر چلے جاؤ‘‘ روشی کو فرانسیسی آتی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ ڈرائیور سے کچھ کہتا روشی نے پھرتی سے بیگ سے ایک کیپسول نکالا اور ہاتھ سے دبا کر اسے پھوڑ دیا۔ وین کے اند رکے لئے ایک کیپسول کافی ثابت ہوا۔ روشی نے اپنا سانس روک لیا تھا۔ غیر ملکی اور دیسی کچھ سمجھنے سے پہلے ہی چند سیکنڈوں میں بے ہو ش ہو گئے۔ روشی پھرتی سے وین کا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔ تب تک عمران اور صفدر وین کے پاس پہنچ چکے تھے۔ 
 غیر ملکی کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند پایا۔ سامنے عمران ازلی احمقانہ مسکراہٹ لئے کھڑا تھا۔ اس نےالوکی طرح دیدے گھماکر فرانسیسی میں کہا ’’ ہیلو مسٹر ہاورڈ، اب آپ کیسے ہیں ؟‘‘ غیر ملکی عمران سے اپنا اصلی نام سن کر پو ری طرح ہوش میں آگیا۔ اس نے سراسیمہ لہجے میں کہا ’’ تم کون ہو ؟میرا نام ہاورڈ نہیں۔ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے ؟یہ جرم ہے ‘‘۔ ’’ عمران نے استہزائیہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ہاورڈ !تم کیلی گراہم کےگروپ میں رہے ہو۔ اب امریکہ منتقل ہو کر امریکی سی آئی اے میں بڑے عہدے پر ہو۔ ڈاکٹر بخاری کو قتل کر نے اور کووڈ کے ٹیکے کا فارمولا اڑانے کے لئےغیر قانونی طور سےمیرے ملک میں داخل ہوئے ہو تاکہ ہم مشرقی لوگ تمہارے ٹیکوں کے محتاج رہیں۔ ‘‘ 
 ہاورڈ کے چہرے پر دہشت اور خوف کے آثار گہرے ہو گئے۔ ’’ت۔ ت تمہیں غلط فہمی ہو ئی ہے ‘‘ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔ عمران نے اس کے جبڑے پر الٹے ہاتھ کا ایک مکا پوری قوت سے رسید کر دیا۔ یہ ہاتھ ایسا تھا کہ اگر ہاتھی پر پڑتا تو وہ بھی الٹ جا تا۔ ہاورڈ کا چہرہ ۱۸۰ ؍ ڈگری زاویےسے زیادہ گھوم گیا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ وہ ایک طرف لڑھک گیا۔ تب تک صفدر اور روشی نے دوسرے دونوں افرادکو بے بس کر دیا تھا۔ ہاورڈ غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہوا تھا اس لئے سفارتی سطح پر اس کا کوئی ریکارڈ مو جود نہیں تھا۔ اسے مارڈالنے پر اس کی حکومت بھی کوئی احتجاج نہیں کر سکتی تھی۔ عمران کا دستور تھا کہ اس طرح ملک میں داخل ہو نے والے غیر ملکی ایجنٹوں کو زندہ نہیں چھوڑتا تھا۔ 
 سائیکو مینشن میں جولیا اور صفدر کے علاوہ ایکس ٹو کی پوری ٹیم موجود تھی۔ سب بڑی توجہ سے ٹرانسمیٹرسے نشر ہونے والی ایکس ٹو کی بھرائی ہوئی آواز سن رہے تھے۔ ’’یہ معاملہ تھوڑی سی کوشش سے ہی حل ہو گیا۔ جن ۲؍ افراد کو آج جولیا اور صفدر نے عمران کی مدد سے پکڑا ہے وہ ہمارے ملک کے ہی باشندے ہیں لیکن ایک مغربی ملک کے لئے کام کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ ۲؍ اور دیسی لوگ گرفتار کئے گئے ہیں۔ چاروں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ در اصل اس مغربی ملک کے ہمارے ایجنٹ نے یہ خبر دی تھی کہ اس ملک کا ایک ایجنٹ ہمارے ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوا تھا جو ہمارے اہم سائنسداں ڈاکٹر بخاری کو قتل کرکے کووِڈ کے علاج کا فارمولا غائب کرنا چاہتا تھا، جو انہوں نے بڑی محنت اور طویل تجربات کے بعد دریافت کیا تھا۔ اس غیر ملکی جاسوس نے ہمارے کچھ لوگوں کے ذریعہ عمران اور تم لوگوں کو الجھانا چاہا تھا تاکہ ہماری توجہ ہٹا کر اپنا مقصد حاصل کر سکے۔ لیکن وہ ناکام رہا۔ اس کے مقامی افراد بالکل ناتجربہ کار اور کمزور نکلے۔ ان کے اعلیٰ سائنسی آلات بھی ان کے کام نہ آئے۔ دیٹس آل۔ ‘‘
 غیر ملکیوں کا کیا انجام ہوا ؟کسی میں ہمت نہ تھی کہ ایکس ٹو سے یہ پوچھ لے۔ سب خاموشی سے منتشر ہو گئے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK