Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعزیر نفس !

Updated: April 21, 2025, 1:24 PM IST | Azmat Iqbal | Malegaon

کھڑ کھڑ دھڑ دھڑ کرتی، ایکسپائر ہو چکی آٹو جو اس کے پریوار کے پالن پوسن کا واحد ذریعہ تھی وہ اسے پوری رفتار سے اپنے گھر کی طرف دوڑائے جا رہا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

  کھڑ کھڑ دھڑ دھڑ کرتی، ایکسپائر ہو چکی آٹو جو اس کے پریوار کے پالن پوسن کا واحد ذریعہ تھی وہ اسے پوری رفتار سے اپنے گھر کی طرف دوڑائے جا رہا تھا۔ آٹو کے کھٹارا آواز کرتے انجن کی طرح اس کے دماغ کی ہیجانی کیفیت، لرزتے ہاتھ پاؤں ، سرخ آنکھیں ، تیزی سے دھڑکتا دل اس کے کٹھیلے مضبوط و توانا جسم کو بے قابو کئے ہوئے تھا۔ وہ بس کسی طرح جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ بجلی کی چمک سے راستہ لمحہ بھر کے لئے نظر آتا پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا۔ گھنٹوں کی تیز بارش کے باوجود آسمان پر اب بھی چھائے گھنے بادلوں نے پورا منظر سیاہی میں لپیٹ لیا تھا۔ آٹو کی ہیڈ لائٹ اندھیرے کو کاٹنے کے لئے ناکافی تھی۔ 
 وہ برسوں تک ہاتھ رکشا کھینچنے کے لئے اپنے جسم کی طاقت صرف کرتا رہا۔ پچھلے برس ہی پرانی آٹو رکشا خریدنے کے بعد اس کے پینتالیس سالہ جسم کو کچھ آرام میسر ہوا تھا۔ تیس سالہ انتھک محنت نے اس کے بدن پر لوہے کا خول چڑھا دیا تھا۔ محنت مزدوری کے الاؤ میں رہنے والے اجسام میں حساسیت کا مادہ دم توڑ دیتا ہے۔ بنیادی ضروریات کی تکمیل ہی جینے کا مقصد ہوتا ہے۔ مگر آج رات، کچھ دیر پہلے اس کے ساتھ پیش آئے واقعے نے اسے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ دل و دماغ میں اتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اب بھی وہ آٹو میں موجود ہو، اس کے بالکل پیچھے۔ ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا، وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھئے:’’اردو مخالفین کو بیک جنبش قلم جواب مل گیا ہے‘‘

وہ پربھا کو سب کچھ بتا دے گا۔ مگر کیا وہ اسے معاف کر دے گی؟ کیوں نہیں ۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ اور پھر پچھلے سولہ مانسون جگہ جگہ ٹپکتی چھت کے نیچے دونوں نے ساتھ گزارے۔ پچھلے ہفتے نیہا نے خوشی خوشی ایس ایس سی بورڈ کا رزلٹ اس کے ہاتھوں میں رکھا اس خواہش کے ساتھ کہ وہ آگے کی پڑھائی کے لئے کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے اور اس نے سخت الفاظ میں اپنی لاڈلی کے جذبات کو کچل دیا۔ پربھا نے اسے نیہا کی پڑھائی جاری رکھنے کے لئے راضی کرنے کی کوشش بھی کی۔ بگڑے ماحول اور ہونے والے درندگی کے واقعات کا حوالہ اسے چپ کرانے کے لئے کافی تھا۔ ہربھا بھی اس کے اس خیال سے متفق تھی کہ غریب کے لئے عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ آج دوپہر کا کھانا کھا نے کے بعد جب وہ آٹو لے کر چہار باغ ریلوے اسٹیشن کی طرف نکلا تو مطلع صاف تھا۔ غیر متوقع طور پر کچھ ہی دیر میں گھنے بادل چھا گئے اور گھنٹوں دیر تک برستے رہے۔ سڑکوں پر پانی بھر جانے کے سبب دیر تک ٹریفک میں پھنسا رہا۔ شام ہونے تک معمول کے مطابق آمدو رفت شروع ہو گئی مگر کچھ علاقوں میں اب بھی پانی بھرا ہوا تھا۔ قیصر باغ کے قریب ایک بینک کرمچاری کو چھوڑنے کے بعد واپس ہوتے ہوئے روڈ کے کنارے بس کے انتظار میں ایک عورت کھڑی دکھائی دی۔ اس نے آٹو اس کے قریب روک دی۔ ’’ میڈم کہاں جانا ہے؟‘‘’’ سوری بھائی میں بس کے انتظار میں ہوں۔ ‘‘’’میڈم جی تمام بڑے راستوں پر جگہ جگہ پانی بھر گیا ہے۔ بسیں نہیں چل رہی ہیں ۔ آپ کو آٹو کے ذریعے ہی جانا ہوگا۔ اندر کے راستوں سے آپ کو منزل تک پہنچا دونگا۔ ‘‘
 بارش اور ہوا کے سبب بجلی بھی گل ہو گئی تھی۔ دھیمی رفتار سے اب بھی بارش ہو رہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک نا کے برابر تھا۔ اس وقت وہ عورت اس کے لئے مسافر کی بجائے ایک ضرورت مند انسان تھی جسے مدد کی ضرورت تھی۔ اور وہ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ ’’ چلئے بیٹھیے میڈم جی۔ کہاں جانا ہے؟ کچھ دیر بعد آٹو بھی نہیں ملےگا آپ کو۔ ‘‘ 
 اندھیرے میں کھڑی اس عورت کی جانب بغور دیکھتے ہوئے اس نے آگاہ کرنے والے انداز میں کہا۔ اس عورت نے کچھ دیر سوچااور پھر ایک ہاتھ میں موجودفولڈنگ چھڑی کو کھینچ کر زمین پر ٹیکتے ہوئےفٹ پاتھ سے اتر کر آٹو کی طرف بڑھی۔ اب تک وہ سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ وہ عورت صرف اپنی چھٹی حس کی بنیاد پر اس سے مخاطب تھی۔ وہ آٹو سے باہر آیا۔ ’’آئیے اس طرف ‘‘عورت نے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا۔ عورت کا ہاتھ تھام کر اسے آٹو کے پاس لے گیا۔ ہاتھوں کا لمس اور اس کے جسم سے آرہی خوشبو، ایک لمحے کے لئے اپنے دل میں اس نے عجب سی ہلچل محسوس کی۔ عورت پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ عورت کی منزل تقریباً تین کلومیٹر تھی۔ اس نے میٹر ڈاؤن کیا اور آٹو آگے بڑھا دی۔ عام طور پر وہ اپنے گاہک سے بلا ضرورت بات کرنے کا عادی نہیں تھالیکن عورت کمفرٹ محسوس کرے ا س لئے اس نے پوچھ لیا۔ 
’’ میڈم اتنی رات گئے اس خراب موسم میں آپ اکیلے کیوں نکل گئیں ؟‘‘

یہ بھی پڑھئے:اہل ِاُردو کو اِس کا احساس نہیں کہ وہ کیا کھو کر کیا پارہے ہیں !

’’ میں ڈانس ٹیچر ہوں ۔ آج سہ پہر تین بجے جب میں کلاسیس کے لئے نکل رہی تھی تو ماں نے منع بھی کیا کہ موسم خراب ہے نہ جاؤ۔ ‘‘بات کرتےہوئے اس نے آئینے میں دیکھا کہ عورت چہرے سے اسکارف نکال کر اس سے سر کے بال اور چہرہ پونچھ رہی تھی۔ اندھیرے میں اس کا چہرہ سنگ مر مر کی مورت نظر آرہا تھا۔ جسے اب تک وہ عورت سمجھ رہا تھا وہ ایک ایسی کلی تھی جسے پھول بننے میں اب بھی کچھ موسموں کے رنگ دیکھنے تھے۔ بڑی چمکدار آنکھوں کو دیکھ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ روشنی سے عاری ہیں۔ ’’ مجھے ممی کی بات مان لینی چاہئے تھی۔ ‘‘اپنا دوپٹہ صراحی دار گردن پر پھیرتے ہوئے اس نے کہا۔ اس نے آئینے سے نظریں ہٹا لی۔ ’’بھیا ہو سکے تو تیز چلئے۔ کافی دیر ہوچکی ہے۔ ممی پریشان ہو رہی ہوگی۔ ‘‘
 اس نے دوبارہ آئینے میں دیکھا۔ گہرے رنگ کے لباس میں اس کا دودھیا بدن، گویا کالے بادلوں سےچاند جھانک رہا ہو۔ اس نے پلٹ کر لڑکی کی طرف دیکھا۔ کپڑے بھیگ کر اس کے بدن سے اس قدر چپک گئے تھے کہ اس کے نشیب و فراز عیاں ہو رہے تھے۔ لڑکی اپنی گردن کے پچھلے حصے کو دوپٹے سے خشک کرنے لگی۔ اس نے آٹو کی رفتار تیز کردی۔ اس کے دل کی دھڑکن آٹو کی تیز رفتار کو بھی مات دے رہی تھی۔ اسے اپنے کانوں سے گرم بھاپ نکلتی محسوس ہوئی۔ پھر اس کا پورا جسم گویا تپنے لگا۔ اس نے زندگی میں کبھی شراب نہیں پی تھی۔ نہیں جانتا تھا نشہ کیا ہوتا ہے۔ مگر اس وقت وہ مدہوش ہواجا رہا تھا۔ ایسی مدہوشی جو اس کی تشنگی بڑھائے جا رہی تھی۔ 
  اب اس نے آٹو کی رفتار کچھ دھیمی کر دی۔ دوبارہ پلٹ کردیکھا۔ لڑکی آنے والے طوفان سے بے خبر تھی۔ پرس کھول کر اس میں انگلیوں کے ذریعے کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اس کی نظریں لڑکی کے چہرے، گردن سے ہوتے ہوئے سینے پر آکر ٹھہر گئی۔ وہ بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتا۔ اس کی نظریں لڑکی کے بدن سے کھیلتی رہی۔ آٹو دھیمی رفتار سے سڑک پر جمع پانی کو چیرتی آگے بڑھی جا رہی تھی۔ اس کے دل و دماغ پر درندہ حاوی ہو چکا تھا۔ باز اپنے پنجوں کو پھیلائے معصوم پرندے پر جھپٹنے کے لئے تیار تھا۔ اس نے آٹو دائیں جانب سنسان راستے پر موڑ دی۔ انسانی آبادی سے دور یہ راستہ ایم آئی ڈی سی سے ہو کر گزرتا تھا۔ 
’’ آپ کے موبائیل میں نیٹورک آرہا ہے کیا؟ کافی دیر سے ٹرائی کر رہی ہوں ۔ ممی کو فون نہیں لگ رہا ہے۔ ‘‘’’ ہمارے پاس موبائیل نہیں ہے۔ ‘‘ اسے اپنی ہی آواز اجنبی سی محسوس ہوئی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے آٹو روڈ کے کنارے اتار کر روک دی۔ ’’کیا ہوا بھیا؟‘‘کوئی جواب دیے بغیر وہ آٹو سے نیچے اتر آیا۔ دونوں جانب نظر دوڑائی۔ دور تک کوئی گاڑی آتی جاتی نظر نہیں آرہی تھی۔ اور کوئی گاڑی وہاں سے گزرتی بھی تو آٹو ایسی جگہ کھڑی کی کہ کسی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔ بارش تھم چکی تھی۔ ایک پل کو بجلی کی روشنی ہوتی اور پھر اندھیرا چھا جاتا۔ وہ بڑی آسانی سے اپنے شکار پر قابو پا سکتا تھا۔ ’’بھیا کیا ہوا آٹو کیوں روک دی؟‘‘’’ٹائر پنکچر ہوگیا ہے۔ ‘‘ آواز کی لرزش پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ بولا۔ 
 اس کا شیطانی دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ اپنے شکار کی طرف بڑھا۔ تڑاک کی آواز سے بجلی چمکی۔ وہ پیچھے ہٹا۔ اس کا سر گھومنے لگا۔ نیچے بیٹھ گیا۔ قریب پتھر پڑا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ سے پتھر اٹھایا۔ بایاں ہاتھ زمین پر رکھا۔ پنجہ پھیلایا۔ درمیانی انگلی پر پتھر سے اس شدت سے وار کیا کہ انگلی بہت زیادہ زخمی تو نہیں ہوئی مگر چوٹ کے احساس سے دماغ سنّا گیا۔ 
  تنگ گلی کے کونے پر آٹو پارک کر کے گلی سے گزرتے ہوئے وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا۔ رک کر اپنی سانسیں درست کیں۔ ’’کون؟‘‘دراوازہ تھپتھپانے کی آواز سن کر معمول کے مطابق پربھا نے پوچھا۔ ’’ہم ہیں ۔ ‘‘ ’’کپڑے بدل کر کھانا کھا لیجئے۔ ‘‘پربھا نے رومال دیتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’ نہیں ہمیں بھوک نہیں ہے۔ ‘‘کپڑے بدلنے کے بعد اس نے چار پائی پر نظر ڈالی۔ نیہا گہری نیند سو رہی تھی۔ چراغ کی مدھم سرخ روشنی میں اس کا چہرا چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ وہ چار پائی کے قریب گیا۔ نیہا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ سر کو سہلایا۔ ’’ کل جا کر بٹیا کا کالج میں داخلہ کروا دیتے ہیں۔ ‘‘پربھا کی جانب دیکھ کر اس نے کہا۔ پربھا کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے جذبات صاف ابھر آئے۔ زمین پر لگے بستر پر پربھا کے برابر لیٹ کر اس کی آنکھوں میں ٹکٹکی باندھے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ’’ کیا ہوا ؟‘‘’’کچھ نہیں ۔ ‘‘’سو جائیے صبح نیہا کے داخلے کے لئے کالج بھی جانا ہے۔ ‘‘کہتے ہوئے پربھا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ ہی پلوں میں وہ گہری نیند سو گیا۔ اس کا چہرہ پرسکون نظر آرہا تھا جیسے کوئی معصوم بچہ لوری سن کر پریوں کی دنیا کی سیر پر نکل گیا ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK