• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : بٹوارا

Updated: October 03, 2024, 2:05 PM IST | Khan Umira Irfan | Mumbai

’’مجھے.... مجھے سب یاد ہے کہ کیسے آپ فجر کے وقت کام کیلئے نکلا کرتے تھے اور عشا کے بعد کہیں آپ کا چہرہ نظر آتا تھا....‘‘ ذہن کے دریچے پر رات کی مدھم روشنی میں گندمی رنگت والے ایک وجیہہ شخص کا چہرہ گھوم گیا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

سورج کی نرم و ملائم کرنوں نے زمین کے اس خطے کا رخ کیا جہاں کے گھروں کے ساتھ مکینوں کے دماغ پر بھی تاریکی نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ آسمان صاف تھا لیکن دلوں پر تنفر کے بادل گھرے ہوئے تھے۔ پچھلے ساڑھے چھ برسوں سے یہ کوٹھی پورے گاؤں میں اپنی شان سے کھڑی تھی لیکن عداوت کی ایک ضرب نے اس کے سارے پائے ہلا کر رکھ دیئے تھے۔
 یہ کوٹھی کے پچھلے حصہ کا کمرہ تھا۔ دیواروں پر یقیناً پیلا رنگ لگایا گیا ہوگا جو اب زمانے کی دھول سے مٹیالا ہوگیا تھا۔ دروازے کی دائیں جانب والی دیوار کے قریب دو عدد چار پائیاں ایک سیدھ میں لگی تھیں۔ سامنے والی دیوار پر ایک درمیانی جسامت کی کھڑکی تھی۔ الماری کے نام پر ایک خستہ حال کباٹ، ساتھ ہی پانی کا ایک مٹکا اور بس! اتنی بڑی کوٹھی کی مالکن کے کمرے میں موجود اتنی عالیشان چیزوں کو دیکھ کر آنکھیں شرمندہ ہو گئیں۔
 ’’رو رو کر آنکھیں سوجھ گئی ہیں امی۔ اب بس بھی کیجئے۔‘‘ فریدہ منہ لپیٹے پڑی رہی۔ جواب دینے کیلئے کچھ رہا ہی نہیں۔
 ’’امی اٹھ جائیے نا! میں بھی تو پریشان ہوں۔ صبح سے ایک نوالہ نہیں کھایا۔‘‘
 اس نے لاڈ سے سمجھانا چاہا۔ دوپہر کے ۲؍ بج گئے اور اماں اب تک بھوکی تھیں۔ باہر دیوار پر لگنے والے ہتھوڑے دل میں توڑ پھوڑ کر رہے تھے۔ صبح سے گھر میں مزدوروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ دھول مٹی سے گھٹن بڑھنے لگی۔ بارہا دل یہاں سے دور بھاگنے کی خواہش کر رہا تھا لیکن راہ فرار کوئی نہ تھی۔
 ’’پیاری امی! یہ دوائی لیجئے، سر درد میں افاقہ ہوگا۔ میں ناشتہ لاتی ہوں۔‘‘ اس نے ملائم ہاتھوں سے سر پر ہاتھ پھیرا تو چونک گئی۔ چہرے سے فوراً سفید رنگ کا دوپٹہ ہٹا کر دوبارہ پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ یہاں تو تپش سے سر دہک رہا تھا۔ سفید لباس میں پورا جسم بخار میں تپ رہا تھا۔ ڈر سے اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ الٹے پاؤں باورچی خانے کی طرف پلٹی۔ برتن میں پانی اور سفید رومال لے کر پانچ منٹ بعد وہ وہیں موجود تھی۔
 ’’اماں... اماں.... اٹھئے، یہ دوائی لیجئے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: افسانہ : خوابوں کی پرواز

فریدہ کے سرہانے جگہ بنا کر وہ بیٹھ گئی اور اس کا سر اپنے زانوں پر رکھ لیا۔ ہلا کر دوا کھلانی چاہی مگر فریدہ اپنے ہوش میں نہیں تھی۔ اس نے بمشکل دو گولیاں پیس کر فریدہ کے منہ میں ڈالیں۔
 بے بسی سی بے بسی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ بھائیوں کو کہے کہ امی کو اسپتال لے جائے مگر احساسات کی قبر پر امید کے چراغ روشن نہیں کئے جاتے۔ اس نے تو وہم و گمان میں بھی ایسا نہیں سوچا تھا۔ اس گھر میں قدم رکھتے وقت سب کتنے خوش تھے۔ اماں کی سج دھج ہی نرالی تھی اور ابا، وہ تو اس شان سے ایک ایک کمرہ دکھا رہے تھے کہ دل صدقے واری جا رہا تھا۔ وہ تین بھائی بہن تھے۔ امجد بھیا اور ان کی بیوی زاہدہ بھابھی سے سعد اور سعید کے ساتھ شرارت کرنے پر کتنی ڈانٹ پڑتی تھی۔ اسجد بھیا کی بیوی حفصہ بھابھی نے تو شادی کے دن ہی سے آس پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ ابا کی زندگی میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ ان کی لاڈلی بیٹی سے کوئی اونچی آواز میں بھی بات کرسکتا ہو، مگر جدائی سب چھین کر لے گئی!
 ’’امجد.... امجد کے ابا اچھا ہوا آپ آگئے۔ میں آپ کو بہت یاد کر رہی تھی!‘‘ ٹوٹے مدھم اور بکھرے الفاظ ہوا میں بکھرے۔
 ’’آپ کہاں رہ گئے تھے....‘‘ اماں کے منہ سے ابا کا ذکر سن کر وہ چونک پڑی۔ ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ ہوش میں نہیں تھیں۔اس کا وہم ان کی حقیقت بن چکا تھا۔
 ’’امجد کے ابا آپ کو دیکھنے کیلئے آنکھیں ترس گئی تھیں۔‘‘ آواز بہت دھیمی تھی، اتنی دھیمی کے سننے کیلئے کان آگے کرنے پڑے۔ آنکھ سے بہتے آنسوؤں کی قطاریں بہت تیز ہوگئیں۔ اماں بہت کم بیمار ہوتی تھیں۔ اور اس قدر بخار میں تو انہیں شاید اس نے اپنی بیس سالہ زندگی میں پہلی بار دیکھا ہو۔ بچپن میں ابا سے سنا تھا کہ بخار جب اماں کے سر چڑھ جائے تو وہ بڑبڑانا شروع کر دیتی ہیں۔ شاید یہی سلسلہ اب شروع ہوچکا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے سر دبانے لگی۔
 اماں ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھیں۔ بات مکمل کرنے سے پہلے ہی ادھوری رہ جاتی تھی۔
 ’’امجد کے ابا بس کر دیں.... سر نہیں دبائیے.... آپ سے کتنی دفعہ کہا ہے.... کہ مجھے آپ سے خدمت کروانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘
 اتنی تکلیف میں بھی اس پیار بھرے لہجے کو سن کر وہ بے اختیار بول اٹھی، ’’پھر کیا اچھا لگتا ہے؟‘‘ ’’آپ سے باتیں کرنا۔ آپ کی باتیں سننا اور کیا!‘‘ لہجہ نقاہت میں ڈوبا ہوا تھا۔
 ’’ٹھیک ہے پھر آج تم سناؤ میں سن رہا ہوں۔‘‘ اماں کا دل بہلانے کے لئے اس نے کہا۔ اماں کو اس طرح تڑپتے ہوئے وہ دوسری دفعہ دیکھ رہی تھی۔ پہلی دفعہ ابا کی وفات پر دیکھا تھا۔
 ’’کیا سناؤں آپ کو؟ کچھ بھی نہیں بچا.... ہمارا گھر اب گھر نہیں رہا.... میرے امجد اسجد میرے نہیں رہے۔ سب ختم ہوگیا....‘‘ الفاظ نشتر کا کام کر رہے تھے۔ حقیقت سامنے تھی لیکن وہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔ جیسے ایک پل میں یہ طلسم ٹوٹے گا اور سارا منظر بدل جائے گا۔ اس نے خاموشی سے پانی بدل کر ٹھندی پٹی رکھی۔
 ’’مجھے.... مجھے سب یاد ہے کہ کیسے آپ فجر کے وقت کام کیلئے نکلا کرتے تھے اور عشا بعد ہی  آپ کا چہرہ نظر آتا تھا....‘‘ ذہن کے دریچے پر رات کی مدھم روشنی میں گندمی رنگت والے ایک وجیہہ شخص کا چہرہ گھوم گیا۔ دن بھر کی تھکن سے چور، سرخ آنکھیں اور پسینے میں ڈوبی پریشاں زلفیں جسے وہ کبھی بھلا نہ سکے گی۔ وہ دوبارہ آہستہ آہستہ کہنے لگیں، ’’آپ کو یاد ہے میں تو آپ کا چہرہ دیکھنے بھی ترس جاتی تھی۔ آپ کا چہرہ دن کی روشنی میں کم ہی دیکھنا نصیب ہوتا تھا۔‘‘
 کمرے کی ہر شے پر سوگواری طاری تھی۔
 ’’ہمارا گھر کتنا چھوٹا تھا! جس میں ہم چاروں کے علاوہ کوئی پانچواں پاؤں بھی نہیں پھیلا سکتا....‘‘
 آنسوؤں کی ڈور میں اسکے لب مسکرا اٹھے۔
 ’’ہم کر بھی کیا سکتے تھے؟ کم عمری میں شادی ہوگئی۔ نہ آپ کا کوئی ذاتی کاروبار تھا نہ ہی میں کسی چیز کے قابل۔‘‘ عارفہ نے دھیرے سے سر تکیے پر رکھ کر وہاں سے تھوڑا ہٹنا چاہا تو اماں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ابھی مت جائیے۔‘‘ اماں کی آنکھیں اب بھی بند تھیں! اتنی بےقراری دیکھ کر وہ ہاتھ چھڑا نہ سکی۔ ’’یہیں ہوں۔‘‘ کہنے کو کچھ باقی کہاں تھا۔
 ’’ہماری شادی کے ابتدائی چھ سال کتنے مشکل سے گزرے تھے.... وہ تو بھلا ہو سفیر بھائی کا جس نے آپ کو شہر کا راستہ دکھایا ورنہ ہم اُس چھوٹے سے جھوپڑے میں رہتے رہتے ایک دن مر ہی جاتے....‘‘
 حاصل اور لاحاصل کی جنگ میں اس کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔
 ’’شروع شروع میں اکیلے بڑا ڈر لگتا تھا.... مجھے تو لگا تھا ایک بار اگر آپ شہر چلے گئے تو پھر کبھی نہیں آئیں گے.... آپ کے جانے کے بعد میں بہت روئی تھی لیکن اکیلے میں....‘‘ وہ جملہ ادھورا چھوڑ چکی تھیں۔ اماں آج زندگی کے سارے ورق پڑھنے کا تہیہ کر چکی تھیں۔ کئی بار سوچا کہ چپ کروانا چاہئے لیکن روکنے کی ہمت دم توڑ چکی تھی۔ دھیرے سے ہاتھ چھڑا کر اس نے اٹھ کر کھڑکی کے پردے درست کئے۔ اور مٹکے کے پاس رکھی پلیٹ لئے اماں کے قریب بیٹھ گئی۔ منمناہٹ اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ اس نے دل پر جبر کرکے ابھی پہلا نوالہ توڑا ہی تھا کہ اماں کی آواز کمرے میں دوبارہ ابھرنے لگی، ’’آپ کے بغیر پرانا گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا.... جب جب کھانے بیٹھوں تو آپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا.... ایک ایک نوالہ گلے میں پھنسنے لگتا۔ آپ بہت یاد آتے تھے۔‘‘ اماں کی سسکیوں کو سن کر اس کے ہاتھ کا نوالہ منہ میں جانے سے پہلے ہی رک گیا۔ بے دلی سے اس نے پلیٹ قریب ہی رکھ دی۔ دل ابا کی یاد میں آبدیدہ ہوگیا۔
 ’’پہلے پہل بڑا ڈر لگتا تھا۔ مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب آپ کے دوست نے پہلی کمائی اور خط دے کر کہا کہ آپ نے بھجوائی ہے تو.... دل میں سکون اتر آیا... ایسا لگا کہ ہم جیت گئے...‘‘ ’’سب عجیب عجیب باتیں کرتے تھے۔ سب کی باتیں سن کر یہ ڈر بڑھنے لگتا تھا.... پھر بھی مجھے یقین تھا کہ امجد کے ابا سب کچھ کرسکتے ہیں.... مگر.... مگر مجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ کبھی بھی نہیں....‘‘ سانسیں اٹک رہی تھیں۔ ’’ہم دونوں نے بچوں کی خاطر اپنی زندگی کے سنہرے سال گنوا دیئے... اپنا سب کچھ قربان کر دیا.... آپ کو یاد ہے نا؟‘‘ 

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: ’’جنہیں راستے میں خبر ہوئی....‘‘

یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ابا سامنے ہیں اور اماں ان سے محو گفتگو ہیں۔
 ’’آپ نے کہا تھا ہم ایک بڑی سی کوٹھی بنائینگے جس میں پورے دس کمرے ہوں گے.... اب اس کوٹھی کو دیکھتی ہوں.... تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے....‘‘ اماں کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔ ’’جس کوٹھی کے خاطر ہم نے اپنا سکون، چین، آرام سب کچھ لٹا دیا.... آج اس کے ہوتے ہوئے بھی ہم خالی ہاتھ ہیں....‘‘ اماں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ دو گھنٹے گزر گئے تھے۔ گھڑی کی سوئی چار کا ہندسہ دکھا رہی تھی۔ اماں کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور ان کی بڑبڑانے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔ باہر سے آنے والی آوازیں اب کم ہونے لگیں۔ شاید کام ختم ہونے کا وقت تھا۔
 ’’اب بس کر دیجئے اماں۔ اللہ کے واسطے چپ ہوجائیے۔‘‘ بخار تھوڑا کم ہوا تھا لیکن آدھے گھنٹے میں پھر تیز ہوگیا۔ وہ اب چوتھی دفعہ پانی بدل کر لوٹی تھی۔ ٹھنڈی پٹی کو گرم ہونے میں چند سیکنڈز لگ رہے تھے۔ 
 ’’آج کہہ لینے دیجئے امجد کے ابا! اگر آج آپ سے نہ بولوں گی تو دل پھٹ جائے گا....‘‘
 اپنے اوپر موجود چادر کو درست کرتے ہوئے وہ دائیں کروٹ پلٹ گئیں۔ عارفہ کی جانب پشت تھی۔ ’’عارفہ میری کہی باتوں کو دل پر لے لیتی ہے اس لئے اسے بول نہیں پاتی.... امجد کے ابا کوٹھی تو بن گئی لیکن مکینوں کے رشتے مضبوط نہیں ہوسکے.... امجد اور زاہدہ کی شادی میں ہم کتنے خوش تھے نا! بڑے چاؤ سے تو بیاہ کر لائے تھے.... اور اسجد کی دفعہ بھی یہی سوچا تھا کہ خاندان کی بہوئیں ہوں گی تو گھر جوڑے رکھیں گی.... گھر جڑا تو نہیں ہاں ٹوٹ ضرور گیا....‘‘
 جملے بے ربط تھے، آنسو آج تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ وہ بس بولے جا رہی تھیں اور روئے جا رہی تھیں۔ ’’امجد کے ابا گھر بن تو گیا لیکن بس نہ سکا.... آپ تو چلے گئے، میں اکیلے رہ گئی.... دیکھئے نا امجد اور اسجد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں....‘‘
 دلوں کے فاصلے مٹانے کے بدلے دونوں نے گھر کے درمیان میں چھ فٹ کی دیوار کھڑی کر دی ہے.... اس ایک دیوار نے سب کچھ بانٹ دیا امجد کے ابا.... سب کچھ....‘‘
 اماں خاموش ہوگئیں۔ وقت تیزی سے بڑھ رہا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے شام ہوگئی۔ اماں کو اٹھا کر اس نے زبردستی ایک گلاس دودھ پلایا۔ بخار بھی تھوڑا کم لگ رہا تھا۔ اس نے کھڑکی کے پردے گرا دیئے اور اماں کی چادر درست کرکے بوجھل دل لئے باہر آگئی۔ گھر خالی تھا۔ مزدور جا چکے تھے۔ کل ہی بھائیوں نے کہہ دیا تھا کہ بھابھی اور بچے دیوار بننے کے بعد آئیں گے۔ سامنے کھڑی دیوار کی لال اینٹیں اسے خون کے دھبے لگ رہے تھے۔ اسی دیوار نے اس کی اماں کے ارمانوں کا خون کیا تھا۔ عمر بھر کی ریاضت، محنت، مشقت سب رائیگاں ٹھہری۔ جس گھر کی زمین کو ابا نے اپنے خون پسینے سے سینچا تھا آج وہی زمین ان کی بیوی کے پیر کے نیچے سے کھینچ لی گئی۔ یعنی ساری زندگی کی محنت اکارت؟
 وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر بے سکونی جھلک رہی تھی۔ آنکھوں کے حلقوں کا رنگ گہرا ہونے لگا تھا۔ ناک پر ہلکی لالی پھیلی تھی اور ہونٹوں پر ایک بے معنی مسکراہٹ۔ اس نے دھیرے سے لال اینٹوں والی دیوار پر ہاتھ پھیرا۔
 ’’کیا یہ بےجان اینٹوں سے بنی دیواریں، سانس لیتے احساسات کا بھی بٹوارہ کر سکتی ہیں؟‘‘
 وہ بوجھل قدموں سے پلٹ کر جا چکی تھی لیکن دیوار اپنی جگہ جامد کھڑی تھی!
(افسانہ نگار ایم اے (سال اوّل)، مہاراشٹر کالج، ممبئی کی طالبہ ہیں۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK