• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : ہم سفر

Updated: August 08, 2024, 2:18 PM IST | Tarannum Romani | Mumbai

شام کے دھندلکے سائے منڈلانے لگے تھے۔ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا اور سمسٹر کا بھی۔ چھ بجے ہی کافی اندھیرا ہوچکا تھا۔ اقراء اور اس کا گروپ کالج گراؤنڈ میں بیٹھے گپے لڑا رہے تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

شام کے دھندلکے سائے منڈلانے لگے تھے۔ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا اور سمسٹر کا بھی۔ چھ بجے ہی کافی اندھیرا ہوچکا تھا۔ اقراء اور اس کا گروپ کالج گراؤنڈ میں بیٹھے گپے لڑا رہے تھے۔ ان کے تمام اسائمنٹ جمع ہوچکے تھے۔ ان لوگوں کا یہ لاء کالج کا آخری سال تھا۔ دو مہینے بعد امتحان اور پھر ۶؍ مہینے کی انٹرن شپ اور پھر باقاعدہ پریکٹس.... وکیل میں ان سب کا شمار ہوگا۔ اقراء اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی ایک چھوٹا بھائی، کافی چھوٹا تقریباً دس برس چھوٹا تھا۔ دونوں بچے والدین کے لاڈلے تھے۔ اقراء خوبصورت، ذہین اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ اپنے والدین کی فرمانبردار تھی اس لئے جب دو مہینے پہلے اس کے والد کے دوست کے بیٹے کا رشتہ آیا تو والدین کی رضا مندی دیکھ اس نے بھی ’ہاں‘ کر دی اور ایک چھوٹی سی منگنی کی رسم ہوگئی۔ امتحانات کے فوراً بعد شادی بھی تھی اس لئے اقراء اور اس کا گروپ امتحان کے بعد اقراء کی شادی کی تیاریوں اور دیگر سارے پروگرام کے متعلق ہی باتیں کر رہے تھے۔ تھوڑی سی شاپنگ ابھی کرکے رکھنی ہوگی پھر بعد میں زیادہ وقت نہیں ملے گا۔ اپنی خوش گپیوں ہی مشغول تھے کہ اچانک ایک بڑی سی گاڑی کا لج کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئی اور سب کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ گاڑی میں سے ایک ہینڈسم نوجوان اترا جو سب کی توجہ کا مرکز بنا۔ چپراسی دوڑتا ہوا آیا۔ نوجوان کو سلام کیا اور انہیں اندر پرنسپل کے آفس کی طرف لے گیا۔ باہر سارے طلباء و طالبات کے تجسس میں اضافہ کر گیا کہ یہ کون ہے؟ کچھ دیر بعد چپراسی اقراء اور دیگر تین فرسٹ کلاس طالبات کو بلانے آیا کہ ٹرسٹی سر آپ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ چاروں اسٹوڈنٹ پرنسپل سر کے آفس میں گئے اور دیکھا کہ وہی نوجوان بیٹھا ہے۔ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔ پرنسپل سر نے اس نوجوان کا تعارف بحیثیت ٹرسٹی کرایا۔ یہ نوجوان شرجیل خان شہر کے معزز وکیل اور ایک بہت بڑی لاء فرم کے مالک ہیں۔ ان کے والد اعظم خان اس لاء کالج کے بانی تھے اور وہ بھی شہر کے نامور وکلاء میں شمار کئے جاتے تھے۔ اُن کے انتقال کے بعد اب ان کی ساری ذمہ داریاں ان کا بیٹا نبھا رہا ہے۔ شرجیل خود بھی پانچ سال اس کالج کے پاس آوٹ ٹاپر رہے ہیں۔ اور بہت جلد انہوں نے لاء کی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔
 اس میٹنگ میں شرجیل اپنے سامنے کھڑی اس فرسٹ کلاس اسٹوڈنٹ اقراء میں کھو گیا۔ دیگر اسٹوڈنٹس سے باتیں کرتے ہوئے بھی اس کا پورا دھیان اقراء پر ہی تھا۔ اس نے چاروں کو کالج کے بعد اپنی فرم میں انٹرن شپ آفر کی یہ بھی کہا کہ کالج کو اُن چاروں سے کافی امیدیں ہیں۔ تب ہی اقراء نے بتایا کہ وہ امتحانات کے فوراً بعد انٹرن شپ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اس کی شادی طے ہوچکی ہے۔ نہ جانے یہ جان کر شرجیل کچھ اپ سیٹ ہوگیا اور وہ خود بھی اپنے اس احساس سے پریشان ہوگیا۔ بس ابھی کچھ دیر پہلے تو اسے دیکھا اور ملا۔ اور اب وہ اس کی شادی کی خبر سن کر پریشان ہوگیا۔ یہ کیسی کیفیت ہے وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: منی آرڈر

کچھ دنوں بعد ایک دن شرجیل اپنے دفتر میں بیٹھا تھا تب دو لوگ خالد شیخ اور اویس شیخ باپ بیٹے شرجیل کے پاس آئے تھے۔ ان کے پاس ایک کوٹھی اور ایک فلیٹ کے کاغذات تھے جو کسی عظمت خان کے نام پر تھے اور وہ لوگ اس کے پاس اس پراپرٹی کو ففٹی ففٹی اپنے اور اپنی ہونے والی بیوی اقراء عظمت خان کے نام کرانے کا طریقہ پوچھنے آئے تھے۔ اقراء کا نام سنتے ہی شرجیل چوکنا ہوگیا اور باتوں ہی باتوں میں ساری معلومات حاصل کرکے اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ وہی اقراء ہے جسے وہ کالج میں ملا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی جان گیا کہ اویس ہی اقراء کا منگیتر ہے اسے وہ ایک بڑا فراڈ اور لالچی قسم کا انسان لگا۔ اُس نے کچھ وقت مانگا تاکہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرے یہ سوچنے کا موقع ملے گا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا اُسے یہ کیا کرنا چاہئے؟ کیا یہ سب باتیں اقراء کو یا اس کے والد کو بتانی چاہئے؟ مگر وہ اس پر بھروسہ کیوں کریں گے؟ اسی کشمکش میں دو تین گزر گئے آخرکار وہ عظمت خان سے ملنے چلا گیا۔ پہلے تو اُس نے ایک وکیل کی طرح ان سے بات کی لیکن جلد ہی اُسے اندازہ ہوگیا کہ وہ بہت پریشان ہے اور کسی مشکل یا مجبوری کے تحت کر رہے ہیں۔ پھر اُس نے ان سے کھل کر بات کی اپنے شک کا اظہار کیا، ان کی پریشانی جاننی چاہی اور مدد کرنے کا اشارہ بھی دیا۔ تب عظمت خان نے بتایا کہ ایک بزنس میٹنگ میں خالد شیخ سے ملاقات ہوئی تھی انہوں نے خود کو ایک ماہر اور کامیاب بزنس مین کی طرح پیش کیا۔ باپ بیٹے نے مکمل پلاننگ کے ساتھ عظمت خان کو دو چار ملاقاتوں میں کافی متاثر کیا آہستہ آہستہ دوستی کر لی۔ ایک دن عظمت خان نے انہیں اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا جہاں وہ دونوں ان کے بیوی بچوں سے ملے۔ دونوں نے اتنی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا کہ عظمت خان کی پوری فیملی ان دونوں سے بے حد متاثر ہوئی۔ اگلی دو چار ملاقاتوں کے بعد ہی انہوں نے عظمت خان سے اقراء کا رشتہ مانگا سب اُن سے متاثر تھے جلد ہی دونوں کی منگنی ہوگئی اور یہ طے پایا کہ اقراء کے امتحان کے بعد شادی کر دی جائے گی۔ منگنی کے بعد کچھ وقت سکون سے گزرا پھر دونوں باپ بیٹوں نے اپنا ڈرامہ شروع کیا کہ بزنس میں نقصان کا ہورہا ہے مدد کی اپیل کی لون کے لئے گیارنٹی کے طور پر عظمت خان کی کوٹھی اور فلیٹ کے پیپر لئے تاکہ اپنی ہونے والی بیوی اور اپنے نام پر پراپرٹی ہے یہ دکھا کر بینک میں گروی رکھ کر لون لینے کی بات کی اور اب شادی میں بھی جلد بازی کر رہے تھے۔ ان تمام مسائل سے عظمت خان بےحد پریشان ہورہے تھے یہ تمام باتیں ابھی تک انہوں نے اپنی فیملی سے شیئر نہیں کی تھی وہ اپنی بیٹی کی منگنی کر چکے تھے پراپرٹی کے کاغذات دے چکے تھے سیدھے سادے شریف النفس انسان تھے۔ مگر اب وہ محسوس کر رہے تھے کہ اُن سے اِن لوگوں کو پہچاننے میں بڑی بھاری قسم کی غلطی ہوگئی ہے۔ کیا کریں؟ کس طرح خود کو اور اپنی بیٹی کو اس مصیبت سے بچائیں ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ایسے میں شرجیل کا ان سے ملنا انہیں اللہ کی طرف سے آئی ہوئی مدد ہی لگ رہی تھی انہوں نے سارا ماجرا شرجیل کو بے تکلف ہو کر تفصیل سے بتایا۔ شرجیل نے باپ بیٹے کی ساری تفصیلات پتہ کروائی تو پتہ چلا کہ یہ دونوں باپ بیٹے شادی کا جھانسہ دے کر پراپرٹی ہڑپ لیتے ہیں مگر اس مرتبہ وہ صرف پراپرٹی نہیں اقراء کو بھی پھانسنے کے چکر میں تھے۔ عظمت خان کے اچھے خاصے کپڑوں کے بزنس پر ان کی نظر تھی۔ شرجیل نے پتہ کروایا تو ان کے دوسرے شہروں میں بھی پولیس ریکارڈ ملے۔ شرجیل نے ان تمام حقیقتوں سے عظمت خان کو آگاہ کیا اور انہوں نے بتایا کہ وہ پرانے کیسیز کے حوالے سے دونوں باپ بیٹوں کے خلاف کورٹ میں کیس فائل کررہا ہے جلد ہی اُن دونوں کا اریسٹ وارنٹ نکال لے گا۔ ادھر شادی کا دن بھی آگیا۔ ابھی تک شرجیل کی طرف سے کوئی ہلچل نہیں ہوئی تھی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ عظمت خان بہت پریشان تھے ان کی بیٹی کی زندگی ان کی ایک غلطی کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ آخر کار قدرت مہربان ہوئی عین نکاح سے کچھ وقت پہلے ہی شرجیل کورٹ سے غیر ضمانتی وارنٹ اور پولیس کے ساتھ آگئے۔ دونوں باپ بیٹے گرفتار ہوئے۔ ایک طرف راحت تو تھی لیکن شادی کے ماحول میں ناخوشگواری کی فضا پھیل چکی تھی۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کا یوں ٹوٹ جانا کم روح فرسا نہیں تھا۔ تب شرجیل نے عظمت خان سے کہا کہ، ’’انکل اگر آپ مجھے غلط نہ سمجھیں اور اقراء کی مرضی بھی ہو تو میں اقراء سے آج اسی محفل میں نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میری طرف سے ویسے بھی کوئی بزرگ نہیں ہے لیکن پرنسپل صاحب اور اقراء کے کالج کے بہت سارے اساتذہ مجھے جانتے ہیں۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اقراء کا بہت خیال رکھوں گا۔ آپ کو میرے حق میں، فیصلہ کرکے کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔‘‘ تب ہی پر نسپل سر اور دیگر اساتذہ نے شرجیل کی حمایت کی اور اس کی گیارنٹی بھی دی۔ خود عظمت خان بھی شرجیل کو کافی حد تک جان گئے تھے۔ لیکن بیٹی اور بیوی کی مرضی بھی جاننا ضروری تھا۔ انہوں نے اندر جاکر دونوں سے بات کی۔ اقراء کی والدہ نے تو باہر کی ساری سیچویشن دیکھی تھی شرجیل اور دیگر لوگوں کی باتیں بھی سنی تھی۔ اقراء بھی باہر کی ساری سیچویشن جان چکی تھی۔ وہ اچانک اس نئی تبدیلی سے تھوڑا بوکھلائی ہوئی تھی لیکن اپنے والدین اور اساتذہ کے تجربوں کی بنیاد پر وہ.... راضی ہوگئی اور سارا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا اور اس کی مرضی سمجھ کر راضی ہوگئی۔ شرجیل اور اقراء کا نکاح ہوگیا۔ شرجیل بے حد خوش تھے۔ قدرت کی اس مہربانی اور معجزے پر حیران بھی تھے کہ اللہ نے اچانک کس طرح ان کی مراد پوری کر دی ان کا دامن خوشیوں سے بھر دیا۔ چند دنوں پہلے جب اقراء کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا تب اس سرسری ملاقات میں بھی اقراء کو دیکھ ان کا دل دھڑکا تھا اور آج اقراء ان کی ہم سفر تھی وہ قدرت کی اس عنایت پر بے حد شکر گزار تھے۔ اب وہ اس بھری دنیا میں تنہا نہیں تھے۔ من چاہا ہم سفر ساتھ اور اس کی چھوٹی سی فیملی بھی ان سے جڑ گئی تھی۔ وہ بے حد خوش تھے۔ دوسری طرف اقراء اپنی زندگی کی اس اتھل پتھل پر حیران اور خاموش تھی۔
 نکاح اور پھر رخصتی ہوئی اقراء، شرجیل اور اس کے دوستوں کے ہمراہ اپنے گھر آگئی شرجیل کا بنگلہ شہر کے پاش علاقے میں تھا۔ کافی خوبصورت تھا۔ تھوڑی دیر تک دوستوں کی محفل رہی اور پھر برخاست ہوگئی ایک دوست کی بیوی نے اسے کمرے تک پہنچایا۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : روٹھتی صدی

کمرے میں پہنچ کر اقراء نے تھوڑی سی کھل کر سانس لی۔ اپنی زندگی کے اس حیران کن مرحلے میں الجھی ہوئی تھوڑی خوفزدہ بھی تھی تھوڑی دیر پہلے جس خوفناک موڑ سے بچ کر نکلی تھی اس کا خیال بھی ابھی تک ذہن میں تھا۔ اور یہ نیا موڑ بھی بالکل انجان ہے۔ اچانک اقراء کو نیچے دوستوں کی محفل کی باتیں یاد آئیں کہ نکاح تو اس طرح جلدبازی میں ہوگیا لیکن شرجیل کی طرف سے دعوت ولیمہ کا انتظام ہونا چاہئے آخر اس کا سرکل بہت بڑا ہے، مگر شرجیل نے یہ کہہ کر منع کیا کہ ایک مہینے بعد جب اقراء کے امتحانات ختم ہوجائیں گے اس کے بعد کرلیں گے لیکن دوستوں کی بات بھی صحیح ہے کہ ایک مہینے بعد دعوت ولیمہ بے معنی لگے گی۔ یہ سب سوچتے سوچتے اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ملازمہ تھی پوچھنے آئی تھی کہ اسے کچھ چاہئے، بے اختیار اس نے سردرد کی دوا مانگ لی۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر پھر دستک ہوئی اس مرتبہ شرجیل تھے، درد کی دوا اور چائے کی ٹرے لئے ہوئے سامنے کھڑے تھے۔ اقراء ایک دم سٹپٹا گئی۔ شرجیل نے بے حد دوستانہ انداز میں سلام کیا اور ٹرے اس کے سامنے رکھ دی ٹرے میں دوا کے ساتھ دو کپ چائے کے تھے۔ اقراء کو چائے کی شدید ضرورت تھی۔ چائے پیتے وقت دونوں کے درمیان خاموشی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ شرجیل نے تمہید باندھی اور بات شروع کی، ’’اقراء میں جانتا ہوں کہ آپ کے لئے یہ سب بالکل اچانک ہوا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہیں مگر آپ بالکل بے فکر اور مطمئن رہیں ہم اس نئی زندگی کی طرف آہستہ آہستہ بڑھیں گے۔ پہلے آپ امتحانات سے فارغ ہو جائیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری درخواست قبول کی، مجھے اپنی زندگی میں قبول کیا۔ آپ جانتی ہیں پہلی مرتبہ جب میں آپ سے پرنسپل سر کے آفس میں ملا تھا تب ہی یہ خواہش میرے دل میں جاگی تھی مگر آپ کی شادی کی خبر سن کر مجھے بہت مایوسی ہوئی لیکن دیکھئے اللہ نے میرے دل کی خواہش پوری کر دی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے کسی لڑکی کے لئے ایسا محسوس کیا تھا اور آج دیکھئے آپ میرے ساتھ ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے ایک گفٹ اقراء کی طرف بڑھایا یہ کہہ کر کہ، ’’یہ گفٹ میرے والدین کی طرف سے اپنی بہو کے لئے ہے۔ میرا گفٹ آپ کو اس دن ملے گا جس دن ہمارا رشتہ دوستی سے بڑھ کر ہم سفر کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ فی الحال ہم اچھے دوست ہیں۔ کل سے آپ اپنے امتحانات کی تیاریوں میں لگ جائیے۔ آپ مجھے ایک دوست کی طرح پائیں گی۔ اور آپ کو اگر امتحان کی تیاری میں کچھ مدد چاہلئے ہوگی تب بھی بندہ حاضر ہے۔ ویسے آپ ایک بہترین اسٹوڈنٹ ہے آپ کو مدد کی کیا ہی ضرورت پڑے گی۔‘‘ شرجیل کی باتیں سن کر اقراء نے راحت کی سانس لی، وہ شرجیل کے برتاؤ سے متاثر ہوئی سوچا چلو امتحانات تو سکون سے ہوجائیں گے۔ اتنے برسوں کی محنت یوں آخری سال میں داؤ پر لگی تھی اس خیال سے وہ کافی پریشان ہوئی تھی مگر اب پرسکون تھی، فی الحال ساری توجہ امتحانات پر۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : یاد کا بوڑھا شجر

 اگلے دن اقراء صبح جلدی جاگ گئی کافی فریش محسوس کررہی تھی۔ سب سے پہلے اس نے اپنے گھر فون کیا امی ابا اور چھوٹے بھائی سے بات کی انہیں بھی اطمینان دلایا۔ وہ باتیں کر ہی رہی تھی کہ شرجیل بھی جاگ گئے۔ اطمینان سے باتیں کرتی اقراء کو دیکھ انہوں نے بھی راحت محسوس کی۔ ناشتے کی میز شرجیل تو بے حد خوش تھے، اقراء خوش نہ سہی مطمئن تھی اور یہ احساس شرجیل کی خوشی میں اضافہ کر رہا تھا۔ ناشتے کی میز پر شرجیل بہت اچھی میزبانی کر رہے تھے۔ زندگی میں آنے والے اس نئے فرد کا بے حد خیال رکھ رہے تھے۔ اس کی پسند نہ پسند جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ باتوں باتوں میں اقراء کو بتایا کہ گھر میں ایک چھوٹی سی اسٹڈی ہے جہاں اُسے بہت سی کتابیں ریفرنس کے لئے مل جائیں گی۔ لائبریری کا سن کر اقراء بے حد خوش ہوگئی۔ اچانک اقراء کو شرجیل کے دوستوں کی ولیمے والی بات یاد آئی تو اس نے شرجیل کو مخاطب کیا، ’’شرجیل آپ سے ایک بات کہنی ہے۔‘‘ اقراء کو انہیں اس طرح مخاطب کرتے سن کر شرجیل بے حد مسرور ہوئے، ’’کہئے!‘‘ ’’آپ کے دوستوں کی بات صحیح ہے۔ ایک مہینے بعد ولیمے کی دعوت بے معنی لگے گی۔ آپ کا سرکل ہے تو یہ ضروری ہے۔ آپ تیاریاں کر لیجئے میں ایک دن تو نکال ہی سکتی ہوں میری پڑھائی پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوگا آپ فکر نہ کریں۔ میرے پاس پورا ایک مہینہ ہے۔ میں اپنی پڑھائی بڑے آرام سے کرلوں گی۔‘‘ اقراء کی بات سن کر شرجیل کی دلی مراد پوری ہوئی خواہش تو ان کی بھی تھی لیکن اقراء کے امتحانات کا سوچ کر وہ کہہ نہیں پا رہے تھے۔ لیکن اب انہوں نے خوشی سے پلاننگ شروع کر دی۔ اقراء کے والد سے بات کی اور پرسوں کا دن طے کرکے ولیمے کے انتظامات کر دیئے۔ شرجیل اقراء کے لئے ولیمے کا ڈریس لینا چاہ رہے تھے انہوں نے اقراء سے پوچھا تو وہ مان گئی۔ دونوں نے ساتھ شاپنگ کی، دونوں کے لئے ڈریس اور اقراء کے لئے جیولری بھی خریدی ساتھ لنچ کیا اور ایک بہت اچھا دن دونوں نے ساتھ میں گزارا۔ ایک اچھا صحتمند ماحول دونوں کے درمیان قائم ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کمفرٹیبل ہوگئے۔ اقراء میں جھجک تھی مگر شرجیل سمجھے تھے کہ ایک ہی دن میں سب کچھ نارمل ہونا ممکن نہیں بلکہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ شرجیل کی امیدوں سے زیادہ ہی تھا۔ وہ خوشی ان کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی وہ اپنی آنے والی زندگی سے کافی پر امید تھے۔ ایک دن بعد ولیمہ بہت اچھے سے ہوا دونوں بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ اقراء کے والدین اور چھوٹا بھائی شرجیل سے بہت متاثر تھے۔ دونوں کو ڈھیروں دعائیں ملیں۔
 اگلے دن سے طے شدہ پروگرام کے تحت اقراء اپنی تیاریوں میں لگ گئی۔ وہ دل و جان سے پڑھائی کررہی تھی۔ شرجیل نے اسے بے حد خوشگوار ماحول فراہم کیا۔ ناشتہ اور ڈنر دونوں ساتھ میں کرتے۔ ایک دو ٹاپک پر اقراء نے شرجیل کی رائے بھی لی۔ گھر کی لائبریری سے اقراء کو بڑی سہولت ہوگئی۔ وہ بڑے اطمینان سے پڑھائی میں مصروف تھی۔ امتحانات کی تیاریوں کے دوران اکثر شرجیل اقراء کے آس پاس ہی ہوتے اس کا بہت خیال رکھتے اُسے بہت اچھا ماحول مہیا کیا کہ وہ سکون سے پڑھائی کرسکے اور یہ بات اقراء بہت اچھی طرح محسوس کررہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے دو دن بعد آخری پیپر تک کا وقت آپہنچا تب اچانک شرجیل کو کسی کیس کے سلسلے میں پونے جانا تھا۔ شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اقراء گھر میں اکیلی تھی۔ آج کی رات بھی اُسے اکیلے ہی گزارنی تھی اور وہ شرجیل کی کمی کو محسوس کر رہی تھی اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ کھانا کھاتے وقت، کافی پیتے وقت شرجیل کا آس پاس نہ ہونا اُسے گراں گزر رہا تھا۔ وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اب کمرے میں آنے کے بعد یہ خالی پن اسے اور بھی برا لگ رہا تھا۔ وہ شرجیل کو فون کرنا چاہتی تھی مگر جھجک رہی تھی۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ شرجیل کی کال تھی۔ اقراء نے بے حد خوشی خوشی فون اٹھایا اور ایک ہی سانس میں کیس کیسا ہوا؟ کھانا کھایا؟ واپسی کب تک ہوگی؟ سوالات کر ڈالے۔ شرجیل اقراء کی بے قراری محسوس کرکے بے حد خوش ہوئے کہ وہ انہیں مس کر رہی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ شنوائی اچھی رہی ہیں، میں ٹھیک ہوں اگلے مہینے کی تاریخ ملی ہے۔ میں کل صبح آجاؤں گا۔ تمہاری تیاری کیسی چل رہی ہے کوئی پرابلم تو نہیں ہے نا؟ بس اب آخری پرچہ رہ گیا ہے اچھے سے ہوجائے۔ اکیلے ڈر تو نہیں لگ رہا؟‘‘ ’’نہیں ڈر نہیں لگ رہا۔ اپنے گھر میں ڈر کیسا! بس تھوڑی بے چینی ہے اکیلی کبھی رہی نہیں ہوں۔‘‘ ’’تو امی کے گھر چلی جاتی۔‘‘ ’’نہیں بس ایک دن کی بات تھی، مَیں اپنا روٹین ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘ ’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ اقراء نے پوچھا، ’’آپ نے ڈنر کیا؟‘‘ ’’نہیں ابھی کروں گا، لنچ لیٹ ہوا تھا اس لئے ڈنر میں کچھ ہلکا پھلکا کھا لوں گا۔ اگر کچھ کام ہو تو بےجھجک فون کرنا کچھ پوچھنا ہو تو بھی۔‘‘ ’’جی ضرور آپ ڈنر کرلیں، خدا حافظ۔‘‘ اس کال کے بعد اقراء بہتر محسوس کر رہی تھی لیکن وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ رات تین بجے جب اقراء پڑھائی کر رہی تھی دروازے پر دستک ہوئی۔ شرجیل رات ہی لوٹ آئے انہوں نے فلائٹ لی تھی۔ اقراء ایکدم سے خوش ہوگئی اور اس کے چہرے پر خوشی دیکھ شرجیل کی خوشی دگنی ہوگئی۔
 آخری پیپر ہوا اور اقراء نے چین کی سانس لی۔ وہ گھر آکر سوگئی تھی کئی دنوں کی نیند پوری کرلی۔ عصر کے وقت جاگ گئی۔ رات شرجیل نے ڈنر کا پروگرام بنایا تھا وہ لوگ ڈنر کے لئے باہر گئے اور وہاں سے شرجیل اُسے لے کر اس کے میکے گئے۔ مہینے بھر بعد وہ سب سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ چھوٹا بھائی تو اُسےچھوڑ ہی نہیں رہا تھا۔ سب نے بہت ضد کی کہ وہ لوگ رات وہی رک جائیں لیکن شرجیل کی صبح میٹنگ تھی اس لئے وہ رک نہیں سکتے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ اقراء کے گھر والے اسے بہت مسں کر رہے ہیں تو انہوں نے اقراء کو رکنے کے لئے کہا۔
 اقراء رکنا بھی چاہ رہی تھی اور نہیں بھی، عجیب کیفیت تھی اُس کی۔ لیکن وہ شرجیل کے اصرار پر رک گئی۔ شرجیل نے گھر پہنچنے کی اطلاع دی۔ آج وہ پورے ایک مہینے بعد اپنے کمرے میں تھی۔ ممی پاپا بھی بہت خوش تھے۔ بھائی کی تو الگ ہی خوشی تھی۔ لیکن اقراء کا دھیان بار بار شرجیل کی طرف ہی جا رہا تھا۔ ایک مسلسل بے چینی تھی وہی جو ایک رات پہلے وہ محسوس کر رہی تھی۔ اسی ادھیڑ بن میں اسے نیند لگ گئی۔ صبح سات بجے آنکھ کھلتے ہی شرجیل کا خیال آیا تو اس نے فوراً فون کیا مگر کوئی جواب نہیں ملا پھر تھوڑی دیر بعد کیا تب بھی کوئی جواب نہیں ملا اور اسے فکر لاحق ہوگئی۔ شرجیل تو جلدی اٹھ جاتے ہیں اور پھر میٹنگ بھی ہے۔ اب اُس نے لینڈ لائن پر کال کی تب ملازمہ نے بتایا کہ صاحب ابھی تک اٹھے ہی نہیں۔ یہ سن کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئی اور فوراً اپنے گھر پہنچی۔ آکر دیکھا کہ شرجیل تو سو رہے ہیں۔اٹھایا تو محسوس ہوا کہ تیز بخار کی وجہ سے بے ہوشی طاری تھی۔ ڈاکٹر کو فون کیا۔ ڈاکٹر نے انجکشن لگایا، ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے کو کہا۔ وہ بہت پچھتا رہی تھی کہ وہ کیوں رکی رات کو وہاں، انہیں اکیلا کیوں چھوڑا؟ فیملی ڈاکٹرنے اسے بتایا کہ ان کے والد کے انتقال کے فوراً بعد بہت عرصے تک اکیلے پن کی وجہ سے بخار آتا تھا۔ آج بہت دنوں بعد ایسا ہوا ہے اور وہ سمجھ گئی کہ ایسا کیوں ہوا۔ تھوڑی دیر میں بخار اترا شرجیل ہوش میں آئے۔ انہیں ناشتہ کرایا دوا دی۔ انہیں تھوڑا بہتر محسوس ہوا تو اقراء نے ان سے سوال کیا کہ، ’’انہوں نے اُسے رکنے کیلئے کیوں کہا جبکہ آپ جانتے تھے اس کا آپ کی صحت پر اثر ہوگا۔‘‘ تب انہوں نے جواب دیا کہ، ’’چھوٹے بھائی عمر کی وجہ سے جو تمہیں پکڑے بیٹھا تھا وہ تمہیں کتنا مس کر رہا تھا اس کا اندازہ مجھے ہوا۔ اس کی خاطر میں نے تمہیں رکنے کو کہا۔‘‘ ’’تو پھر آپ بھی رک جاتے۔‘‘ ’’ہاں چاہ تورہا تھا لیکن تھوڑی جھجک تھی۔ پھر سوچا کہ یہ تمہاری فیملی ہے ان کا تم پر حق ہے۔ مجھے بیچ میں نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ ’’آپ نے غلط سوچا وہ آپ کی بھی فیملی ہے۔ آپ انہیں اپنی فیملی نہیں سمجھتے؟ اتنا سب جو آپ نے ہم سبھوں کیلئے کیا وہ اپنا سمجھ کر ہی کیا نا؟ پھر آپ اس فیملی سے الگ کیسے ہوئے؟ دوبارہ ایسا کبھی مت کہنا۔ آپ کو بیہوش دیکھ کر میرے تو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑگئے۔‘‘ شرجیل اقراء کی باتیں سن کر بے حد مسرور ہو گئے۔ اقراء کی فکر، اس کی پیار بھری ڈانٹ اور غصہ انہیں بہت اچھا لگ رہا تھا۔ شام کو اس کے ممی پاپا اور بھائی، شرجیل کی عیادت کو آئے تو اقراء نے انہیں ڈنر پر روک لیا۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اقراء کو یوں اپنے گھر میں رچتے بستے دیکھ کر والدین بہت خوش اور مطمئن تھے۔ اور شرجیل تو بہت ہی خوش تھے۔ اقراء اتنے حق سے اپنے گھر میں مہمان نوازی کر رہی تھی ان کا پورا خیال رکھ رہی تھی۔
اگلے دن بھی شرجیل گھر پر ہی تھے اقراء نے انہیں آفس جانے نہیں دیا۔ وہ شرجیل کے آس پاس تھی وہ ان کا بے حد خیال رکھ رہی تھی۔ وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کیلئے بھی شرجیل دوست سے بڑھ کر ہم سفر تک پہنچ گئے ہیں۔ اب وہ خود کس طرح اپنی کیفیت کا اظہار کرے وہ خود ان سے کیسے کہے۔ اچانک اُسے موقع ملا۔ اس کا دھیان گیا کہ دو دن بعد شرجیل کی سالگرہ ہے۔ ملازمہ سے پتہ کیا کہ سالگرہ منائی جاتی ہے؟ تو ملازمہ نے بتایا کہ جب تک بڑے صاحب زندہ تھے صرف باپ بیٹا مل کر گھر میں کھانا بناتے مبارکباد دیتے۔ اس طرح دونوں دن ساتھ میں گزارتے تھے۔ تب اقراء نے سالگرہ کی رات کو بارہ بجے ان کی پسند کا کیک بیک کیا اور مبارکباد دی۔ شرجیل بہت خوش ہوئے اور حیران بھی۔ ابا کے بعدانہوں نے کبھی سالگرہ نہیں منائی۔ اب اقراء نے انہیں وِش کرکے حیران کر دیا۔ ’’تمہیں کیسے پتہ چلا میرے جنم دن کے بارے میں؟‘‘ وہ آپ کے ڈرائیونگ لائنس پر اتفاق سے دھیان گیا تب آپ کی برتھ ڈیٹ دیکھی۔‘‘ ’’تو صرف کیک ہی ہے یا کوئی گفٹ بھی ملنے والا ہے مجھے؟‘‘ ’’ہاں ہے گفٹ مگر وہ آپ کے پاس ہی ہے۔ آپ کے پاس میری ایک امانت ہے وہ مجھے دے دیجئے آپ کو گفٹ خود بخود مل جائیگا۔‘‘ ’’وہ کیا؟‘‘ ’’میری منہ دکھائی۔‘‘
دو منٹ تک شرجیل کنفیوز رہے۔ پھر اچانک خوشی سے اچھل کر اقراء کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ آخر ان کی محبت انہیں مل گئی۔ دوستی سے ہم سفر تک کا سفر مکمل ہوا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK