• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: منی آرڈر

Updated: July 31, 2024, 1:46 PM IST | Zakia Mashhadi | Mumbai

منی آرڈر کا دَور ختم ہوگیا مگر حالات ویسے ہی ہیں۔ اسی کرب کو بیان کرتا ایک افسانہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

گرمی کانٹوں بھرے جھاڑ کی طرح تن سے لپٹ لپٹ گئی تھی۔ ٹیبل فین کی ہوا صرف ایک رخ سے جسم پر لگ رہی تھی۔ باقی سب وہی چن چن چن چن، اب کی اماں نے اپنی چوڑی چکلی چبوترہ جیسی پیٹھ پنکھے کی طرف کی۔ شاہدہ کو ملنے والی ہوا رکنے لگی۔ اس نے اماں کو کہنی سے ہلکا سادھکا دیا، ’’ارے بھیا پرے ہی رہو۔ ایک تو یونہی گرمی سے برا حال ہے۔‘‘ اماں چڑچڑائیں۔ پنکھے کی ہوا کیلئے تینوں چھوٹے بھائی بہنوں میں الگ دھکا مکی ہورہی تھی۔ ایک کونے میں پرانی چادر تہہ کرکے سعید نے اپنے لئے جگہ بنائی ہوئی تھی اور مطالعے میں غرق تھا۔ پسینہ اس کے چہرے سے دھاریں بن کر گر رہا تھا پریشانی چڑچڑا پن اور نااُمیدی اس پسینے میں گھل مل گئے تھے اور ساتھ ساتھ ٹپک رہے تھے۔ تین دن بعد وہ سیکریٹریٹ کے اسسٹنٹ کے امتحان میں بیٹھ رہا تھا پچھلے دو امتحانوں میں ناکام رہا تھا۔ ایک کسی بینک کا تھا اور دوسرا داروغہ کا۔ اچانک وہ بڑے زور سے چلّایا، ’’نکل جاؤ تم سب کے سب یہاں سے۔ کوئی پڑھنے نہیں دیتا ہے۔ ۲؍ سال پہلے تک گھر میں جب یہ پنکھا نہیں تھا تب کیسے گزرتی تھیں گرمیاں۔ اب بغیر بجلی کے پنکھے کے گزارا ہی نہیں لاٹ صاحبوں کا۔‘‘
 ’’تمہارا بھی تو گزارا نہیں بغیر پنکھے کے تم بھی تو پچھلے سے پچھلے سے پچھلے سال جب بی کام کا امتحان دے رہے تھے تو ایک ہاتھ میں کتاب لے کر دوسرے ہاتھ سے تاڑ کا پنکھا گھماتے رہتے تھے۔ خود فضیحت اور دوسروں کی نصیحت۔‘‘ شاہدہ کسی کٹ کھنی بلی کی طرح غرائی اور اپنا بھاری ہوتا ہوا پیٹ لے کر دوسری طرف کو سرکنے کی کوشش میں پھر اماں سے ٹکرا گئی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: ٹیسٹ

 ’’آپا تم تو زیادہ بولیو مت....‘‘ سعید نے موٹی سی گائیڈ بک زور سے رکھی اور شاہدہ کو گھور کر دیکھا۔
 ’’ہاں ہاں ہم کیوں بولیں گے۔ ہمارا حق تو اس گھر پر سے ختم ہی ہوگیا سمجھو۔‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔
 ’’ارے تم پڑھ رہے ہو یا کٹھ حجتی میں وقت ضائع کر رہے ہو۔‘‘ ساتھ ہی اماں نے چھوٹی امت کو دھکا دیا، ’’چلو نکلو.... نکلو تم سب یہاں سے۔ بھاگو....‘‘ شاہدہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
 ’’ارے بھائی تم بیٹھی رہو۔ تمہیں اٹھنے کو کسی نے نہیں کہا۔ بس خاموش رہو۔ لڑائی جھگڑے سے کیا فائدہ لڑکے کو پڑھنا ہے۔ ایک تو اللہ ماری گرمی۔‘‘ کہتے ہوئے اماں پھر پنکھے کے آگے آگئیں۔ ’’نہیں ہم نہیں بیٹھتے یہاں....‘‘ شاہدہ تنک کر برآمدے میں پڑے اٹنگے تخت پر آکر پھیل گئی اور دستی پنکھا اٹھا لیا ہوا بالکل گم تھی۔ آنگن میں لگے امرود کے پیڑ کا پتہ بھی نہیں ہل رہا تھا۔ ایک شاخ سے ٹنگے پنجرے میں مٹھو پَروں میں سَر دیئے خاموش بیٹھا تھا۔ منڈیرے پر گوریا چونچ کھولے ہانپ رہی تھی۔
 شاہدہ نے آنگن کی دھوپ سے وقت کا اندازہ لگایا۔ گھر کی واحد گھڑی سعید میاں کی کلائی کی گھڑی تھی۔ ان سے تو ابھی بات ہی نہیں کرنی ہے۔ ویسے بھی برسوں سے اس گھر کی خواتین آنگن کی دھوپ ہی سے وقت کا اندازہ لگاتی چلی آرہی تھیں۔ آفتاب میں تمازت تو پوری تھی لیکن دھوپ دیوار کی طرف بڑھ چلی تھی یعنی کوئی چار بجنے کو ہوں گے۔ پوسٹ مین کے آنے کا وقت ابھی باقی ہے شاہدہ کا جی چاہا وہ سعید سے بالکل صحیح وقت پوچھے لیکن جی دبا لیا۔
 انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد ابا نے اوور ٹائم کرکے سعید کے لئے ایک سستی سی رسٹ واچ خریدی تھی کچھ روپے اماں نے بھی ڈالے تھے۔ سعید کا کہنا تھا گھڑی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے پرچے وقت پر نہیں ختم کر پاتا تھا۔ کبھی ایک سوال پورا چھوٹ جاتا، کبھی آدھا۔
 اماں کے لئے وقت کو سمجھنے کی نہ فرصت تھی نہ اہمیت۔ سویرے اٹھ کر گھر کے کاموں میں سر جھکا کر، بیل کی طرح جٹ جاتیں۔ دوپہر میں کچھ دیر کمر سیدھی کرتیں پھر لئی بنا کر پرانے اخباروں اور بھورے بانسی کاغذ کے لفافے بنانا شروع کرتیں۔ اسکول کی چھٹی ہوتی تو بچوں کو بھی ساتھ بٹھا لیتیں۔ انہیں کسی کام کے لئے گھڑی نہیں دیکھنی تھی۔ ان کے سارے کام جیسے کسی سانچے میں ڈھلے ہوئے چلتے چلے جاتے تھے اور وقت ریت کی طرح پھسلتا جاتا تھا سر سر سر سر.... دھکے دے دے کر اس نے گھر کا سارا پلاسٹر جھاڑ دیا تھا اور اماں بھی کسی دن بھر بھرا کر بیٹھ جائیں گی۔ وہ بھی اور گھر کی کچھ دیواریں بھی۔
 ’’مارے گرمی کے کسی کام کو جی نہیں چاہ رہا....‘‘ وہ بڑبڑاتی ہوئی چھوٹے کمرے سے برآمد ہوئیں جہاں گھر کا واحد بجلی کا سامان یعنی وہ ٹیبل فین تھا جو شاہدہ کی شادی کے بعد نہ جانے کس تگ و دو کے ساتھ کباڑی بازار سے خریدا گیا تھا۔ سعید پڑوس والے بجلی مستری کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ دوستی کا لحاظ کرکے اس نے پنکھا نہ صرف مفت میں ٹھیک کر دیا تھا بلکہ دو چار گر بھی سکھا دیئے تھے۔ وقت بے وقت پھڑپھڑا کر بیٹھ جاتا تو خود ہی کھول کھال کر دوبارہ رواں کر لیتے۔ یہ پنکھا بھی شدید دباؤ کے تحت خریدا گیا تھا۔ عید میں پڑ رہی تھی سخت گرمی اور داماد پہلی عید میں گھر آرہے تھے۔ اس پورے سال اماں نے رات کو بھی لفافے بنائے تھے اس کے اگلے سال بجٹ کو ہلانے والی کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن اس سال سعید کے امتحانوں کا چکر چلا۔ جگہ جگہ فیس فارم کی قیمت اور پھر کتابیں اس امتحان کے لئے یہ پڑھو اس کے لئے وہ پڑھو۔ پھر آگئی شاہدہ۔
 اچانک ان دونوں کو دیکھ کر اماں جیسے سناٹے میں آگئیں۔ اگر انہیں کوئی خوشی ہوئی بھی ہوگی تو اس جلد اور اچانک آمد کے دھچکے تلے دب گئی تھی۔ بہت سی خوشیاں متوقع اخراجات کے خدشے تلے دم توڑ دیتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس وقت بھی ہوا تھا۔ دو برس پہلے تک آخر شاہدہ اسی کنبے کا حصہ تھی لیکن اب آتی ہے تو لگتا ہے جیسے گھر میں ایک آدمی بڑھ گیا ہے۔ بڑھا ہوا خرچ صاف پتہ چلتا ہے۔ اس کے شوہر آجائیں تو مرے پہ سو درے۔ اس مرتبہ بھی بیوی کو چھوڑنے آئے تو چار دن رہ گئے۔
 ’’بیٹا! کچھ پیسے ہیں؟‘‘ اماں نے دھیرے سے شاہدہ سے کہا، ’’گوشت کے لئے کم پڑ رہے ہیں ابھی دے دو۔ دو چار دن میں لفافوں کے پیسے آجائیں گے تو واپس کر دوں گی بیاہی بیٹی ہو تمہارا قرض نہیں رکھوں گی۔‘‘ اماں کو امید تھی شاہدہ کہے گی اماں تمہارے اور میرے بیچ قرض کیسا۔ اصرار کرکے سو پچاس یونہی دے دے گی۔ لیکن شاہدہ نے جو جواب دیا اس کو سن کر وہ بہت دیر تک چپ رہ گئیں۔ ’’چیل کے گھونسلے میں مانس کہاں اماں۔ اور جہاں تم نے بیاہا ہے وہ جھوٹی عزت والے لوگ ہیں۔ لفافے موم بتیاں بنانے نہیں دیتے اور اتنا دم ہے نہیں کہ خرچ پورا کریں۔‘‘
 پھر اس نے بعد میں اور تفصیلات بتائیں۔ دو بھائیوں کی تنخواہ سے مشترکہ کنبہ چلا کرتا تھا۔ بڑے بھائی جس محکمے میں تھے وہاں کئی مہینوں سے تنخواہ ہی نہیں ملی تھی۔ گھر میں فیصلہ ہوا کہ بہوؤں کو ان کے گھر پہنچا دیا جائے دونوں اپنی اپنی بیویوں کو ہنکا لائے۔ شاہدہ کو تو خاص طور پر اس لئے کہ وہ امید سے تھی۔ اماں مزید پریشان ہوگئیں۔ ابھی تو ابتدا ہی معلوم ہوتی ہے۔ بظاہر تو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اس پوری مدت کا خرچ اور پھر لین دین۔ شاہدہ نے ان کے چہرے پر پریشانی صاف پڑھی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بیقرار کا

شوہر رخصت ہونے لگے تو شاہدہ نے اماں کو سنا کر کہا، ’’تنخواہ ملے تو کچھ روپیہ منی آرڈر کر دیجئے گا۔ اب سارا کچھ میرے والدین پر مت چھوڑ دیجئے گا۔‘‘ وہ تھے نیک انسان۔ ایک ادارے میں اُردو ٹیچر تھے۔ معمولی تنخواہ تھی اسلئے کچھ بچوں کو ان کے گھر پڑھانے جاتے تھے۔ ’’اچھا‘‘ انہوں نے بڑی فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیا اور سر جھکا کر رخصت ہوئے۔ بہت دنوں بعد پلاؤ کھایا تھا اور فیرنی بھی۔ یہ ذائقے ابھی زبان پر تازہ تھے۔ سنا ہے اکبر بادشاہ کے زمانے میں ایک دھوبی نے جمنا میں دور محل میں جلتی روشنی پر نظریں جما کر کڑکڑاتے جاڑوں میں کھڑے ہو کر رات گزار دی تھی۔ اماں کو بھی داماد کے سر جھکا کر ’اچھا‘ کہنے سے امید ہوگئی تھی کہ روپیہ آئے گا تو شاہدہ کا خرچ اٹھانے میں آسانی ہوجائے گی۔ دوا اور دوسری ضروریات شاہدہ خود پوری کرے گی۔ باقی وہ دیکھ لیں گی۔ ویسے انہوں نے زیادہ تیزی سے لفافے بنانے شروع کر دیئے تھے۔ شاہدہ کی طبیعت اور موڈ صحیح ہوتے تو وہ بھی ساتھ دے لیتی تھی۔
 چار ماہ گزر گئے۔ ہر مہینے کے پہلے ہفتے شدید انتظار کیا جاتا منی آرڈر کا۔ دوسرے ہفتے ایک توقع رہ جاتی کہ شاید اب آجائے۔ تیسرے ہفتے یہ توقع مایوسی میں بدل جاتی اس لئے کہ تیسرے ہفتے سے تو اس گھر کی طرح اس گھر میں بھی بجٹ اور اہل خانہ کے درمیان رسہ کشی شروع ہوجایا کرتی تھی۔ پھر کہاں کی منی اور کہاں کا منی آرڈر۔ لیکن پھر مزید دن جاتے نیا مہینہ شروع ہوتا تو امید از سر نو جاگتی۔
 ’’آپا‘‘ سعید نے پرسوں کہا تھا، ’’ایک اور امتحان کے بارے میں اخبار میں نکلا ہے۔ پچاس روپے میں فارم ملے گا اور ۱۲۵؍ روپے امتحان کی فیس۔ گھر میں کہا تو ڈانٹ پڑ جائے گی۔ تمہارا منی آرڈر آئے تو کم از کم فیس تم دے دینا۔ فارم کا انتظام کسی طرح کر لوں گا۔‘‘
 شاہدہ نے اسے گھور کر دیکھا۔ غسل خانے میں رکھی صابن کی ٹکیہ گھس کر ختم ہوچکی تھی۔ وہ کئی دن سے بغیر صابن کے نہا رہی تھی۔ اماں سے کہا تو بولیں، ’’اب تو اگلے ہفتے ہی آئے گا جب پیسے ملیں گے۔ لفافوں کے پیسے ہفتے کے ہفتے آتے تھے۔ پھر کچھ توقف کے بعد کہ، ’’تم صابن کو رو رہی ہو یہاں دالوں کے ڈبے ٹھن ٹھن کر رے ہیں۔‘‘
 صابن شاید میری وجہ سے قبل از وقت ختم ہوگیا۔ منی آرڈر آجائے تو وہ صابن منگائے گی اور ٹانک جو لیڈی ڈاکٹر نے لکھا تھا۔ اس نے کہا تھا بکرے کے پایوں کا شوربہ پئو اور گڑ اور مونگ پھلی کھاؤ۔ خیر گڑ اور مونگ پھلی تو اماں نے منگوا دیئے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دونوں چھوٹے بھائی بھی ٹوٹ پڑے۔ چھوٹے بچوں کا گھر ہو تو ایسی چیزیں اکیلے کیسے کھائی جاسکتی ہیں۔ منی آرڈر آئے تو وہ ٹانک کی شیشی خریدے ٹانک پر کوئی نہیں ٹوٹے گا۔ کبھی کبھار وہ پائے بھی منگا لیا کرے گی۔ اس نے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ نہ جانے لڑکا ہے کہ لڑکی۔ اسے وہ کیا دے رہی ہے آگے بھی کیا دے سکے گی؟ چڑ کر اس نے سعید سے کہا:
 ’’اجی پہلے آ تو جائے قارون کا خزانہ۔ دیکھیں کتنا آتا ہے اور کس کس کے کون سے کام نکلتے ہیں۔‘‘
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK