• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

Updated: August 13, 2024, 1:39 PM IST | Shabnam Farooq | Mumbai

رات کے پہر جب پوری کائنات محو استراحت تھی تو وہ بوجھل دل کے ساتھ لائبریری نما کمرے میں اپنی ڈائری لئے بیٹھی تھی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

رات کے پہر جب پوری کائنات محو استراحت تھی تو وہ بوجھل دل کے ساتھ لائبریری نما کمرے میں اپنی ڈائری لئے بیٹھی تھی.... پورا کمرہ اندھیرے کی زد میں تھا صرف اس کے اطراف فانوس کی روشنی اجالا کئے ہوئے تھی دور سے دیکھنے پر یوں محسوس ہوتا گویا کوئی مقدس ہالہ ہو جو اس کے گرد روشنی بکھیر رہا ہے.... آنکھوں میں ماضی کے کرب کا نام و نشان تک نہ تھا بلکہ دور اندیش چشم منزل کے عکس کا اظہار کر رہی تھیں.... جس کے اثرات اس کے چہرے پر واضح تھے چہرے پر اطمینان کی جھلکیاں تھیں.... لیکن پھر دل....
فرصت کشمکش میں ایں دل بے قرار را
 اس دل کا اطمینان کہاں سکونت اختیار کرچکا ہے کہ اب اس کے پاس آنے سے گریز کرنے لگا ہے۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھا ایک گہری سانس خارج کی.... اور الحمدللہ کہتی ہوئی قلم کو انگلیوں میں تھام چکی تھی.... ذہن میں خیالات ترتیب پانے لگے اور قلم قرطاس پر لفظوں کے موتی بکھیرنے لگا.... رفتار کبھی آہستہ تو کبھی بالکل ہی تھم جاتی.... جیسے اب الفاظ ختم ہوچکے ہو لیکن پھر اچانک قلم کی رفتار بڑھ جاتی....

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : ہم سفر

اب میں نے طے کیا ہے جو کھوگیا ہے اسے تلاش کرنے کی۔ زندگی کے گزرے اوقات کا ازالہ تو ممکن نہیں.... لیکن میں کفارہ ضرور ادا کرسکتی ہوں ان ماضی کے اوقات کا کفارہ جس سے بے نیاز ہو کر میں ایک قیمتی شخص کو کھو دی۔ جو میری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے اس سے میں کئی مدت غافل رہی۔ کیسا یہ تغافل تھا کہ وہ میرے ہر لمحہ میں موجود رہا اور میں ہر ساعت اسے کھوتی رہی۔ جو میں تھی وہ رہی نہیں، جو میں ہوں وہ حقیقت میں ہوں نہیں.... کیسا تذبذب سا وجود لئے پھرتی ہوں۔ منزل پر پہنچنے والے سارے راستے مسدود کرکے اپنے وجود کی کرچیاں لئے بیٹھی ہوں یہ سوچتے ہوئے کہ شاید ان کرچیوں کو جوڑ جوڑ کر پھر سے ایک نیا مجسمہ تعمیر کرسکوں، یہ جو تخلیق ہوگی اسے میں بتاوں کہ اب وہ بھول دوبارہ سرزد نہ ہو پائے جو آدم نے کی تھی، یا شاید جو موسیٰ نے کی تھی جلد بازی میں ایک جنت سے محروم ہوئے دوسرے کوہ طور کا سبب بنے.... اس عجل کے مادے کو دبائے رکھنا دیکھو عجلت میں اپنے وجود کے اس اٹوٹ حصے سے غافل نہ ہونا جو تمہارے منتشر وجود کو سہارا دینے کیلئے سب سے پہلے آتا ہے۔
 ایک لمحے کیلئے وہ ٹھٹک گئی قلم تھم گیا اور صفحہ سانسیں تھامیں قلم کی نوک کو تکنے لگا.... اتنے سال کوئی کیسے اپنے ہی وجود سے دور رہ سکتا ہے.... اس نے آنکھیں بند کی (جب خدا مل جائے تب اسے قبول کرلینا چاہئے یہ سوچے بغیر کے کتنی زندگی گزر چکی ہے.... جو باقی ہے اسے آپ اس خدا کے ساتھ گزار سکتی ہو ) اس کے اپنے الفاظ سماعت میں گونجنے لگے ایک وقت تھا جب اس نے کئی لوگوں کو ایسے ہی الفاظ سے سہارا دے کر پھر سے اٹھنا سکھایا تھا اور آج اسے انہی لفظوں کی ضرورت تھی.... یہ الفاظ اسے شفا دے رہے تھے....
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی 
 بند آنکھیں کھلی جو پہلے سے زیادہ روشن تھیں قلم پھر تھاما جاچکا تھا.... اور الفاظ قرطاس پر بکھرنے کیلئے بیتاب تھے....
 وہ اٹوٹ حصہ کون ہے.... وہ ہمارے اندر ہی پوشیدہ ہماری روح کی طاقت ہے جو ہر بار کہتا ہے، ہے کوئی اب تمہارا حمایتی کوئی معاون جو تمہارے وجود کی کرچیوں کو جوڑ سکیں.... جواب آتا ہے کوئی نہیں.... سوائے اس طاقت کہ کوئی اور نہیں جو ہمیں پھر سے آسرا دے پھر سے ایک بار جنت کی بشارت کا مژدہ سنائے.... یہ وسیع ترین کائنات اور اس میں آباد مخلوق خداوندی یہ ہمارے لئے کیا کرسکتی ہے سوائے اس کے کہ ہمارے ناساز حالات میں ہمدردی کے چند الفاظ ادا کردے.... یہ لوگوں کا ہجوم تماشائیوں کا ہے.... اگر کوئی آپ کا خیر خواہ ہے جو ہر ساعت آپ کے ساتھ ہے وہ آپ کے اندر موجود ہے اسے تلاش کریں اس کے ساتھ رہیں جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے والا ہے تب بھی جب جنت بدر ہوئے اور تب بھی جب خضر نے موسیٰ سے کہا یہ آخری منزل ہے تب بھی جب جبریل نے کہا یہ میری آخری حد ہے.... اور تب بھی جب کنویں میں یوسف کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا.... ایسے ہر لمحے میں ایک ہی طاقت تھی جو آپ کے ساتھ تھی ایک ہی شخص تھا جو آپ کے ساتھ تھا.... وہ ہمارا وجود ہماری روح کی طاقت تھی....
 جیسے جیسے خیالات الفاظ کی صورت اختیار کر کے قرطاس پر اپنے نقوش چھوڑتے جارہے تھے ویسے ویسے وہ خود سے قریب ہوتے جارہی تھی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: منی آرڈر

پھر کیا سوچا ہے خود کے ساتھ رہنا ہے یا ان لوگوں کے ساتھ جو اپنی آخری حد بتانے میں بالکل بھی تاخیر نہ کرے.... کیا وہ لمحوں کو اوقات میں بدلنا ہے جو آپ کیلئے ہے ہی نہیں.... تو وابستگیاں سے درگزر کرو لوگوں سے درگزر کرو.... اپنے اس حصے کے ساتھ رہنا سیکھو جو آپ کو مضبوط بناتا ہے اور ہر لمحہ آپ کے پلٹنے کا انتظار کرتا ہے.... اور میں نے طے کیا ہے میں اپنے اس اٹوٹ حصے کو تلاش کروں گی جو کئی مدت سے کہیں گُم ہے.... شاید کچھ وقت لگے یا شاید بہت وقت لگے لیکن وجود کی تکمیل کیلئے اس ٹوٹے ہوئے حصہ کو یکجا کرنا ہی میرا حاصل حیات ہے۔
 قلم پھر تھم گیا.... روشنائی اپنی آخری سانسیں مکمل کرچکی تھی اور قرطاس اپنی حیات کے آخری مراحل کو عبور کرچکا تھا.... اس کے خیالات بھی اب رک گئے تھے یا اس نے لاشعوری طور پر خیالوں کو مقفل کرکے اپنی نشست پر پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی....
 وہ آہستہ آہستہ صفحوں پر ہاتھ رکھے اسے محسوس کرنے لگی.... ہر لفظ اسے اپنی زندگی سے قریب ترین کررہا تھا....
 ....آخری صفحہ سادہ چھوڑ کر اس نے ڈائری کو دراز میں رکھا.... اور دور سے آتی مؤذن کی آواز پر کھو سی گئی۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK