Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : پگلی

Updated: April 16, 2025, 11:56 AM IST | Zeenat Malik

’’نازیہ، یہ تو یہی بات ہے کہ ریاض عرش پر ہیں اور مَیں فرش پر.... نازیہ مرا نام شمع ہے اور میرا نصیب اور قسمت سب اندھیرے میں ہے۔ یہ کہاں محلوں میں رہنے والے.... ان نوابوں کے تو الگ ہی ٹھاٹ باٹ ہوتے ہیں.... مجھ سے ہر چیز میں بہتر۔ پھر مَیں کیسے شمع احمد بن سکتی ہوں....؟‘‘

Picture: INN
تصویر: آئی این این

سب کچھ میرا دیکھا بھالا تھا، جب ریل گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تو سب سے پہلے مَیں اترا اور پھر میری بیوی عروج نے پیر رکھا۔ ابھی ہم نے دم ہی لیا تھا کہ بھیڑ کو چیرتی ہوئی ایک عورت آئی اور میرا گریبان پکڑ لیا۔ مَیں نے اسے پہچان لیا مگر موقع نہ ملا جو میں اس کا نام لیتا، اس نے ایک نظر میری بیوی عروج پر ڈالی اور زور سے چیخ کر بولی، ’’یہ کون ہے؟‘‘ ’’یہ میری بیوی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی اس نے میرا گریبان چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹ گئی۔
 میرے کچھ کہے بغیر ایک قلی آیا اور میرا سامان لے کر چلنے لگا، ’’سر! آج اس پگلی پر تو دوسرا ہی دورا پڑا تھا۔ یہ ایسی حرکت کرتی تو نہیں تھی لیکن اب اس کی شکایت کرنی ہی پڑے گی۔ کبھی یہ کسی کو نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
 ’’ویسے مجھے لگتا ہے کہ اس کی شکایت نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ مَیں نے قلی سے کہا۔ اور پھر مَیں اور میری بیوی، ریلوے اسٹیشن سے نکل کر موڑ پر آگئے اور ایک ٹیکسی لے کر ہم اپنی کوٹھی پہنچ گئے۔ سنگ مرمر سے بنی ہوئی کوٹھی، دور ہی سے اپنا جلوہ بکھیر رہی تھی۔ مانو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کب سے میری منتظر ہو۔ اور منتظر ہو بھی کیوں نہ، پورے چار سال بعد اپنے آبائی وطن لکھنؤ جو آیا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا تھا۔ لکھنؤ کی وہی شان و شوکت اور چمک دمک۔ سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔ بدلائو آیا تھا تو صرف میری زندگی میں آیا تھا۔ اور جو ایک طوفان کی شکل میں بدلنے والا تھا۔
 کوٹھی پہنچتے ہی سارے لوگوںسے ملا، امی ابو کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں اور عروج بھی بہت خوش تھے۔
 دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں اور عروج کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ اچانک میری بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ ’’وہ پگلی کون تھی؟ جس نے تمہارا گریبان پکڑا تھا۔ جیسے مانو وہ تم کو کب سے جانتی ہو۔‘‘
 یہ سن کر مَیں گھبرا سا گیا؟ ’’ارے نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تم کو معلوم نہیں قلی کیا کہہ رہا تھا! اس پگلی پر روز بروز کوئی نہ کوئی دورا پڑتا ہے۔ شاید آج بھی اس پر کوئی دورا پڑا ہوگا۔‘‘
 ’’شمع وہ دیکھو! یہ ہیں ریاض صاحب! لکھنؤ کے بہت ہی امیر ’’رئیس احمد‘‘ کے اکلوتے بیٹے ’’ریاض احمد‘‘ انہوں نے ہماری یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ یونیورسٹی کی ہر لڑکی ان پر فدا ہے۔ شمع تم بھی اپنی قسمت آزما لو....‘‘
 ’’مَیں! نازیہ، یہ تو یہی بات ہے کہ ریاض عرش پر ہیں اور مَیں فرش پر.... نازیہ مرا نام شمع ہے اور میرا نصیب اور قسمت سب اندھیرے میں ہے۔ یہ کہاں محلوں میں رہنے والے.... ان نوابوں کے تو الگ ہی ٹھاٹ باٹ ہوتے ہیں.... مجھ سے ہر چیز میں بہتر۔ پھر مَیں کیسے شمع احمد بن سکتی ہوں؟‘‘ یہ کہہ کر دونوں سہیلیاں زودار ہنسنے لگیں۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: وہ کچھ نیا کرنا چاہتی تھی

کچی اینٹوں کا بنا ہوا دو کمروں کا گھر، اس پر گھاس پھوس کا بنا ہوا چھپر ڈال رکھا تھا۔ باہر مٹی کا بنا ہوا چوڑا سا گلان، جو بارش آنے پر پورا کیچڑ گندگی میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ رسوئی کے نام پر ایک چولہا جس میں جگہ جگہ دراڑیں پڑی تھیں۔ وقت ضرورت پر اس کو بھی مٹی سے لیپ دیا جاتا تھا.... برتن وغیرہ میں بھی زیادہ کچھ نہ تھا.... کمرے میں ٹوٹا پلنگ تھا.... جس کو اچھے سے سجا رکھا تھا.... دو ٹوٹی ہوئی میز تھی، پانی کیلئے ایک مٹکا تھا جو فریج کی کمی کو پورا کر رہا تھا۔ بیشک ہر چیز سے غریبی ظاہر ہو رہی تھی لیکن پورے گھر کو قرینہ سے سجا رکھا تھا۔ وقت کی مار نے غریبی سے سمجھوتا کرا دیا تھا۔ اس چھوٹے سے گھر میں شمع اور اس کا اکلوتا سہارا اس کی بوڑھی ماں تھی۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کمر جھکی ہوئی تھی۔ پوری زندگی اس نے درد، پریشانی اور غریبی کی مار سہہ کر سب چیزوں کو مات دے کر اپنی خوبصورتی، جوانی سب کچھ اپنی اکلوتی اولاد شمع پر صرف کر دی تھی۔ کہنے کو شمع غریب گھر سے تھی مگر سلیقہ مند، با شعور اور با ادب تھی۔ پتلی پتلی لمبی لمبی اس کی زلفیں، نین نقش اتنے دلکش تھے کہ جو کوئی دیکھے فدا ہو جائے۔ پڑھائی میں اتنی ہوشیار کہ اسکول والوں نے اس پر رحم کھا کر اس کو اسکالر شپ دلا کر لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل کرا دیا تھا۔

 ’’سارے طالب علم میری طرف مخاطب ہوں۔‘‘ مس صاحبہ نے درجہ کے اندر داخل ہوتے ہوئے تمام بچوں سے کہا، ’’جی ہاں! آپ لوگوں کے اول سال کے امتحان کے نتیجے آچکے ہیں اور اس بار ہماری کلاس میں شمع نے اول نمبر حاصل کیا ہے۔ ہماری یونیورسٹی کے لئے بہت ہی فخر کی بات ہے۔‘‘
 پوری کلاس میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ گونج اٹھی۔ بچوں سے لے کر سارے استاد سبھی شمع کو مبارکباد دے رہے تھے۔
 ’’مس شمع!‘‘ اتنی بھاری آواز سن کر شمع چونک گئی۔ ’’جی آپ یہاں پر ہیں، مَیں آپ کو اتنی دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آپ نے واقعی ہماری یونیورسٹی کا نام روشن کر دیا۔ مَیں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ آپ اسی طرح پہلا مقام لے کر بلندیوں پر پہنچے۔‘‘
 ’’جی شکریہ! ریاض.... اچھا مَیں چلتی ہوں۔‘‘ ’’ارے اتنی بھی جلدی کیا ہے....‘‘
 ’’جی وہ میری والدہ کی طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
 ’’مَیں آپ کو اپنی کار سے ڈراپ کر دیتا ہوں۔‘‘ ’’جی نہیں شکریہ، مَیں چلی جاؤں گی۔‘‘

 ’’ارے ریاض تم اتنا پریشان کیوں ہو؟‘‘
 ’’کچھ نہیں۔‘‘
 ’’ارے بتاؤ تو سہی۔ کیا پتہ میں حل کر دوں۔ اچھا دیکھو دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔‘‘
 ’’ارے وہ شمع....‘‘
 ’’ریاض صاحب شمع کے منتظر ہے۔‘‘ ’’ارے ایسی بات نہیں ہے۔ کل اس کی والدہ کی طبیعت خراب تھی اور آج وہ آئی بھی نہیں ہے۔‘‘
 ’’کوئی بات نہیں شمع کا فون نمبر لے لو۔‘‘
 ’’نمبر کہاں؟‘‘
 ’’ارے یار یونیورسٹی کی کتنی لڑکیاں شمع کی دوست ہیں ان میں سے کسی سے لے لو۔‘‘
 فون بجتا ہے۔ ’’شمع!‘‘
 ’’جی کون؟‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
 ’’وہ آنٹی....‘‘ کچھ ہڑبڑا کر ریاض نے بولنا شروع کیا، ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
 ’’ہاں بیٹا! اب تو مجھے آرام ہے۔ ویسے آپ کون ہو؟‘‘
 ’’جی مَیں یونیورسٹی میں شمع کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ وہ آج آئی نہیں تو مَیں نے خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کر لیا۔‘‘
 ’’جی بیٹا وہ کل سے روز آئے گی۔‘‘
 ’’جی ٹھیک۔ اللہ حافظ۔‘‘ اور ریاض نے فون بند کر دیا۔

 اس طرح دن گزرتے گئے شمع اور ریاض ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔ اب دونوں کا زیادہ تر وقت ایک ساتھ گزرتا تھا۔ یونیورسٹی آنا جانا بھی دونوں ایک ساتھ کرتے تھے۔ اور ساتھ مرنے جینے کی قسم کھاتے تھے۔ ریاض اپنی بانہوں میں شمع کو لے کر اپنی کوٹھی کے خواب دکھایا کرتا تھا۔ شمع بھی پھولے نہیں سماتی تھی۔ وہ اکثر اٹھتے بیٹھتے ریاض احمد کی دلہن اور اکلوتی بہو ہونے کا خواب دیکھا کرتی تھی۔
 شمع کی بوڑھی والدہ اس کو اکثر سمجھایا کرتی تھیں، ’’بیٹا! یہ بڑے لوگ ہیں، ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ بیٹا! مانا ہم غریب ہیں لیکن ہماری بھی عزت ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:افسانہ: گناہ کا داغ

لیکن شمع کو ریاض پر یقین تھا۔ اور اس طرح دن گزرتے گئے۔ اور ایک دن شمع کا اکلوتا سہارا اس کی بوڑھی ماں اس دنیا سے چلی گئیں۔
 یونیورسٹی مکمل ہوتے ہی سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔ شمع کا رو رو کر برا حال تھا۔ اب وہ تنہا ہوگئی تھی۔ والدہ کے سایہ سے پہلے ہی محروم ہوگئی تھی۔ اور ریاض کا بھی کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ چار سال مکمل ہونے کو تھے۔ ریاض غائب تھا اور اس کا فون نمبر بھی بند پڑا تھا۔ شمع کی حالت پاگلوں جیسی ہوگئی تھی۔ جب شمع کو ریاض سے جدائی برداشت نہ ہوئی تو دل پکا کرکے کوٹھی جانے کا ارادہ کر لیا۔ کوٹھی کے دروازے پر پہنچی تو پہرے داروں نے شمع کو اندر جانے سے روک دیا۔ اس نے بہت منت و سماجت کی کہ، ’’بس مجھے ایک بار ریاض احمد سے ملوا دیں۔ مَیں اس سے محبت کرتی ہوں اور وہ مجھ سے بھی محبت کرتے ہیں، میں اس کوٹھی کی ہونے والی بہو ہوں۔‘‘

لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔ ’’تو پگلی کوٹھی کی بہو ہے، تو نے اپنی شکل دیکھی ہے؟‘‘ ایک کی آواز آتی ہے۔ ’’ارے اوہ پگلی! یہ بڑے لوگ ہیں، موسم کی طرح ان کی باتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ یہ بڑے بڑے نواب لوگ ہیں اور رہی ریاض احمد صاحب کی بات تو وہ اپنی بیوی یعنی عروج احمد کے ساتھ دہلی میں ہیں۔‘‘ ’’جھوٹ ہے یہ سب جھوٹ ہے۔ تمہاری سب باتیں جھوٹ ہیں۔ ریاض نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کریں گے۔ وہ مجھے ضرور اپنی دلہن بنائیں گے۔ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔‘‘ وہ اپنے ہاتھ کانوں پر رکھ کر زور زور چیخ رہی تھی۔ ’’اے لڑکی! کیا تماشا ہے؟ کیوں شور مچا رکھا ہے؟‘‘ ’’مالکن یہ کہہ رہی ہے کہ ریاض صاحب اس کی محبت ہے۔ اور یہ ان سے ملنے آئی ہے۔ سب کچھ بتانے کے باوجود اس پگلی کو سمجھ نہیں آ رہا ہے۔‘‘ ’’تم لوگ اتنی دیر سے تماشا دیکھ رہے ہو اور اس کو نکالتے کیوں نہیں ہو؟ آج کے بعد یہ یہاں صورت نہ دکھائے۔‘‘
 ’’دیکھو وہ آگئی پگلی....‘‘ بہت سارے چھوٹے بچے ہاتھ میں پتھر لئے اس پگلی کو مار رہے تھے۔ یہ معمول بن چکا تھا۔ سب اس کو ایسے ہی ستاتے تھے۔ اس کا گھر بار بھی محبت کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ اب وہ در در بھٹک رہی تھی۔ جہاں اسے جگہ مل جاتی وہیں سو جاتی۔ مانگ کر کھانا کھا لیتی۔ اب سنسان سڑک اس کا سہارا بن چکی تھی۔ پگلی دو محبت کرنے والوں کو دیکھتی تو ان لوگوں پر پتھر مارتی اور کہتی یہ سب فریب ہے، جھوٹ ہے۔ بدلے میں لوگ اسے مارتے تھے۔

 ’’ارے! ریاض بیٹا! ساری تیاریاں پوری ہوگئیں؟‘‘ ’’جی، امی! سب کچھ تیار ہے۔‘‘ ’’کیا ہوا؟ ریاض! آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہوں؟‘‘ ’’کچھ نہیں امی! بس ایسے ہی گھبراہٹ ہو رہی ہے۔‘‘ ’’طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘ ’’ہاں ہاں! پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اتنی دیر میں ڈرائیور نے آواز دی، ’’ریاض صاحب آجائیں! چھوٹی مالکن آپ دونوں کار میں بیٹھ جائیں۔ مَیں آپ کا سامان لے کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈرائیور سامان لے کر گاڑی میں رکھتا ہے۔ گھر کے سب فرد رخصت کرتے ہیں جیسے جیسے گاڑی کی رفتار تیز ہو رہی تھی ویسے ویسے ریاض احمد ماضی کی یادوں سے گزر رہا تھا کہ اچانک ریلوے اسٹیشن آگیا۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک جگہ پارک کی۔ ریاض اور اس کی بیوی اتر کر کھڑے ہوئے۔ ریاض کی نظر بار بار اسٹیشن پر موجود بھیڑ میں اس پگلی کو تلاش کر رہی تھی۔ اچانک پلیٹ فارم پر شور بلند ہوا۔ ریاض نے قریب جا کر دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کچھ لوگ مل کر پگلی کو مار رہے تھے۔ جگہ جگہ سے اس کے کپڑے پھٹ رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ریاض اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ وہ پگلی کو بچانے کے لئے آگے آیا۔ جیسے ہی پگلی کا ہاتھ پکڑا، پگلی نے ریاض کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھا اور زور سے دھکا مار کر ریلوے کی پٹری پر کود گئی۔ سب لوگ شور مچانے لگے کہ بچاؤ.... اس پگلی کو بچاؤ۔ موت کے فرشتے کی شکل میں سامنے سے تیز رفتار ٹرین آئی اور پگلی کے جسم کو نہ جانے کتنے ٹکڑے کرتے ہوئے نکل گئی۔ سارے مسافر حیران رہ گئے۔ سب لوگوں کی چینخ پکار اچانک بند ہوگئی۔ ریاض کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ احساس کے سوا اب اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔ چاروں طرف بس ایک ہی منظر تھا.... میرے محبوب میرے صنم ہم تو لٹ گئے تیری محبت میں.... اس طرح اک شمع اپنی محبت کی خاطر آسماں میں جا ملی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK