نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، وہ آنکھیں موندیں بیڈ کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے چشمے کو ہاتھ سے اِدھر اُدھر تلاش کر رہی تھی۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 4:51 PM IST | Muqaddas Habiba | Mumbai
نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، وہ آنکھیں موندیں بیڈ کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے چشمے کو ہاتھ سے اِدھر اُدھر تلاش کر رہی تھی۔
نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، وہ آنکھیں موندیں بیڈ کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے چشمے کو ہاتھ سے اِدھر اُدھر تلاش کر رہی تھی۔ جس پر ایک خوبصورت شیشے کا فریم بھی پڑا ہوا تھا، سائیڈ ٹیبل پر عینک تلاش کرتے اچانک کچھ گرنے کی آواز آئی، وہ بیڈ کے ساتھ رکھی اسٹک سے سہارا لے کر اٹھی اور متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی، ایک دم اسے پاوں میں کچھ چبھا، وہ درد سے کراہنے لگی، پاؤں پر کچھ گیلا پن محسوس ہوا، خود کو سنبھالتے ہوئے اس نے آنکھوں پر چشمہ لگایا، کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد وہ زمین پر بچوں کی طرح بیٹھ گئی، وہ ٹوٹے شیشے کے فریم میں لگی تصویر پر خود کا عکس دیکھ رہی تھی، آنسو اس کی آنکھ سے نکلتے، ٹھوڑی سے ہوتے ہوئے بارش کی بوندوں کی مانند ٹوٹے ہوئے شیشے کے فریم پر جا گرتے تھے، احمر.... یہ احمر کی تصویر تھی، اس نے تصویر کو گلے لگایا اور وقت اسے ماضی میں لے گیا۔
ماضی کی ایک تصویر جس میں وہ دونوں سمندر کے کنارے نم مٹی پر دونوں چل رہے تھے، براؤن آئیز پر سمندر کی گہرائی کی مانند سیاہ گہرا کاجل، سیاہ بالوں میں گولڈن اسڑیکنگ، ریڈ شاٹ شرٹ کے نیچے پینٹ اسٹائل ٹراؤزر، گلے میں سفید ڈوپٹہ جس کے دونوں پلو ہوا سے جھول رہے تھے، گھنی پلکوں کے اوپر آئی لائنر بڑی نفاست سے لگا ہوا، گلاب کی پتیوں کی مانند سرخ لپ اسٹک سے بھرے ہوئے ہونٹ، اور جب وہ مسکراتی تو کانوں میں ڈالے ہوئے ائیر رنگز جھومنے لگتے۔
احمر کا ہاتھ تھامے وہ چلتی جا رہی تھی، سمندر کی لہریں آتیں اس کے ملائم پاؤں کو چھو کر گزر جاتیں۔ سورج ڈوب رہا تھا، سمندر محبت کے فسانے سنا رہا تھا، ہر چیز جیسے جامد تھی، ایک خوبصورت سی اونٹنی کی نکیل پکڑے ایک صاحب گزرے، احمر کو اونٹنی کی سواری کا بے حد شوق تھا لیکن کنول کبھی نہیں بیٹھی تھی، احمر نے انٹنی کی سواری کی خواہش ظاہر کی مگر وہ زیر لب مسکرائی، ’’آپ جانتے ہیں نا مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ خفگی بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا کہ کنول نے اس کی خفگی کے ڈر سے فوراً اس کا ہاتھ پکڑا اور سوار ہوگئی، ٹوٹنے والی یہ تصویر اسی وقت لی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : مدفن آرزو
باہر دروازہ مسلسل بج رہا تھا اور وہ ابھی تک احمر کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی اور اسے اپنے ساتھ محسوس کرسکتی تھی، آخر وہ اس کا ہم سفر تھا اور آج اس کی شادی کی ۲۵؍ ویں سالگرہ تھی، احمر کو دنیا چھوڑے کئی برس ہو چکے تھے لیکن اس کی یاد ابھی بھی کنول کے دل میں زندہ تھی، دروازے پر پھر دستک ہوئی اس نے آنکھیں کھو لیں، تصویر تکیے کے نیچے رکھی اور ’’کون؟‘‘ کی آواز لگائی۔
پروین اندر داخل ہوئی، ’’باجی کیا ہوا آپ کے پاؤں سے خون کیوں بہہ رہا ہے؟‘‘ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کے پاؤں کو دیکھ رہی تھی جو خون سے بھر چکا تھا اور خون کی بوندیں زمین پر گر رہی تھیں، پروین نے ناشتے کی ٹرے ٹیبل پر رکھی اور واپس چلی گئی۔
کنول پاؤں پر پٹی باندھنے لگی لیکن وہ ٹوٹی ہوئی تصویر پکڑے نہ جانے کب تک دیکھتی رہی کہ یہ اس کی زندگی کی کل متاع تھی۔