گزشتہ دنوں یوپی حکومت نے ایک فرمان جاری کیا تھا کہ کانوڑ یاترا کے روٹ پر آنے والی دکانوں کے مالکان اپنا نام واضح طورپر لکھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غیر اُردو اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے۔
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 4:27 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
گزشتہ دنوں یوپی حکومت نے ایک فرمان جاری کیا تھا کہ کانوڑ یاترا کے روٹ پر آنے والی دکانوں کے مالکان اپنا نام واضح طورپر لکھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غیر اُردو اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے۔
کیا ہم بھی نازی دور میں جارہے ہیں ؟
ہندی روز نامہ’ `دو بجے دوپہر‘ ۲۲؍ جولائی کے اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’اترپردیش پولیس نے مغربی یوپی اور مظفر نگر میں کانوڑ یاترا کے روٹ پر کھانے پینے کی دکانوں پر مالکان کے نام کا بورڈ لگانے کا فرمان جاری کیا تھا۔ کانوڑ یاترا کے حوالے سے ماضی میں کئی طرح کے مذہبی تعصبات دیکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر کانوڑ یاترا کیلئے تقریباً ۳۳؍ ہزار درخت کاٹنے کا متنازع فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ سڑک کی توسیع ہوجائے اور عقیدت مندوں کو سہولت فراہم ہو۔ جب درختوں کی کٹائی کے سبب احتجاج درج کروایا گیا تو نیشنل گرین اتھاریٹی نے ان علاقوں کی سیٹیلائٹ تصاویر طلب کیں لیکن اس کارروائی کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل یوپی کے ایک ڈی جی پی نے سرکاری ہیلی کاپٹر سے کانوڑیوں پر پھول برسائے تھے جوکہ انتظامی ذمہ داری اور اخلاقیات کی سرا سر خلاف ورزی تھی۔ حکومت کے ان فیصلوں کو ذہنی دیوالیہ پن کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہےلیکن اب جو فیصلہ کیا گیا ہے، وہ ایک کھلا انتباہ ہے کہ ہندوستان کو تیزی سے نازی دور والے جرمنی کی سمت لے جایا جارہا ہے۔ ۱۹۳۸ء میں ہٹلر نے جرمنی کے یہودیوں کیلئے مخصوص شناختی نشان جاری کیا تھا جس کے بعد ۱۹۳۹ء اور ۱۹۴۵ءکے درمیان یہودی پیلے رنگ کے تارے والے بیجز پہنتے تھے تاکہ ان کی الگ شناخت کی جا سکے۔ اس کے بعد ان کی آبادی کو شہر بدر کردیا گیا۔ جو یہودی اپنی شناخت ظاہر کرنے والے بیجز کو نہیں پہنتے تھے، انہیں ذلیل کرکے سزا دی جاتی تھی۔ سو سال قبل علاحدہ پہچان کے نام پر یہودیوں کے ساتھ جرمنی میں جو کچھ ہوا، کیا آج کے ہندوستان میں بھی وہی سب کچھ ہوگا؟ویسے اتر پردیش پولیس کے دکانوں کے مالکان کے نام لکھنے کے حکم کی چہار جانب سے مذمت ہونے لگی ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: ضمنی انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد کی کامیابی نے بی جے پی کوبوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے
آئین نے جس سیکولرازم کو تسلیم کیا تھا، وہ کہیں کھو گیا ہے
ہندی روز نامہ’ نو بھارت‘ نے۲۰؍ جولائی کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’ملک کے آئین نے جس سیکولرازم کو تسلیم کیا تھا، وہ کہیں کھو گیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں بنیاد پرست نظریات کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے۔ جو جمہوری روح کے منافی ہے۔ اگر کوئی پارٹی مسلمانوں یا عیسائیوں کو اپنا امیدوار نہیں بناتی تو یہ اس کی اپنی سوچ ہوسکتی ہےلیکن عوامی زندگی میں مذہبی منافرت پیدا کرنا اور تفریق پھیلانا قطعی درست نہیں ہے۔ ایسا تنگ نظریہ قابل مذمت ہے۔ اس قسم کا نظریہ ہندوستان کی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے اور علاحدگی پسندی کی جانب لے جاتا ہے۔ ایسے اقدامات سے قومی یکجہتی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یوپی اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہ پارٹی اپنے آپ کو ہندوتوا کی علمبردار سمجھتی ہے، ٹھیک ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں کے تئیں بیگانگی، نفرت اور بائیکاٹ کی لہر پیدا کرنا کس حد تک مناسب ہے؟ہرسال ساون کے مہینے میں کانوڑ یاترا کی روایت رہی ہے۔ اس یاترا میں کانوڑیئے ہری دوار سے کانوڑ میں گنگا جل لے کر لوٹتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں اس یاترا کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب اس یاترا میں موسیقی، شور شرابہ اور نعرے بازی کے ساتھ ایک جنونی کیفیت بھی دیکھی جارہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نظام ٹھپ پڑ جاتا ہے گویا سڑک صرف کانوڑیوں کیلئے ہی بنائی گئی ہے۔ اس یاترا میں ہر قسم کے لوگ شامل رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کبھی کبھار دکانوں سے کھانے پینے کی اشیاء یا دیگر ضروری اشیاء چھین لیتے ہیں اور پیسے مانگنے پر لڑنے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ عقیدہ اپنی جگہ مگر اب اس میں جنونی پن نظر آنے لگا ہے۔ خصوصا غیر ہندوؤں کے ساتھ زیادہ تنازع ہوتا ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے نام پر یوپی کے وزیر کپل دیو اگروال نے مظفر نگر میں ضلعی سطح کی میٹنگ بلائی اور خبردار کیا کہ مسلمان کسی بھی تنازع سے بچنے کیلئے اپنی دکانوں کے نام ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نہ رکھیں۔ کانوڑ کے راستے میں دکانوں اور ڈھابوں کےمالکان اپنے نام کا بورڈ لگائیں۔ انتظامیہ نے دلیل دی کہ اس قدم کا مقصد کانوڑیوں کا کنفیوژن دور کرکے امن و امان کو یقینی بنانا ہےلیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یوپی اور اتراکھنڈ میں عوام کے درمیان نفرت کی دیوار اور گہری ہوجائے گی نیز مسلم کاروباریوں کا مالی نقصان بھی ہوگا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سنڈے اسپیشل: کیا یوگی کو ہٹایا جائے گا؟ اس میں بی جے پی کا کتنا فائدہ، کتنا نقصان؟
بات ہندو مسلم کی نہیں، ذات پات کی بھی ہے
مراٹھی اخبار ’لوک مت‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’مذہبی اور ثقافتی اہمیت کی حامل کانوڑ یاترا سے کبھی ذات پات اور مذہبی تنازع کھڑا نہیں ہوا تھالیکن اس مرتبہ یوپی سرکار کے متنازع فیصلہ کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ ہری دوار اور گنگوتری کے مختلف مقامات سے یہ یاترا نکلتی ہے۔ یوپی کے علاوہ دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش اورہریانہ وغیرہ کے مختلف علاقوں سے کانوڑ یاترا گزرتی ہے۔ امسال یوپی حکومت نے کانوڑ یاترا کے روٹ پر واقع ہوٹل مالکان اور دکان داروں کو اپنا نام جلی حروف میں لکھنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ نیز ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین اور باورچیوں کے نام کا بورڈ لگانا بھی لازمی قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے ہوٹل ویج کھانے کے ساتھ نان ویج کھانے بھی فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ ہوٹل مالکان مسلمان ہوتے ہیں جن کی شناخت نہیں ہو پاتی ہے، ا سلئے کانوڑ یاترا میں شامل لوگوں کو نادانستہ طور پر ایسے ہوٹلوں میں جانا پڑتا ہےجہاں نان ویج کھانا بنتا ہے۔ اسے روکنے کیلئے ریاستی حکومت نے ہوٹلوں کے داخلی دروازے پر نام لکھنے کی شرط عائد کی ہے تاہم یہ صرف ہندو، مسلم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بات ذات پات کی بھی ہے کیونکہ بہت سے اعلیٰ ذات کے ہندو، دلت یا دیگر پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہوٹلوں میں کھانا تناول فرمانا پسند نہیں کرتےہیں۔ ‘‘
سپریم کے بروقت فیصلے نے معاملہ سنبھال لیا
انگریزی روز نامہ’ دی ہندو‘ لکھتا ہے کہ’’ پیر کے روز سپریم کورٹ نے اترپردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کی طرف سے جاری کردہ ان ہدایات کے نفاذ پر روک لگا دی ہےجو کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع کھانے کے ہوٹلوں کیلئے ضروری تھیں۔ درخواست گزاروں نے دلیل دی تھی کہ ان ہدایات سے ملک کے سیکولر کردار کی نفی کے علاوہ امتیازی نتائج برآمد ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے کانوڑ یاترا کے راستے میں آنے والی ریاستوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ یاترا دلت اور دیگر پسماندہ طبقات میں بھی تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ پچھلے ہفتہ مظفر نگر پولیس نے متنازع ہدایات جاری کی تھیں جس میں کہا گیا تھاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کیلئے ایسا کیا گیا ہےلیکن اس اقدام کی نوعیت بہت جلد واضح ہوگئی۔ اپوزیشن کے ساتھ این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں نے بھی اس پر تنقید کی۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے متنازع حکم کو پورے راستے کیلئے نافذ کردیا۔ پڑوسی ریاست اترا کھنڈ، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، نے بھی اس کی پیروی کی۔ بہرحال سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے وقت رہتے معاملے کو سنبھال لیا۔ ‘‘