۱۵؍ سال تک بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہنے والی شیخ حسینہ کو اچانک نہ صرف اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا بلکہ ملک بھی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
EPAPER
Updated: August 12, 2024, 4:01 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
۱۵؍ سال تک بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہنے والی شیخ حسینہ کو اچانک نہ صرف اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا بلکہ ملک بھی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
بنگلہ دیش میں انتقامی سیاست کا خاتمہ
مراٹھی اخبار’نو شکتی‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’پوری دنیا پر کسادبازاری کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ امریکہ جیسا سپر پاور ملک بھی کسادبازاری کا شکار ہے۔ امریکہ بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلہ سے نبرد آزما ہے، ایسے میں ہندوستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کا کیا ہوگا؟پچھلے چند برسوں میں بنگلہ دیش کے ۱۷؍ کروڑ عوام مہنگائی سے حد درجہ پریشان ہیں۔ وہاں بے روزگاری اور مہنگائی کا گراف تیزی سے اوپر جارہا ہے جبکہ نوکریاں ندارد ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے اس سال بنگلہ دیش میں غربت کا انڈیکس کافی بلند رہا۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے بنگلہ دیش کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایسے میں ملک کی ۷۶؍ سالہ وزیر اعظم شیخ حسینہ، جو پچھلے ۱۵؍ سال سے اقتدار میں تھیں، نے اپنے من مانا فیصلوں سے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ انہوں نے اقتدار کے نشے میں ایسے کام کئے جس کی وجہ سے ان کا مستقبل اور زندگی دونوں ہی داؤ پر لگ گئے۔ بنگلہ دیش میں جو حالات پیدا ہوئےہیں، وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ جو لوگ حکومت کی انصافیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، انہیں دیش دروہی، آزادی مخالف قرار دے کر جیلوں میں ڈالا یا غائب کردیا جارہا تھا۔ اس سے شیخ حسینہ کی آمرانہ حکمرانی نمایاں ہورہی تھی۔ ۲۰۱۸ء میں شیخ حسینہ نے ۱۹۷۱ء کی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے خاندانوں کیلئے ملازمتوں میں ۳۰؍ فیصد ریزرویشن کا منصوبہ متعارف کروانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے پیچھے بنیادی مقصد اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں کو نوکریاں دینا تھا۔ اُس وقت حکومت کے متنازع فیصلہ کے خلاف ملک بھر کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کردیا تھا۔ بالآخر حکومت کو یہ منصوبہ سرد خانے میں ڈالنا پڑا لیکن ایک بار پھر شیخ حسینہ نے اس متنازع فیصلے کو نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس بار بھی ملک بھر کی طلبہ تنظیمیں اور عوام سڑکوں پر اتر آئے جس کی وجہ سے شیخ حسینہ کو نہ صرف استعفیٰ دینا پڑا بلکہ وہ ملک سے فرار بھی ہوگئیں۔ انہوں نے۱۵؍ سال تک انتقامی سیاست کی اور اب وہی ان کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ ‘‘
بنگلہ دیش کو مشکل حالات کا سامنا
مراٹھی اخبار ’ لوک مت‘ نے ۶؍ اگست کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’مسلسل ۱۵ سال تک اقتدار میں رہنے والی عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ کے خلاف طلبہ اور نوجوان نے ایسا احتجاج شروع کیا کہ انہیں ملک سے راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ گزشتہ جنوری میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کی وجہ سے عوامی لیگ پارٹی زعم میں مبتلا ہوگئی۔ بنگلہ دیش میں شروع سے شیخ مجیب الرحمان کے وارث ہی مخصوص نشستوں کا فائدہ اٹھاتے ر ہے۔ آمریت کیلئے ۵۰؍ سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ محفوظ نشستوں کا فائدہ صرف عوامی لیگ کو نہیں ملنا چاہئے، اس پالیسی کے خلاف طلبہ کی مختلف تنظیموں نے تحریک چلائی۔ جب وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بات چیت کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا تو طلبہ کا غصہ ابل پڑا۔ یکم جولائی سے طلبہ نے اسے ایک وسیع تحریک کی شکل دی۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج اورفائرنگ کی گئی جس میں ۶؍ لوگ مارے گئے۔ دریں اثناء وہاں کےسپریم کورٹ نےایک فیصلے میں کُل ۵۶؍ فیصد ریزرویشن میں سے ۵؍ فیصد مجاہدین آزادی کے ورثا کیلئے اور ایک ایک فیصد معذروں اور قبائلیوں کیلئے مختص کردیالیکن اس کا فیصلہ آنے میں بہت دیر ہوچکی تھی۔ جب طلبہ کے مظاہرے شروع ہوئے تو حکومت نے بیان دیا کہ مظاہرین طلبہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔ اس کے نتیجے میں پچھلے اتوار کو ہزاروں نوجوانوں نے’ `چلو ڈھاکہ‘ اور’ ` عدم تعاون تحریک‘ میں حصہ لیا۔ بنگلہ دیشی فوج عوامی لیگ کے ایجی ٹیشن سے نمٹنے کے طریقہ سےمطمئن نہیں تھی۔ جب صورتحال سنگین ہوگئی تو آرمی چیف نے بیان جاری کردیا کہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف گولی کا استعمال کرنا جائز نہیں۔ حالات ہاتھ سے نکلتے دیکھ فوج نے مداخلت کی۔ اتوار کے تشدد کے بعد مشتعل مظاہرین نے وزیراعظم شیخ حسینہ کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا۔ مسلسل بگڑتے حالات کے سبب انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اگرچہ شیخ حسینہ نے ملک کو آگ کے حوالے کرکے راہ فرار اختیار کرلی ہے لیکن بنگلہ دیش کو اپنی سابقہ پوزیشن میں آنے کیلئے کئی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:ایس سی ایس ٹی ریزرویشن پرعدالتی فیصلےکو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے
شیخ حسینہ کو کئی الزامات کا سامنا
ہندی روز نامہ’جن ستہ‘ نے۶؍ اگست کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں پچھلے کچھ عرصے سے طلبہ کے احتجاج کے دوران حکومت کے سخت رویے اور سیکورٹی فورسیز کی کارروائی میں کئی سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے خلاف عوامی اشتعال کے پیش نظر پہلے ہی سے خدشہ تھا کہ وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پولیس اور سیکوریٹی فورسیز کی سخت کارروائیوں کی وجہ سے مظاہرین کا غصہ اس حد تک بھڑک اٹھا کہ ہجوم نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر قبضہ کرلیا بعد ازاں فوج کو یقین دہانی کرنی پڑی کے وہ حالات کو قابو میں کر لے گی۔ مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کے درمیان شیخ حسینہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یقیناً تشدد اور انارکی کسی مسئلے کا حل نہیں ہےلیکن شیخ حسینہ کی حکومت کے رویے سے یہ بات واضح تھی کہ عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی سے نمٹنے کیلئے اس کے پاس دور اندیشی نہیں تھی اور ایسے فیصلے تواتر کے ساتھ لئے جارہے تھے جس سے حکومت کی آمریت نمایاں تھی۔ ریزرویشن کے مسئلے پر اُبھرنے والی طلبہ کی تحریک کو بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کی ایک فوری وجہ ضرور قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس کا پس منظر کافی عرصہ سے تشکیل پا رہا تھا۔ شیخ حسینہ ۲۰۰۹ء سے اقتدار میں ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے درمیان پچھلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ ان پر سرکاری اداروں کا غلط استعمال کرنے، طاقت کے زور پر احتجاج کو دبانے اور اپوزیشن کے کارکنان کو قتل کرنے کا بھی الزام ہے۔ ‘‘
شیخ حسینہ نے نوشتہ ٔدیوار پڑھنے کی کوشش نہیں کی
انگریزی روز نامہ’دی انڈین ایکسپریس‘ لکھتا ہے کہ ’’بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا زوال صرف ان لوگوں کیلئے حیرت کا باعث ہے جو نوشتۂ دیوار پڑھنا نہیں چاہتے۔ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ نے جنوری میں مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی مگر حزب اختلاف کی اہم جماعتوں کے بائیکاٹ اور مبینہ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگے۔ اپوزیشن کے لیڈروں کی گرفتاریاں، اختلاف رائے کو دبانا اور آزادی اظہار پر کریک ڈاؤن۔
پچھلی چند دہائیوں سے شیخ حسینہ کی آمرانہ طرز حکمرانی کی پہچان بن گیا تھا۔ ترقی کا اشاریہ جو کبھی شیخ حسینہ کا ٹرمپ کارڈ ہوا کرتا تھا اب اپنی چمک کھونے لگا تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بنگلہ دیش کی معیشت جنوبی ایشیا میں سب سے تیز ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے تاہم اس ترقی سے ملک کی ۶۰؍ فیصد آبادی مطمئن نہیں تھی۔ کاروباری ادارے ابھی تک کووڈ کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ پچھلے چند مہینوں سے بنگلہ دیش انتشار اور بدامنی کے سنگین واقعات کی زد میں تھا۔ سرکاری ملازمتوں میں ۳۰؍ فیصد ریزرویشن کے خلاف ہونے والا پر امن احتجاج ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ملک گیر بدامنی کا شکار بن گیا۔ ‘‘