ساس اور بہو دونوں ہی کو روایتی ساس اور بہو بننے کے بجائے آج کل کے دور میں سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کو دل سے قبول کرنا چاہئے۔ اگر ساس اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دے تو بہو بھی ساس کو اپنی ماں کا درجہ دے گی۔ تب یہ مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا مگر ایسا ہوتا نہیں ہے جو افسوس کا مقام ہے
ساس اور بہو دونوں ہی کو اپنی اپنی حدود کا علم ہونا چاہئے تاکہ فیملی کے ممبران کی زندگی بھی پُرسکون انداز میں گزر سکے۔ تصویر: آئی این این
ساس بہو کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ جب بھی آپ ساس کا نام سنیں گے تو آپ کے ذہن میں ایک ظالم عورت کا تصور آنے لگتا ہے۔ ساس ظالم نہیں ہوتی ہے لیکن اس رشتہ کو اس قدر متنازع بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ماں کس قدر مقدس رشتہ ہے اور ساس بھی تو آخر کسی کی ماں ہوتی ہے۔
ساس بہو کا رشتہ ازل سے ہی متنازع دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ساس کے دل میں اپنے بیٹے کی شادی کرتے ہی یہ خیال آتا ہے کہ اس کا بیٹا اب سے چھن گیا ہے یہ خیال آتے ہی وہ پریشان ہوجاتی ہے اور یہ سوچتی ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والی یہ دوسری عورت (اِس کی بیوی) اس سے اِس کے بیٹے کو چھن کر لے گئی ہے اسے وہ سارے دن یاد آتے ہیں جب اس کے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی اس نے اسے پال پوس کر جوان کیا تھا۔ اس کے لئے ہر مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ اچھے، بُرے دن دیکھے تھے پڑھا لکھا کر معاشرے کا ایک اہم اور ذمہ دار شخص بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پھر اس کے لئے چاند جیسی دلہن تلاش کرنے میں در در کی خاک چھانی تھی۔ وہی دلہن اِس سے اُس کے بیٹے کو دور کر دے گی اس کے باوجود وہ بڑے پیار، محبت اور بڑی چاہت سے اپنے بیٹے کے لئے چاند جیسی دلہن تلاش کرتی ہے۔ اگر وہ اس بہو کو اپنے دل میں جگہ دے دے تو حالات خود بخود بہتر ہوجائیں گے۔ ہماری نظر میں سارا قصور ساس ہی کا ہوتا ہے ایسا نہیں ہے۔ بہت سے معاملات میں بہو بھی قصور وار ہوتی ہے جو اپنی ساس کو کبھی اپنی ماں نہیں سمجھتی ہے اور کبھی یہ نہیں سوچتی ہے کہ اس کی ساس بھی اس کے شوہر کی ماں ہونے کے ناطے اس کی بھی ماں ہے۔ بہو یہ سوچ لے تو وہ اپنی ساس اور شوہر کے دل میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکتی ہے۔ بہو کے دل میں بھی وہی عزت اور مقام ہونا چاہئے جو اس کی نظر میں اس کی اپنی ماں کے لئے ہوتا ہے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ساس بہو کے اس رشتہ میں تناؤ اور کھنچاؤ کی محض یہی وجہ ہے کہ ساس بہو کو بیٹی کا درجہ نہیں دیتی ہے اور بہو ساس کو ماں کا درجہ نہیں دیتی۔ اگر یہ دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کر دیں تو یقیناً پچاس فیصد تنازعات خود بخود ختم ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: لوگوں کی جملے بازی پر صبر اور حکمت کا مظاہرہ
بعض گھرانوں میں بہو یہ سمجھ کر آتی ہے کہ جس سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ صرف اس کا شوہر ہے وہ نہ تو کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی کسی کا بھائی، اس صورتحال سے گھر کے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے اور حالات سدھرنے کے بجائے بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ بہو کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ اس کا شوہر تو بعد میں بنا ہے اس سے پہلے تو وہ کسی کا بیٹا اور کسی کا بھائی ہی تھا۔ بیٹا اور بھائی ہونے کے حوالے سے اس پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ اس کے شادی ہونے سے ختم تو نہیں ہوئیں البتہ شادی کے بعد اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ضرور ہوگیا ہے اب وہ بیٹے اور بھائی کے ساتھ ساتھ شوہر کی ذمہ داریاں بھی اٹھا رہا ہے۔ بہو اس وقت آواز اٹھا سکتی ہے جب اس کا شوہر، بیٹا اور بھائی بن کر تو اپنی ذمہ داریاں عمدگی سے نبھا رہا ہے مگر بحیثیت شوہر اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہا ہے تب تو اس کی بیوی کو حق ہے کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائے لیکن اگر شوہر اس کے حقوق کو بھی پورے کر رہا ہے اور بیٹے اور بھائی کی ذمہ داریاں بھی اچھے طریقے سے نبھا رہا ہے تو پھر اسے اس کی راہ میں رکاوٹیں نہیں پیدا کرنی چاہئے۔
یہ بھی پرھئے: بھائی بہنوں کے ساتھ بڑھنے والے بچے صحتمند ہوتے ہیں
اس بات سے تو انکار نہیں ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ساس اور بہو دونوں ہی کو اپنی اپنی حدود کا علم ہونا چاہئے تاکہ فیملی کے ممبران کی زندگی بھی پُرسکون انداز میں گزر سکے۔ ساس اور بہو کے جھگڑوں سے صرف یہ دونوں ہی نہیں بلکہ بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ فیملی کے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ساس اور بہو دونوں ہی کو روایتی ساس اور بہو بننے کے بجائے آج کل کے دور میں سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کو دل سے قبول کرنا چاہئے۔ اگر ساس اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دے تو بہو بھی ساس کو اپنی ماں کا درجہ دے گی۔ تب یہ مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا مگر ایسا ہوتا نہیں ہے دونوں ہی اپنی اَنا پر قائم رہتے ہیں۔ جب تک دونوں ایک دوسرے کو برداشت کرنا نہیں سیکھیں گی یہ مسئلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ لڑکی کو میکے سے ہی یہ تربیت ملنی چاہئے کہ وہ ساس کو اپنی ماں سمجھے تاکہ لڑکی جب سسرال میں قدم رکھے تو اس کا ذہن پہلے سے تیار ہو کہ اسے گھر کو بنا کر چلنا ہے یہی تربیت اس وقت بھی کام آسکتی ہے جب وہ بہو سے ساس کا روپ دھارے گی یقیناً ایک اچھی بہو کے ساتھ ساتھ وہ اچھی ساس بھی ثابت ہوسکے گی۔
ساس بہو کا مسئلہ اتنا بڑا ہے نہیں جتنا کہ بنا دیا گیا ہے۔ دونوں اپنے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کریں اور اپنی فیملی کو اس روایتی جنگ سے بچائے رکھیں تو یقیناً ہر گھر کا ماحول خوشگوار ہوسکتا ہے اور معاشرہ میں نئی مثال قائم ہوسکتی ہے۔