ہمارے سماج میں اکثر فربہ جسم (موٹے) افراد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اُنہیں چار لوگوں کے درمیان بیٹھنے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ بعض دفعہ موٹاپے کا مذاق اڑانے پر وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کے متعلق ہمیں سوچنا ہوگا اور یہ عزم کرنا ہوگا کہ آئندہ کبھی کسی کی شکل و صورت موٹے دُبلے کا مذاق نہیں اڑائینگے
اللہ نے ہمیں جیسا بنایا ہے ہم ویسے ہی بہت خوبصورت ہیں، اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔تصویر: آئی این این
اس دنیا میں ویسے تو بہت سے مسائل ہیں جو ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بہت سے مسائل ہمارے خود کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ اور کچھ کمی ہمارے اندر قدرت کی طرف سے ہوتی ہے۔ جس کو دور کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ انہی مسائل میں سے ایک ہے ہماری جسمانی ساخت جو قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ اللہ نے ہمیں جیسا بنایا ہے ہم ویسے ہی بہت خوبصورت ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ہر کسی کا اپنا معیار ہے۔ ہر کسی کے حسن کی پیمائش الگ الگ ہوتی ہے۔ گوکہ باڈی شیمنگ مرد و خواتین، دونوں کی ہوتی ہیں۔ تاہم، خواتین پر یہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ چونکہ مرد اگر پڑھ لکھ جائیں اچھی ڈگری ہو اچھا پیسہ ہو تو کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ لیکن خواتین کچھ بھی کرلیں اگر شکل و صورت اچھی نہ ہو تو لوگ انہیں قبول نہیں کرتے۔ کوئی موٹی ہے کوئی پتلی ہے کسی کا قد لمبا ہے تو کسی کا چھوٹا۔ اسی طرح کچھ لوگ گورے چٹے ہوتے ہیں کچھ سانولے اور کچھ کالے۔ اور ہم لوگ اپنے اپنے حسن کے معیار سے کسی کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں تو کسی کی اس قدر تضحیک کر دیتے ہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ ہر کسی پر طنز کرنا یا رائے قائم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں فکر نہیں کی جاتی کہ سامنے والے پر ہماری باتوں کا کیا اثر ہو رہا ہے یا وہ کیا محسوس کر رہا ہے؟ بعد میں ہم کہہ دیتے ہیں کہ بھئی برا نہیں ماننا، یہ تو محض ایک مذاق تھا۔ مگر اس قسم کے مذاق سے سامنے والی کی تحقیر ہوتی ہے۔ ہم اگر خوبصورت ہیں تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ یہ تو اللہ کا احسان ہے جس کا ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے۔ اور کسی میں کوئی عیب ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اس عیب کا احساس اس انسان کو خود بھی ہوتا ہے مگر لوگ تنقید کا نشانہ بنا کر اسے مزید احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سسرال والے نئی بہو کا استقبال خوش دِلی سے کریں
ہمارے سماج میں اکثر فربہ جسم (موٹے) افراد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انہیں چار لوگوں کے درمیان بیٹھنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی۔ بعض دفعہ موٹاپے کا مذاق اڑانے پر وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کا مذاق اڑانے والے لوگ کبھی سامنے والے کے جذبات نہیں سمجھ سکتے۔ دوسروں کو جسمانی ساخت کی بنیاد پر طنز و مذاق کا نشانہ بنانے کے اس رویہ کے حوالے سے ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ اکثر باڈی شیمنگ کا نشانہ بننے والا فرد اپنی زندگی میں بہتری لانے کے بجائے مزید ذہنی مسائل اور الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے افراد جو دوسروں کی جانب سے مذاق کا نشانہ بنائے جانے پر شدید ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ فربہ افراد کو ان کی جسامت کے باعث انتہائی ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باعث ہونے والے تناؤ میں انتہائی درجہ کی عزت نفس کی کمی، ڈپریشن اور کھانے سے متعلق غیر معمولی عادات کی وجہ بنتا ہے۔ جو نہ صرف وزن بڑھا دیتا ہے بلکہ کئی جسمانی بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔
بار بار باڈی شیمنگ کا نشانہ بننے والا انسان تنگ آکر اپنی کوشش بھی چھوڑ دیتا ہے اور لوگوں کے سامنے آنے سے بھی کترانے لگتا ہے۔ اور اس کے اعتماد میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی رنگت گہری ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم خوبصورت نہیں ہو اور اس وجہ سے تمہاری شادی ہونے میں دقت ہوسکتی ہے۔ اس قسم کے جملے نہ جانے کتنے لوگوں کو اور نہ جانے کتنی بار برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف لوگوں کو ان کی کمی کا احساس دلانا ہے۔
لوگ بولنے کو تو بول دیتے ہیں لیکن سننے والے کی کیفیت کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ جس چیز کو بنانے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں اس پر کیوں بحث کرنا۔ لوگوں کو جو منہ میں آتا ہے وہ بول دیتے ہیں اور آگے سے یہ امید کرتے ہیں کہ سننے والا کوئی ردعمل نہ دے۔ اور اگر سننے والا کوئی جواب دیدے تو وہ خود ہی مظلوم بن جاتے ہیں۔ اور بہانے بنانے لگتے ہیں کہ میرے کہنے کا مقصد دل دکھانا نہیں تھا۔ مَیں تو بس محبت اور ہمدردی میں کہہ رہا تھا یا کہہ رہی تھی۔ حالانکہ ان کے بولنے کا مقصد نہ تو خیرخواہی ہوتی ہے اور نہ ہی اصلاح کی کوشش۔ وہ صرف اور صرف طنز کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سردیوں میں موئسچرائزر خریدتے وقت ان باتوں کا دھیان رکھیں
ہمارے پاس مذاق کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دوسروں کا مذاق اڑانا کیونکہ ہمیں مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں کبھی امتیاز کرنا آیا ہی نہیں۔ اخلاقی اقدار کا ڈھنڈورا پیٹنے اور سننے میں ہماری عمریں گزر گئیں۔ لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے ہم سب سے پہلے ان ہی اقدار کو پامال کرتے ہیں۔ اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ جائز ہے۔
اس کے متعلق ہمیں سوچنا ہوگا اور یہ عزم کرنا ہوگا کہ آئندہ کبھی کسی کی شکل و صورت موٹے دُبلے ہونے کا مذاق نہیں اڑائینگے۔ ہمارا مقصد لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنا ہونا چاہئے تاکہ جو آپ پر اور ہم پر گزر رہی ہے اس کا شکار ہمارے آس پاس کے لوگ نہ ہوں اور ہماری اگلی نسل ان فضولیات سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لے۔