لانسیٹ گلوبل ہیلتھ کمیشن کی تازہ رپورٹ، عالمی سطح پر پہلی ایسی رپورٹ ہے جو طبی آکسیجن کی غیر مساوی تقسیم پر روشنی ڈالتی ہے اور ضرورت مند مریضوں کی محرومی اور اس خلاء کو پر کرنے کیلئے درکار اخراجات کا تخمینہ پیش کرتی ہے۔
EPAPER
Updated: February 11, 2025, 10:09 PM IST | Inquilab News Network | London
لانسیٹ گلوبل ہیلتھ کمیشن کی تازہ رپورٹ، عالمی سطح پر پہلی ایسی رپورٹ ہے جو طبی آکسیجن کی غیر مساوی تقسیم پر روشنی ڈالتی ہے اور ضرورت مند مریضوں کی محرومی اور اس خلاء کو پر کرنے کیلئے درکار اخراجات کا تخمینہ پیش کرتی ہے۔
لانسیٹ کمیشن کی ایک تازہ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا میں تقریباً ۵ ارب افراد یعنی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ۲ تہائی حصہ، طبی آکسیجن تک رسائی سے محروم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں صورتحال مزید سنگین ہے کیونکہ زیادہ عدم مساوات کے باعث وہاں آبادی کے بڑے حصہ کو اس طبی سہولت تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ طبی آکسیجن، حفظانِ صحت کے نظام میں سرجری، دمہ، صدمہ اور زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال والے یونٹ میں علاج کیلئے نہایت ضروری ہے۔ محققین کی ایک ٹیم نے بتایا کہ عوام کی طبی آکسیجن تک رسائی، کووڈ-۱۹ کے دوران آکسیجن کی قلت اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے اور ملک کی وبائی امراض کے خلاف تیاری کیلئے بھی اہم ہے۔
میڈیکل آکسیجن سیکیوریٹی پر لانسیٹ گلوبل ہیلتھ کمیشن کی تازہ رپورٹ، عالمی سطح پر پہلی ایسی تحقیق ہے جس میں طبی آکسیجن کی غیر مساوی تقسیم کو بتایا گیا ہے، اور ضرورت مند مریضوں کی محرومی اور اس خلاء کو پر کرنے کیلئے درکار اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سوڈان میں غذائی قلت کا شکار ہو کر بیمار پڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ
اس تحقیق میں، محققین نے بتایا کہ دنیا میں ۸۲ فیصد مریض، جنہیں طبی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں اور تقریباً ۷۰ فیصد مریض جنوبی اور مشرقی ایشیا، بحرالکاہل اور سب صحارا افریقہ کے خطوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان مریضوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں طبی علاج اور آپریشن کی شدید ضرورت ہے اور جنہیں دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری کی وجہ سے طویل مدت تک آکسیجن کی ضرورت ہے۔ تاہم، طبی پیچیدگیوں اور آپریشن کیلئے ہر ۳ افراد میں سے ایک سے بھی کم فرد کو آکسیجن مل پاتی ہے جبکہ طبی سہولت کے رابطہ، تیاری، فراہمی اور معیار میں فرق کی وجہ سے تقریباً ۷۰ فیصد مریض طبی آکسیجن حاصل نہیں کر پاتے۔ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق، چند خطوں جیسے سب صحارا افریقہ (۹۱ فیصد) اور جنوبی ایشیاء (۷۸ فیصد) میں یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل پر جان بوجھ کر غزہ میں امداد پہنچانے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کئی سفارشات بھی پیش کی ہیں جن پر غور کرکے حکومتیں، صنعت، عالمی صحت کی ایجنسیاں، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی مل کر طبی آکسیجن تک رسائی کو یقینی بنانے اور طبی نظام کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کرسکتی ہیں۔ مصنفین نے مزید کہا کہ عالمی صحت عامہ کو آگے بڑھانے کیلئے، طبی آکسیجن میں سرمایہ کاری انتہائی مؤثر ثابت ہوگی جو ۲۰۳۰ء تک نظامِ صحت کی پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے دنیا کی پیش رفت کو تیز کرے گی اور ممالک کو اگلی وبائی بیماری کے خلاف تیاری میں بھی مدد کرے گی۔