Updated: October 29, 2024, 10:51 PM IST
| Hague
بین الاقوامی عدالت انصاف پر اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنےکے تعلق سے سست روی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ جہاں یوکرین جنگ پر روسی صدر کے خلاف ۲۴؍ دنوں میں گرفتاری وارنٹ جار ی کر دیا گیا تھا ، وہیں نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری وانٹ کی درخواست کے ۵؍ ماہ بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، جبکہ مختلف عوامل کے بہانے اسے طول دیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف( آئی سی سی ) کو منافقت کے الزام کا سامنا ہے۔جس کا سبب اسرائیل معاملے میں اس کے ذریعے کی جارہی سست روی ہے۔ واضح رہے کہ یوکرین جنگ کے تعلق سے روسی صدر ولادمیر پوتن سمیت چھ روسی حکام کے خلاف گرفتاری وارنٹ کی منظوری میں محض ۲۴؍ دن لگے تھے، وہیں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اوراسرائیلی وزیر دفاع یوا گیلنٹ کے خلاف گرفتاری وارنٹ کی درخواست گزشتہ ۵؍ ماہ سے منظوری کی منتظر ہے۔جو آئی سی سی کے دوہرے رویہ کو ظاہر کرتا ہے۔
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے آئی سی سی کے خلاف منظم انداز میں رخنہ اندازی کی جا رہی ہے۔اس معاملے میں پیچیدگی اس وقت پیدا ہو گئی جب پروسیکیوٹر کریم خان کی مبینہ بد سلوکی کے خلاف برطانیہ نے آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو ہی چیلنج کر دیا۔کریم خان کے خلاف آئی سی سی کی رکن کے ساتھ بد سلوکی کی تحقیق ان کے ذریعے نیتن یاہو اور گیلنٹ کی گرفتاری کی درخواست دیئے جانے کے فوراً بعد گردش کرنے لگی۔ کریم خان کے خلاف ان الزامات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ جج جولیا موٹوک، جنہوں نے مقدمے کا جائزہ لینے والے پری ٹرائل چیمبر کی قیادت کی، صحت کی وجوہات اورانصاف کے مناسب کام کو یقینی بنانے کیلئےدستبردار ہو گئے۔بین الاقوامی قانونی ماہر اوویسونے خبردار کیا کہ موٹوک کی دست برداری اس عمل کو طول دے سکتی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے سابق اہلکار کریگ موخیبر نے اسرائیل اور مغربی ممالک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان اچانک تبدیلی کو مشکوک قرار دیتے ہوئے تنقید کی۔مخیبر کے مطابق جج ہولر نے پہلے تجویز دی تھی کہ اسرائیلی حکام کے خلاف آئی سی سی کے بجائے ملکی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: شمالی غزہ میں ایک لاکھ فلسطینی پھنس گئے ہیں: فلسطینی ایمرجنسی سروسیز
فلسطین کی تحقیقات میں تاخیر ۲۰۱۵ء میں اس وقت ہوئی جب آئی سی سی کی سابق پراسیکیوٹر فاتو بینسودا نے ابتدائی جانچ شروع کی۔اگرچہ تحقیقات ۲۰۱۹ءمیں ضروری معیار پر پوری اتریں، لیکن اسے فلسطینی علاقوں پر دائرہ اختیار کی بحثوں کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا۔باضابطہ تحقیقات مارچ ۲۰۲۱ءمیں شروع ہوئیں،ابھی تک کوئی بامعنی پیش رفت نہیں ہوئی۔جولائی ۲۰۲۴ءمیں،برطانیہ نے فلسطین کی ریاست اور آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر کے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا۔جس کے نتیجے میں نیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف درخواستوں میں مزید تاخیر ہوئی اگرچہ برطانیہ بعد میں اس عمل سے دستبردار ہو گیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: یو این کی اسرائیل کے یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی عائد کرنے کی مذمت
اس کے علاوہ آئی سی سی کو امریکی سینیٹ کی دھمکیوں کا سامنا ہے، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگراسرائیلی حکام کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تو پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ساتھ ہی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے بھی آئی سی سی کی کارروائیوں میں مداخلت کی ہے۔ موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن نے مبینہ طور پر پراسیکیوٹر بینسودا سے خفیہ ملاقات کی تاکہ انہیں اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ذرائع کے مطابق کو ہن نے اسیکیوٹر بینسودا کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا۔
اس طرح کے دباؤ نے آئی سی سی کی آزادی سوالیہ نشان کھڑا کردیا اور تحقیقات کے عمل کو طول دینے سے اس کی ساکھ اور انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے۔