ٹموتھی ویکس ایک آسٹریلوی ماہر تعلیم تھے، جنہیں طالبان نے تین سال قید میں رکھا۔ دوران قید ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور اپنا نام جبرئیل عمر رکھا ۔ ۵۴؍ سالہ ماہر تعلیم کینسر سے لڑتے ہوئے افغانوں کو تعلیم دیتے رہے، بلاآخر انتقال کر گئے۔
EPAPER
Updated: January 09, 2025, 10:02 PM IST | Inquilab News Network | Kabul
ٹموتھی ویکس ایک آسٹریلوی ماہر تعلیم تھے، جنہیں طالبان نے تین سال قید میں رکھا۔ دوران قید ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور اپنا نام جبرئیل عمر رکھا ۔ ۵۴؍ سالہ ماہر تعلیم کینسر سے لڑتے ہوئے افغانوں کو تعلیم دیتے رہے، بلاآخر انتقال کر گئے۔
افغان حکام کے مطابق جبرئیل عمر جو ایک آسٹریلوی ماہر تعلیم تھے، جنہیں طالبان نے تین سال قید میں رکھ کر اقتدار میں آنے سے قبل رہا کردیا تھا،دوران قید انہوں نے اسلام قبول کرلیا اوراپنا نام ٹموتھی ویکس سے جبرائیل عمر رکھا۔ عبوری وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے کہا کہ ۵۴؍ سالہ عمر طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا تھے۔قانی نے ۲۰۲۱ء سے پہلے کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب مجاہدین امریکہ سے نبرد آزما تھے،اس وقت عمر کو جو افغانستان کی امریکی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، ۲۰۱۶ء میں قید کر لیا گیا تھا۔ تین سال بعد انہیں نومبر ۲۰۱۹ء میں انس حقانی، حافظ راشد عمری اور حاجی ملی خان کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: اسرائیل مغربی کنارے کو غزہ کی طرح ملبے میں تبدیل کرنا چاہتا ہے: ہاریٹز
حقانی قطر کے دوحہ میں واقع طالبان کے دفتر چلے گئے۔ایک سال بعد، امریکہ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس نے ۱۹۹۶ءکے بعد دوسری بار ان کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ طالبان نے اگست ۲۰۲۱ءمیں ریاستی اداروں کا کنٹرول سنبھال لیا اور تب سے جنگ زدہ ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔قانی کے بقول عمر نے ازخود متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔قانی نے کہا کہ وہ کابل میں انگریزی کے استاد کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ افغانستان اورامارت اسلامیہ کو بہت پسند کرتے تھے اور اسی کی بنیاد پر انہوں نے کابل میں رہنے کا انتخاب کیا۔عمر نے افغانستان میں قیام کے دوران مختلف صوبوں کا سفر کیا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: لاس اینجلس جنگلات کی آگ بے قابو، نورا فتحی ٹیم کے ہمراہ انخلاء پر مجبور
عمر کی موت کی خبر کے بعد ۳۱؍ سالہ طالبان لیڈر انس حقانی نے قید کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ’’ قسمت نے ہمیں ایسے دو راہے پر اکٹھا کیاجہاں میری موت اس کی بن گئی، میری زندگی اس کے ساتھ جڑی، اور اس کی آزادی میری آزادی بن گئی۔تبادلے کے بعد عمر قطر آئے اور ہم نے بچھڑے ہوئے دوستوں کی طرح بات چیت کی۔عمر نے اپنے آبائی وطن کو چھوڑ دیا۔وہ ہمارے ساتھ رہے، افغانی لباس میں ملبوس، اس سرزمین کی گلیوں میں گھومتے رہے، کیونکہ ایمان اور یقین کا رشتہ کسی بھی دوسرے رشتوں سے زیادہ گہرا اور با معنی ہوتا ہے۔‘‘