رواں سال ستمبر میں اے جی او قانون کی مدت ختم ہو جائے گی۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی توسیع نہیں کی تو افریقی مصنوعات کی ڈیوٹی فری حیثیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور لاکھوں ملازمین کا مستقبل متاثر ہوگا۔
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 10:03 PM IST | Inquilab News Network | Nairobi
رواں سال ستمبر میں اے جی او قانون کی مدت ختم ہو جائے گی۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی توسیع نہیں کی تو افریقی مصنوعات کی ڈیوٹی فری حیثیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور لاکھوں ملازمین کا مستقبل متاثر ہوگا۔
مشرقی افریقہ میں واقع جینز فیکٹریوں میں رینگلر اور لیوائی جیسے مشہور امریکی فیشن برانڈس اپنی مصنوعات تیار کرواتے ہیں۔ لیکن افریقہ میں تیار کردہ یہ مال خالص امریکانا ہے جسے والمارٹ اور جے سی پینی جیسے امریکی اسٹورز میں فروخت کیلئے روانہ کیا جاتا ہے۔ امریکی فیشن کمپنیاں ۲۵ سال پرانے ایک امریکی قانون کی وجہ سے افریقہ سے مال درآمد کرتی ہیں۔ افریقی نمو اور مواقع ایکٹ (اے جی او اے) براعظم میں بنی ہزاروں اشیا، خصوصاً کپڑوں کو ہر ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ استثنیٰ جلد ختم ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ اور سوڈان میں بھکمری جبکہ ۴۸۹؍ملین ڈالر کی امریکی امدادی خوراک سڑنے کے قریب
غیر یقینی صورتحال
رواں سال ستمبر میں اس قانون کی مدت ختم ہونے جارہی ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ اے جی او اے کی توسیع کرنے پر راضی نہیں ہوا تو افریقی مصنوعات کی ڈیوٹی فری حیثیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور لاکھوں ملازمین کا مستقبل متاثر ہوگا۔ ٹرمپ کا یہ فیصلہ لاکھوں افریقیوں کی روزی روٹی کو متاثر کرے گا جس کی بدولت افریقی ممالک میں بے روزگاری کے بحران میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اگرچہ اس پروگرام کو دو طرفہ حمایت حاصل ہے لیکن یہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ حلف برداری کے بعد کئی ممالک کی مصنوعات پر اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے لاکھوں افریقی ملازمین اپنے مستقبل کے تئیں فکرمند ہیں۔ ان کے پاس وقت کم ہے۔ انہیں اگلے سال کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ان فیکٹریوں کے گاہک کمپنیاں بھی اگلے ماہ تک جاننا چاہتی ہیں کہ آیا اے جی او اے میں توسیع کی جائے گی یا نہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سوڈان: ٹرمپ کے بیرون ملکی امداد پرپابندی کے بعد خواتین اور بچوں کو واپس بھیج دیا گیا
روزگار فراہمی کا بڑا ذریعہ
کینیا کے نیروبی کے مضافات میں واقع یونائیٹڈ آرین فیکٹری ہر سال تقریباً ۸۰ لاکھ جینز، لاکھوں شرٹس اور دیگر اشیاء تیار کرکے امریکہ روانہ کرتی ہے۔ سی ای او پنکج بیدی نے بتایا کہ فیکٹری نے اس علاقہ کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جسے کبھی جرائم کی شرح کی وجہ سے شہر کے خطرناک علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ لیکن فیکٹری نے علاقے کی پوری سماجی و اقتصادیات کو مستحکم کر دیا ہے۔ آج ایک لاکھ ۵۰ ہزار بالواسطہ یا بلاواسطہ فیکٹری پر انحصار کرتے ہیں۔