گجرات کے رندیپ بکرا منڈی علاقے میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کی جانب سے تقریباً ۳۰۰؍ مکانات کے مالکان، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں، کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 04, 2025, 8:33 PM IST | Ahmedabad
گجرات کے رندیپ بکرا منڈی علاقے میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کی جانب سے تقریباً ۳۰۰؍ مکانات کے مالکان، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں، کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے۔
گجرات کے رندیپ بکرا منڈی علاقے میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کی جانب سے تقریباً ۳۰۰؍ مکانات کے مالکان، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں، کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے۔ حالانکہ ریاستی ہائی کورٹ نے انہدام کی مہم پر روک لگائی تھی۔ یہاں کے باشندوں کو ۲۷؍ جنوری کو نوٹس جاری کیا گیا ہے اور جگہ خالی کرنے کیلئے ۱۰؍ دن کا وقت دیا گیا ہے۔ حکام انہیں ہٹا کر یہاں سڑک بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ اس زمین پر قانونی لڑائی ۲۰۰۵ء کی ہے جب گجرات ہائی کورٹ نے علاقے میں مسماری کی مہم پر روک لگانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ اس وقت گرائے گئے مکانات کو دوبارہ تعمیر کریں اور مسماری کا عمل شروع کرنے سے پہلے بحالی کے اقدامات شروع کریں۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی: وزیراعلیٰ آتشی پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ درج
اس ضمن میں ایک رہائشی نے کلیرین انڈیا کو بتایا کہ ’’ اب ۲۰۲۵ء میں انہوں نے ہمیں دوبارہ نوٹس دے کر ۱۰؍ دن کے اندر زمین خالی کرنے کیلئے کہا ہے۔ پورے گجرات میں دادا کا بلڈوزر (سی ایم بھوپیندر پٹیل کو دادا کہا جاتا ہے) ایسے چلایا جا رہا ہے جیسے اتر پردیش میں بابا کا بلڈوزر اور مدھیہ پردیش میں ماما کا بلڈوزر۔ پورے ملک میں، بلڈوزر کی سیاست غریب طبقے کے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ جن لوگوں کو بے دخلی کا نوٹس دیا گیا ہے وہ تمام مزدور اور دیہاڑی والے ہیں جن میں سے ۸۰؍ فیصد مسلمان ہیں۔ باقی آدی واسی اور دیگر ذاتوں سے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر میں تمام سرکاری کام کاج کیلئے مراٹھی لازمی قرار
یہاں کے مکین اپنے مکانات گرانے سے قبل بحالی یا متبادل انتظامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ دن رہائشیوں کے ایک وفد نے احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ویسٹ زون کے دفتر کا دورہ کیا تاکہ بحالی کے مطالبات کے ساتھ ایک میمورنڈم پیش کیا جا سکے۔ حکام نے کہا کہ اگرچہ ۱۰؍ دن کا نوٹس جاری کیا گیا ہے وہ رہائشیوں کے ذریعہ جمع کرائے گئے تمام دعوؤں پر کارروائی کریں گے۔ اے ایم سی کے ایک اہلکار مہیش تبیار نے انڈین ایکسپریس کے حوالے سے بتایا کہ ’’ہم نے آرڈر میں ۱۰؍ دن کا وقت لکھا ہے لیکن ہم ان لوگوں کے تمام دعوؤں پر کارروائی کریں گے جو اس سلسلے میں اپنی دستاویزات جمع کرائیں گے۔ پھر ہم انہیں چھانٹیں گے اور بحالی کے اہل افراد کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کریں گے۔‘‘
جب گجرات ہائی کورٹ کے ۲۰۰۵ء کے حکم کے بارے میں پوچھا گیا جس میں انہدام پر روک لگا دی گئی تھی، تبیار نے کہا کہ ’’یہ معاملہ بہت پرانا ہے اور اس لئے ہم نے رہائشیوں سے دستاویزات فراہم کرنے کو کہا ہے۔ اس کی بنیاد پر ہم بحالی کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ایسی دستاویزات جمع کر سکتے ہیں جو وہاں ان کی سابقہ رہائش کو ظاہر کرتی ہو۔‘‘ اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے ریاستی صدر ایڈوکیٹ شمشاد پٹھان جو رہائشیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے کہا کہ اہلکار نے انہیں بتایا کہ نوٹس صرف رہائشیوں کو مسمار ہونے کے بارے میں متنبہ کرنے کیلئے دیا گیا تھا۔ انہوں نے عہدیداروں سے پوچھا کہ نوٹس میں بازآبادکاری کے طریقہ کار کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے زبانی طور پر ہمیں دستاویزات جمع کرانے کو کہا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر دستاویزات ۲۰۱۰ء سے پہلے کی ہیں تو وہ مکان دے دیں گے۔ تمام دستاویزات حکام کو پیش کر دیئے گئے تھے۔
مزید ایک رہائشی نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’’یہ اہلکار حکومت کی کٹھ پتلی ہیں۔ ہمیں ان کی باتوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم ہائی کورٹ بھی جا رہے ہیں۔ ‘‘ ان نوٹسز کا دعویٰ ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس زمین کی ملکیت کے تمام دستاویزات موجود ہیں۔