سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ ۷؍ ججوں کی بنچ نے ۴-۳؍ کے اکثریتی فیصلے سے ۱۹۶۷ء کے فیصلے کو رد کر دیا جس میں اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 12:36 PM IST | New Delhi
سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ ۷؍ ججوں کی بنچ نے ۴-۳؍ کے اکثریتی فیصلے سے ۱۹۶۷ء کے فیصلے کو رد کر دیا جس میں اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار برقرار رہے گا اس کا فیصلہ جمعہ کی صبح سپریم کورٹ سنا یا جس پر یکم فروری کے بعد سے سب کی نظریں مرکوز تھیں کیونکہ ا س معاملے میں چیف جسٹس چندر چڈکی ۷؍ججوں کی بنچ نے پچھلی سماعت کے دوران فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ جمعہ کو سماعت ساڑھے دس بجے شروع ہوئی۔ جس کے بعد اس فیصلے نے اے ایم یو برادری کو مسرور کردیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے پر سپریم کورٹ نے جمعہ کو بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے آخری دن، سی جے آئی ڈی وائی چندر چنڈسمیت ۴؍ ججوں نے اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ ۴-۳؍ کی اکثریت سے دیا ہے۔ عزیز باشا میں عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی درجہ کا دعویٰ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ایک قانون کے ذریعہ قائم کی گئی ہے۔ آج، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چڈکی قیادت میں اکثریت نے عزیز باشا کو مسترد کر دیا اور کہا کہ کوئی ادارہ اپنی اقلیتی حیثیت کو محض اس لئےنہیں کھوئے گا کہ اسے ایک شاہی قانون کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ عدالت کو اس بات کا جائزہ لینا چا ہئے کہ یونیورسٹی کس نے قائم کی اور اس کے پیچھےدماغ کون تھا۔ اگر وہ انکوائری اقلیتی برادری کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو ادارہ آرٹیکل ۳۰؍کے مطابق اقلیتی حیثیت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ \
یہ بھی پڑھئے: جموں کشمیراسمبلی میں بی جے پی اراکین کا پُر تشدد احتجاج، مار پیٹ
معاملہ کیا ہے؟
دراصل ۱۹۶۵ءمیں ہی اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت سے متعلق تنازع شروع ہونے کے بعد اس وقت کی مرکزی حکومت نے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کرکے خود مختاری کو ختم کردیا تھا۔ اس کے بعد عزیز باشا نے۱۹۶۷ء میں حکومت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ تب سپریم کورٹ میں ۵؍ججوں کی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ بحث کا اصل موضوع یا مسئلہ یہ تھا کہ کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی تعلیمی ادارہ ماننے کے کا کیا اصول یا قانون ہے ؟ کیا کسی ادارے کو اقلیتی تعلیمی ادارہ تصور کیا جائے گا کیونکہ اسے کسی مذہبی شخص یا افراد نے قائم کیا تھا۔ یا اس کا انتظام کسی مذہبی یا لسانی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شخص یا افراد کے زیر انتظام ہے؟
یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن اراکین کل سے جےپی سی کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوں گے
ججوں کی اکثریت کا موقف
سپریم کورٹ کی سات رکنی بینچ کی اکثریت کا ماننا ہے کہ آرٹیکل ۳۰؍ کمزور ہو جائے گا اگر یہ ممکنہ طور پر صرف ان اداروں پر لاگو ہوتا ہے جو آئین کے آغاز کے بعد قائم ہوئے تھے۔ ’ `انکارپوریشن‘ اور `’اسٹیبلشمنٹ‘کے الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ استعمال نہیں کئے جا سکتے۔ محض اس لئے کہ اے ایم یو کو ایک شاہی قانون سازی کے ذریعے منظور کیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اسے اقلیت کے ذریعے `قائم نہیں کیا گیا تھا۔ اس طرح کا رسمی مطالعہ آرٹیکل ۳۰؍کے مقاصد کو ناکام بنا دے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ ادارہ صرف اقلیتی طبقے کے فائدے کیلئے قائم کیا گیا ہو۔ یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ انتظامیہ اقلیت کے ساتھ ہو۔ اقلیتی ادارے، سیکولر تعلیم پر زور دینا چاہتے ہیں اور اس کیلئے انتظامیہ میں اقلیتی ارکان کی ضرورت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ہر کسی کو اسی بات کا انتظار تھا کہ سی جے آئی اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ دینے کے حق میں ہے یا اس کے خلاف۔ دراصل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ۱۰؍ نومبر۲۰۲۴ءکو ریٹائر ہورہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے پاس بطور چیف جسٹس پانچ دن میں ۵؍ اہم معاملات میں اپنا فیصلے سنانے تھے۔ جمعرات تک انہوں نے نجی جائداد اور مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ سمیت چار معاملات پر اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اب آخری بڑا فیصلہ اے ایم یو اقلیتی کردار کا تھا۔