ڈی ایم کے کے رکن پارلیمان اے راجا نے لوک سبھا میں اپنی آدھے گھنٹے سے زائد کی تقریر میں وقف ایکٹ میں تبدیلی کے پس پشت حکومت کی بدنیتی کو مدلل انداز میں واضح کیا ہے۔
EPAPER
Updated: April 15, 2025, 12:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ڈی ایم کے کے رکن پارلیمان اے راجا نے لوک سبھا میں اپنی آدھے گھنٹے سے زائد کی تقریر میں وقف ایکٹ میں تبدیلی کے پس پشت حکومت کی بدنیتی کو مدلل انداز میں واضح کیا ہے۔
اگر اجازت ہو تو میں وقف ایکٹ کی ابتدا پر بات کرنا چاہوں گاجو پہلی بار۱۹۵۴ء میں نافذ ہوا۔ اس کے بعد اس میں ۱۹۵۹ء، ۱۹۶۴ء اور ۱۹۶۹ء میں اس میں ترامیم ہوتی رہیں اور پھر ۱۹۸۴ء میں جامع ترمیم ہوئی۔ ۱۹۸۴ء کے بعد سے جب بھی وقف قانون میں ترمیم ہوئی، اس کا کوئی نہ کوئی جواز تھا۔ ۱۹۸۴ءکی ترمیم حکومت ہند کی طرف سے ۱۹۷۰ء میں قائم کردہ وقف انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ہوئی۔ اس میں کئی سفارشات کی گئیں مگر پارلیمنٹ نےوقف ایکٹ میں صرف تبدیلیاں کیں۔ باقی تجاویز کو نافذ نہیں کیاگیا۔ اس کے بعد۱۹۹۵ءکا ایکٹ آیا۔ میں یہاں وزیرمحترم کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ جب بھی ترمیم ہوئی، اس کا کوئی معقول جواز تھا۔ ۱۹۹۵ء کی ترمیم کو ہی بطور مثال لیجئے۔ ۱۹۸۴ءکی جامع ترامیم وقف انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر کی بنیاد پر کی گئی تھیں مگریہ صرف ۲؍ ترامیم تھیں۔ مسلم سماج نے اس پر نظر ثانی کی اپیل کی اوراس کی بنیاد پر ۱۹۹۵ء کا ایکٹ وجود میں آیا۔ ۲۰۱۳ءکی بات بھی کرلیں۔ یہ ترمیم سچر کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کی بنیاد پر عمل میں آئی جو خود وزیراعظم نے مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی حالت جاننےکیلئے بنائی تھی تو اس طرح ۱۹۸۴ءکی ترمیم ہو، ۱۹۹۵ء کی ہو یا ۲۰۱۳ء کی، ہر ترمیم کا کوئی جواز تھا اور وہ اتفاق رائے سے ہوئی نیز اس پر پارلیمنٹ میں وہائٹ پیپر بھی پیش کیا گیا۔ اب آپ (وزیر محترم) بتائیے اس بل کو کس بنیاد پر لایا جا رہا ہے؟ آپ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرس (جن کے مفادات اس قانون سے وابستہ ہیں ) سے رابطہ کیا گیا، ان میں سے کتنوں نے جے پی سی میں پیش ہوکر آپ کے دعوؤں کی تصدیق کی؟ کسی نے نہیں۔
جس طرح یہ بل پیش کیا گیا وہ اپنے آپ میں بہت پُر اسرار ہے۔ اس کے اغراض ومقاصد میں آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ۲۰۱۳ءمیں جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کی گئی ترامیم کے باوجود وقف بورڈ کے اختیارات، وقف املاک کے رجسٹریشن، سروے، غیر قانونی قبضوں کے خاتمے اور وقف کی تعریف جیسے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کیلئے ایکٹ میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ اس طرح آپ نے اس ترمیم کیلئے ۵؍ عوامل کا ذکرکیا ہے جو آپ کے خیال میں ۲۰۱۳ءکی ترمیم میں چھوٹ گئے تھے۔ ان پانچوں پرآتے ہیں۔ وقف کی تعریف وضع کرنے کے نام پر بہت ہی ہوشیاری سے کنفیوژ کیا گیا ہے، قبضوں کا خاتمہ سرکار کو جائیداد ہتھیانے کا اختیار دینے کے سوا کچھ نہیں، جائیداد کا سروے محض مذاق ہے کیونکہ ہندوستان کی سرکار نے سپریم کورٹ میں خود حلف نامہ دیا ہے کہ ۹۰؍فیصدسے زیادہ سروے مکمل ہو چکا ہے۔ وقف کی ساری املاک کا رجسٹریشن ممکن ہی نہیں اور ریاستی بورڈز کے اختیارات کا معاملہ تفریحی کلب جیسا بن کر رہ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ٹام اینڈ جیری کے ’اے آئی ورژن‘ کی انٹرنیٹ پر دھوم
اب اِس بل پر آتے ہیں۔ آپ نے وقف کرنےکیلئے ’’۵؍ سال تک باعمل مسلمان‘‘ ہونے کی شرط رکھ دی ہے۔ یہ زبان کہاں سے لاتے ہیں آپ؟ میں مذہب کو مانتا ہوں یا نہ مانتا ہوں، اگر میں کسی ملکت کا مالک ہوں اور وہ کسی کو عطیہ کرنا چاہوں تو کیا آپ میری ایمانداری ناپیں گے؟میں نے دنیا کے کسی قانون میں ایسا التزام نہیں دیکھا۔
اس بل کا سیکشن۳؍ سی کہتا ہے کہ’’ اس قانون کے نافذ ہونے سے پہلے یا بعد میں کوئی بھی سرکاری زمین جسے وقف کی ملکیت قرار دے دیاگیا ہو یا اس کی شناخت وقف جائیداد کے طورپر ہوئی ہو اسے وقف کی ملکیت نہیں سمجھا جائے گا۔ ‘‘سوال یہ ہےکہ یہ کون طے کرےگا کہ کوئی جائیداد سرکاری ہے یا نہیں ہے؟ سرکار خود فیصلہ کرلے گی؟ آپ خود کسی زمین کی شناخت سرکاری زمین کے طور پر کریں گے، اس کا اعلان کریں گے اور پھر فیصلہ سنا دیں گے کہ یہ سرکاری جائیداد ہے؟ بہتری کے نام پر، سرکار وقف کے تصور کو ختم کرنا اور وقف جائیدادوں کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ وقف جائیدادوں کے سروے اورناجائز قبضوں کے خاتمے کی بات خود متضاد ہے۔ سروے مثبت امر ہے جبکہ قبضوں کا خاتمہ منفی۔ آپ دونوں کوایک شق میں ملا رہے ہیں۔ موجودہ ایکٹ میں سروے کمشنر سرکار سے آزاد ہوتا ہے، وہ سرکاری افسر نہیں ہوتا۔ جب وقف بورڈ اور سرکار کے درمیان تنازع ہوتا ہے تو آزاد افسر سو ِل پروسیجر کوڈ کے تحت تحقیقات کرتا ہے اور نتیجے پر پہنچتا ہے۔ اب سروے کمشنر کی جگہ ضلعی کلکٹر لے لےگا۔ وقف بورڈ اور سرکار کے درمیان تنازع فیصلے کااختیار کلکٹر کو کیسے ہوسکتاہے؟ یہ انصاف کے فطری اصول کے خلاف ہے کہ کوئی اپنےمقدمہ کا جج خود نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح آپ ناجائز قبضوں پر بھی نظر ثانی کی بات تو کرتے ہیں (جیسا کہ بل کے اغراض ومقاصد میں لکھا ہے) مگر سیکشن ۵۴؍ جو ناجائز قبضوں سے متعلق ہے، اسے خود دیکھیں، ایک قومہ اور وقفہ کی بھی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ اس کے برخلاف آپ نے کیا کیا، آپ نے سخت التزامات کو ہٹا دیا جو وقف املاک کے تحفظ کیلئے تھے۔ پہلے قید بامشقت اور جرمانہ کا التزام تھا، آپ نے اسے بدل کر موجودہ ایکٹ میں سادہ قید اور جرمانہ کردیا۔ پچھلے قانون میں یہ ناقابل ضمانت جرم تھا، آپ اسے قابل ضمانت جرم بنا دیا۔
چونکہ سول کورٹس، ضلعی کورٹس، اور ہائی کورٹس میں مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہے اس لئے خاص معاملات کیلئے ٹریبونل کانظم کیا جاتا ہے۔ آئین اجازت دیتا ہے کہ ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہو۔ اس کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں ہی چیلنج کیا جاسکتا تھا مگر آپ اسے بھی بدل رہے ہیں۔
اب وقف املاک کے رجسٹریشن پر آیئے۔ پہلے مناسب ضوابط کی پاسداری کے بعد ۳۶(۱)کسی ملکیت کو وقف جائیداد قرار دیا جا سکتا تھا۔ اب آپ سیکشن۷(۱ے) لا رہے ہیں، جو تمام وقف جائیدادوں کو ختم کر دے گا۔ یہ سیکشن کہتا ہے کہ ’’کوئی بھی جائیداد اس وقت تک وقف کے طو رپر رجسٹرڈ نہیں ہوسکتی جب تک کہ مجاز عدالت میں تنازع کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ ‘‘
اختیار کلکٹر کو سونپ دیاگیاہے۔ وہ رجسٹریشن سے متعلق معاملے کی سماعت کریگا اور اگر اس بیچ کوئی تنازع ہوگیاتو کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جائےگا بلکہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔ آگے سیکشن۱۰؍ کہتا ہے کہ کوئی مقدمہ یا اپیل نہیں ہوگی۔ یعنی آپ کہہ دیں گے کہ یہ وقف جائیداد نہیں تو وہ متنازع ہوجائے گی، معاملہ سپریم کورٹ تک جائےگا، اس میں چاہے ۳۰؍ سال لگ جائیں، تب تک یہ ملکیت وقف کی ملکیت نہیں بلکہ سرکاری ملکیت رہےگی۔ یہ کیا ہے؟
وقف بورڈز کی تشکیل کا معاملہ لے لیں۔ آپ غیر مسلموں کو وقف ایکٹ میں کیوں شامل کر رہے ہیں ؟ ہر ریاست میں ہندو مذہبی انڈومنٹ بورڈ ایکٹ موجود ہے۔ تمل ناڈو میں ایک مندر کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین تھی۔ ایچ این سی بورڈ نے اس آمدنی سے آرٹس کالج چلانے کا فیصلہ کیا اور میرٹ پر پروفیسرز بھرتی کئے۔ ایک مسلمان آیا تو آر ایس ایس نے فوراً کہا کہ یہ ہماری جائیداد ہے، مسلمان کو کیوں رکھا؟ اب ہم کہتے ہیں کہ جائیداد ایک چیز ہے، مذہب دوسری۔ ہماری اپیل یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کو الگ رکھیں۔ اگر آپ اس ملک کو سیکولر ڈھانچے کے تحت متحد رکھنا چاہتے ہیں تو سیاست اور مذہب کو نہ ملائیں نہیں۔