آسام اسمبلی نے مسلمان اراکین کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے دیا جانے والا دو گھنٹے کا وقفہ ختم کردیا ہے۔ اس سے قبل، آسام حکومت، برطانوی دور کے مسلم میریج رجسٹریشن ایکٹ کو تبدیل کرکے نیا قانون متعارف کرا چکی ہے۔
EPAPER
Updated: August 30, 2024, 7:23 PM IST | Gohati
آسام اسمبلی نے مسلمان اراکین کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے دیا جانے والا دو گھنٹے کا وقفہ ختم کردیا ہے۔ اس سے قبل، آسام حکومت، برطانوی دور کے مسلم میریج رجسٹریشن ایکٹ کو تبدیل کرکے نیا قانون متعارف کرا چکی ہے۔
جمعہ کو آسام اسمبلی نے جمعہ کی نماز کیلئے وقفہ دینے کے قانون کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب، جمعہ کے دن اسمبلی کے مسلمان اراکین کو جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے وقفہ نہیں دیا جائے گا۔ سروپتھار سے بی جے پی ایم ایل اے بسواجیت پھکن نے کہا کہ ہندوستان میں برطانوی دور حکومت سے آسام اسمبلی میں ہر جمعہ کو نماز ادا کرنے کیلئے وقفہ دیا جاتا تھا۔ یہ وقفہ دوپہر ۱۲؍ بجے سے ۲؍ بجے تک، ۲؍ گھنٹے پر مشتمل ہوتا تھا جس کے درمیان مسلمان ممبرانِ اسمبلی جمعہ کی نماز پڑھتے تھے۔ لیکن اب اس قانون کو تبدیل کردیا گیا ہے اور اب انہیں کوئی وقفہ نہیں دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: ۱۱؍ ملکوں کے غیر قانونی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کیلئے شراکت دار کی تلاش
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ آسام اسمبلی کے اسپیکر بسوا جیت دیمری کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں کیا گیا تھا اور سبھی اراکین نے متفقہ رائے سے اسے منظور کیا تھا۔ پھکن نے مزید کہا کہ اس فیصلہ کو سبھی کی حمایت حاصل تھی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ لوک سبھا، راجیہ سبھا اور دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں میں بھی نماز کے وقفہ کا قانون نہیں ہے۔ اس لئے اسپیکر نے برطانوی دور کے اس قانون کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھکن کے مطابق، جمعہ کو آسام اسمبلی اپنے معمول کے وقت صبح ساڑھے ۹؍ کے بجائے صبح ۹؍ بجے شروع ہوتی تھی تاکہ نماز کیلئے وقفہ دیا جاسکے۔ لیکن اب اسمبلی کی کارروائی روزانہ صبح ساڑھے ۹؍ بجے ہی شروع ہوگی۔
یہ بھی پڑھئے: آندھراپردیش: انجینئرنگ کالج کے لڑکیوں کے ہوسٹل میں خفیہ کیمرہ، پولیس تفتیش شروع
آسام حکومت کے ذریعے ختم کیا جانے والا یہ دوسرا قانون ہے جو برطانوی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے قبل، آسام حکومت نے جمعرات کو اسمبلی میں آسام کمپلسری رجسٹریشن آف مسلم میریجز اینڈ ڈائیورسیز بل ۲۰۲۴ء منظور کیا جس کا مقصد مسلمان مردوخواتین کے حقوق کا تحفظ اور بچوں کی شادی کو ختم کرنا تھا۔ اس قانون کے ذریعے برطانوی دور کے آسام مسلم میریجز اینڈ ڈائیورسیز رجسٹریشن ایکٹ ۱۹۳۵ء کو تبدیل کردیا گیا۔ اس بل پر مباحثہ کے دوران آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی کیرلا اور جموں کشمیر میں ہے۔ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کیلئے ایک قانون موجود ہے۔ کیرلا میں بائیں بازو کی پارٹیوں یا کانگریس نے ایسا قانون ضرور بنانا چاہئے تھا کیونکہ وہاں بی جے پی کبھی اقتدار میں نہیں آئی۔ اس موقع پر شرما نے مسلم خواتین کے تئیں اپنی فکرمندی کا اظہار کیا اور کہا کہ نئے مسلم میریجز رجسٹریشن قانون سے انہیں تحفظ ملے گا۔