• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگلہ دیش: احتجاج کے دوران ہلاک ہوئے ۱۵۰؍ طلبہ کیلئے قومی سوگ کا اعلان

Updated: July 30, 2024, 11:55 AM IST | Dhaka

بنگلہ دیش میں جاری کوٹہ نظام کے خلاف پر تشدد احتجاج کے بعد اب حالات معمول پر آرہے ہیں، وزیر اعظم نے ۱۵۰؍ طلبہ کی ہلاکتوں پر قومی سوگ منانے کا اعلان کیا ہےجبکہ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو بڑے پیمانے پر مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا۔

A scene of violent protests against the quota system in Bangladesh. Photo: INN
بنگلہ دیش میں کوٹہ نظام کے خلاف ہوئے پر تشدد مظاہروں کا ایک منظر ۔ تصویر : آ ئی این این

بنگلہ دیش کی حکومت نے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ کوٹہ نظام کے خلاف ملک بھر میں طلبہ کے احتجاج کے دوران۰ ۱۵؍ طلبہ جاں بحق ہوئے۔یہ احتجاج کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہونے کے بعد جلد ہی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف سورش میں تبدیل ہو گیا، جس میں کئی ہزار افراد جس میں پولیس بھی شامل ہے زخمی ہوئے اور بڑے پیمانے پر سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچا۔وزیر اعظم شیخ حسینہ کی سربراہی میں ہونے والی ملاقات کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے کابینہ کے سیکریٹری حسین نے میڈیا سے کہا کہ ’’حکومت نے کل قومی سوگ منانے کا اعلان کیا ہے، عوام سے گزارش ہے کہ وہ کالے رنگ کا فیتہ باندھیں، مندر ، مسجد، پگوڈااور گرجا گھروں میں مہلوکین، اور زخمیوں کیلئے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا جائے۔

یہ بھی پڑھئے : یہ بھی پڑھئے : سوڈان: خرطوم میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد میں سنگین اضافہ: ایچ آر ڈبلیو

ملاقات میں اعلیٰ بیوروکریٹ نے کہا کہ وزیر داخلہ اسدالزماں خان کمال نے ملاقات میں رپورٹ پیش کی جس میں مجموعی صورت حال کا ذکر تھا ساتھ ہی ۱۵۰؍ اموات کی بھی تصدیق کی گئی۔ یہ اعلان طلبہ کے ذریعے تازہ احتجاج کے اعلان کے بعد آیا جب کہ فوج سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور پولیس نے فساد زدہ علاقوں میں طلبہ پرسخت نگرانی رکھی۔ طلبہ کا یہ اعلان ان کے چھ لیڈروں کے ذریعے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کے بعد آیا، ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی حراست میں طلبہ پر دبائو ڈال کر ان سے یہ بیان دلوائے گئے۔ 
چھ طلبہ لیڈرنے میڈیا کے سامنے آکر یہ بیان دیا جب کہ طلبہ کے رابطہ کار ناہید اسلام نے اتوار کو ویڈیو کے ذریعے ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ چونکہ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کوٹہ نظام میں اصلاح کر لی ہے ، جس سے ان کا مطالبہ پورا ہو چکا ہے ، لہٰذا وہ اپنا احتجاج ختم کرتے ہیں اور حکومت سے تمام تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کوٹہ نظام میں زبردست اصلاح کرتے ہوئے اسے ۵۶؍ فیصد سے گھٹا کر محض ۷؍ فیصد کر دیا۔بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری حکمنامہ جاری کرکے تمام سرکاری اداروں کو ہدایت دی کہ ۹۳؍ فیصد ملازمتیں اہلیت کی بنیاد پر دی جائیں ۔
طلبہ کی کچھ جماعتوں نےڈھاکہ میں مختلف جگہوں پر احتجاج کیا لیکن پولیس نے جلد ہی ان پر قابو پا لیا۔وہ وزیر اعظم کی جانب سے ان ہلاکتوں پر عوامی طور پر اظہار معذرت ، کئی وزراء کی برطرفی، اور ملک بھر کے اسکول،اور یونیورسٹی کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مشہور اخبار ’پرتھم آلو‘ کے مطابق ۲۱۰؍ ہلاکتیں ہوئی ہیں،جن میں ۱۱۳؍ نوجوان ہیں۔جبکہ اجتجاج کے آغاز سے اب تک ۹۰۰۰؍ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مشاہدین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج پر امن تھا لیکن حکمراں جماعت عوامی مسلم لیگ کے طلبہ کارکن نے پولیس کے ساتھ مل کر اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی ، جس کے نتیجے میں یہ پر تشدد ہو گیا، اور اسے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہو گئی۔

یہ بھی پڑھئے : کلیان: شیو سینا (شندے) اور بی جے پی میں تنازع بڑھنے کے آثار

حکومت کے کچھ لیڈروں کا کہنا تھا کہ طلبہ کا احتجاج پر امن تھا لیکن جماعت اسلامی پارٹی اور اس کی طلبہ شاخ ،جس کی حمایت ملک کی اہم حزب مخالف پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی جس کی سربراہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء ہیں اس احتجاج کو اغوا کرلیا،جس کے سبب ملک بھر میں انارکی پھیلی۔ان ہنگاموں کے سبب بنگلہ دیش کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا،اور اس کا برا اثر ملکی معیشت پر بھی پڑا جو تقریباً ۱۰؍ بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ملک کی اہم گارمینٹ کی صنعت بر ی طرح متاثر ہوئی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ۱۰؍ دنوں تک بند رہنے کے بعد اب انٹرنیٹ  اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بحال کر دیا گیا ہے، اور حالات معمول پر آرہے ہیں۔جبکہ اتوار کو انٹر نیٹ پر منحصر ہزاروں ایسے لوگ متاثر رہے جو فیس بک کے ذریعے اپنا سامان فروخت کرتے ہیں انہیں دقتوں کا سامنا کر نا پڑا، انہیں ابھی مزید انتظار کرنا پڑےگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK