Updated: August 17, 2024, 6:45 PM IST
| Dhaka
اقوام متحدہ (یو این) کے انسانی حقوق کے دفتر (یو این سی ایچ آر) نے اپنی حالیہ ابتدائی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں بدامنی کے دوران ۱۶؍ جولائی تا ۱۱؍ اگست ۶۵۰؍ افراد کی موت ہوئی تھی۔ یو این کے مطابق بنگلہ دیش کی پولیس نے مظاہرین سے نمٹنے کیلئے غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا تھا۔
بنگلہ دیش میں حکومت کے خلاف احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این
اقوام متحدہ (یو این) کے انسانی حقوق کے دفتر (یو این سی ایچ آر) نے اپنی حالیہ ابتدائی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں بدامنی کے دوران ۱۶؍ جولائی تا ۱۱؍ اگست کو ۶۵۰؍ افراد کی موت ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ (یواین) نے ۱۰؍صفحا ت پر مبنی رپورٹ، جس کا عنوان ہے ’’بنگلہ دیش میں مظاہروں اور بدامنی کا ابتدائی تجزیہ‘‘، میں انکشاف کیا ہے کہ ۱۶؍ جولائی سے ۴؍ اگست تک ۴۰۰؍ اموات درج کی گئی تھیں جبکہ ۵؍ تا ۶؍ اگست کو احتجاج کی نئی لہر کے دوران ۲۵۰؍ افراد کی موت ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دیا تھا۔‘‘ میڈیا رپورٹس اور احتجاجی تحریک میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’۱۶؍ جولائی اور ۱۱؍اگست کے درمیان طلبہ کے امتیازی سلوک کے خلاف مظاہروں کے بعد تشدد میں ۶۰۰؍ سے زائد افراد کی موت ہوئی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: سیف علی خان ہیرو، معاون اداکار اور ویلن، ہر کردار میں پسند کئے گئے
جمعہ کو جینوا میں جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ انتقامی حملوں میں ہونے والی اموات کی تعداد کا تعین کرنا باقی ہے۔‘‘ یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق ۷؍ اگست سے ۱۱؍ اگست کے درمیان متعدد امواتیں درج کی گئی تھیں جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کی تشدد میں زخمی ہونے کے بعد اسپتالوں میں علاج کے دوران موت ہوئی تھی۔ مہلوکین میں مظاہرین، صحافی، سیکوریٹی فورس کے اہلکار اوردیگر شہری شامل ہیں۔ مظاہروں کے درمیان سیکڑوں مظاہرین اور شہری زخمی ہوئے تھے جبکہ اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے تھے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق ’’مہلوکین کی درج کردہ تعداد حقیقی تعداد سے کم ہو سکتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن اور کرفیو کے سبب ڈیٹا جمع کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی تھی۔ مزید برآں ریاستی حکام نے اسپتالوں کو مہلوکین اور زخمی افراد کی تفصیلات فراہم کرنے سے روکا تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بی جے پی لیڈرنارائن رانے کو عدالتی سمن، پارلیمانی رُکنیت منسوخ ہونے کا خطرہ
یو این نے کہا ہے کہ ’’اس بات کے مضبوط اشارے ہیں ، جو آزادانہ تفتیش کی ضمانت دیتے ہیں، کہ سیکوریٹی اہلکاروں نے مظاہرین سے نمٹنے کیلئے غیر ضروری فورس کا استعمال کیا تھا۔ تشدد کے دوران انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں بھی کی گئی ہیں جن میں ماورائے قتل، جبری حراست اور تحویل، جبری گمشدیاں ، ٹارچر، غیر انسانی سلوک اور اظہار رائے اور پر امن احتجاج پر پابندیاں شامل ہیں۔ ان خلاف ورزیوں کیلئے شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی ضرورت ہے۔ ‘‘