جمعہ کو بی بی سی نے اپنی اسٹریمنگ سروس آئی پلیئر سے غزہ پر ایک دستاویزی فلم ہٹا دی، جبکہ اس نے یہ جاننے کے بعد کہ فلم کے۱۳؍ سالہ راوی کا تعلق حماس کے ایک عہدیدار سے ہے, ’’مزید تحقیقات ‘‘کرنے کا فیصلہ کیا۔
EPAPER
Updated: February 23, 2025, 1:57 PM IST | London
جمعہ کو بی بی سی نے اپنی اسٹریمنگ سروس آئی پلیئر سے غزہ پر ایک دستاویزی فلم ہٹا دی، جبکہ اس نے یہ جاننے کے بعد کہ فلم کے۱۳؍ سالہ راوی کا تعلق حماس کے ایک عہدیدار سے ہے, ’’مزید تحقیقات ‘‘کرنے کا فیصلہ کیا۔
جمعہ کو بی بی سی نے اپنی اسٹریمنگ سروس آئی پلیئر سے غزہ پر ایک دستاویزی فلم ہٹا دی، جس کی وجہ اس فلم کا راوی ۱۳؍ سالہ حماس لیڈر کا بیٹا تھا۔اس دستاویزی فلم، جس کا عنوان تھا ’’غزہ، جنگی علاقے میں زندہ رہنے کا طریقہ،‘‘ کے مرکز میں حماس کے نائب وزیر زراعت کا بیٹا تھا۔ تاہم، بی بی سی نے کہا کہ فلم کی پروڈکشن کمپنی نے انہیں پہلے سے اس خاندانی تعلق کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا۔یہ دستاویزی فلم، جو پیر کو بی بی سی ٹو پر نشر ہوئی، ہویو فلمز نے تیار کی تھی۔فلم میں چار نوجوانوں کی زندگیوں کو دکھایا گیا ہے جو ۱۵؍ماہ سے اسرائیلی نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں ۱۴؍ سالہ انگریزی بولنے والا راوی عبداللہ بھی شامل ہے، جو حماس کے نائب وزیر زراعت ایمن الیازوری کا بیٹا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ : معاہدہ برقرار، آج پھر قیدیوں اور یرغمالوں کا تبادلہ
بی بی سی نے ایک بیان میں کہا، کہ ’’غزہ: جنگی علاقے میں زندہ رہنے کا طریقہ‘‘ اہم کہانیاں پیش کرتا ہے جو ہمارے خیال میں بیان کی جانی چاہئیں ۔ غزہ کے بچوں کے تجربات۔ پروگرام کے بارے میں مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اوران کے پیش نظر ہم پروڈکشن کمپنی کے ساتھ مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔ جب تک یہ عمل جاری ہے، پروگرام آئی پلیئر پر دستیاب نہیں ہوگا۔‘‘
بی بی سی کے بدھ کے بیان میں کہا گیا کہ ’’فلم غزہ کی جنگ کے تباہ کن نتائج کا ایک بچے کی نظر سے طاقتور منظر پیش کرتی ہے، جو ہمارے خیال میں ان کے تجربات کا ایک انمٹ ثبوت ہے، اور ہمیں شفافیت کے اپنے عہد کو پورا کرنا چاہیے۔‘‘ تاہم انٹرنیشنل سینٹر آف جسٹس فار فلسطین (آئی سی جے پی) نے کہا کہ فلسطینی آوازوں کو دبانے کی بڑھتی ہوئی کوششیں ’ناقابل قبول ‘ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’’ عبداللہ کے والد کا عہدہ نہ تو عبداللہ کے غزہ میں بچے کے طور پر حاصل تجربات کو ختم کرتے ہیں، اور نہ ہی اس کی گواہی کو باطل کرتے ہیں۔‘‘
بیان میں فلسطینی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوششوں، خاص طور پر ان لوگوں کی جو شہریوں کی تکالیف کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں، کے خلاف مزاحمت کی ضرورت پر زور دیا گیا، اور بی بی سی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صحافتی سالمیت کو برقرار رکھے اور یہ یقینی بنائے کہ غزہ میں زندگی کی حقیقتوں کو عوامی گفتگو سے مٹایا نہ جائے۔یونیورسل جیوریسڈکشن کے ماہر طیب علی نے ایکس پر لکھا کہ ’’ یہ سینسرشپ کا کھلا عمل ہے، جو اسرائیلی لابی کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔‘‘ایک بار پھر، ایک بڑے میڈیا ادارے نے اسرائیل کی حمایت کرنے والی قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ فلسطینی آوازوں کو صرف تب اجازت ہے جب وہ اسرائیل کی منظور شدہ روایت کے مطابق ہوں۔بی بی سی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اسرائیل کے مدافعین کی حساسیت کو سچ پر ترجیح دے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی، نیز اسرائیل کے جارحانہ قبضے ، اور ظالمانہ تجربات کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔‘‘