• Wed, 27 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہار پلوں کے گرنے کا معاملہ: ریاستی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

Updated: July 04, 2024, 6:22 PM IST | Patna

بہار میں متعدد اضلاع میں پلوں کے منہدم ہونے کے معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک وکیل نے عرضی داخل کی ہے۔ شکایت کنندہ نے عدالت عظمیٰ سے ریاستی حکومت کو اس معاملے میں جوابدہ ٹھہرانے اور اعلیٰ سطحیٰ کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

More than 9  bridges have collapsed so far. Photo: INN
بہار میں اب تک ۹؍ سے زائد بریج منہدم ہو چکے ہیں۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس میںعدالت عظمیٰ سے اپیل کی گئی ہے کہ ریاست میں  متعدد بریج گرنے کے بعد میں ریاستی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کی اپیل کی گئی ہے۔ عرضی کندہ نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے میں جانچ پڑتال اور ایک کمیٹی تشکیل دینے کے احکامات جاری کرے جو اپنی تفتیش کی بنیاد پر تباہ شدہ پلوں، کو یا تو توڑ دے یا تو انہیں مستحکم کرے تا کہ دوبارہ اس طرح کے حادثات رونما نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھئے: جون میں سروسیز پی ایم آئی ۶۰ء۵؍ پر پہنچا

خیال رہے کہ بہار میں گزشتہ ۱۵؍ دنوں میں سیوان، سرن، مدھوبنی، ارایا، مشرقی چمپارن اور کشنا گنج جیسے اضلاع میں بریج منہدم ہونے کے حادثات درج کئے گئے ہیں جن کیلئے ریاستی حکومت کو ذمہ دارٹھہرایا جا رہا ہے۔ شکایت کنندہ نے اپنی عرضی میں عدالت عظمیٰ سے کہا ہے کہ خراب طریقے سے بنائے گئے پلوں کے منہدم ہونے کے پیچھے موسلادھار بارش بھی اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں یہ عرضی وکیل اور عرضی کنندہ برجیش سنگھ نے داخل کی ہے جنہوں نے ریاست میں پلوں کی حفاظت اور زیادہ عرصے تک ٹھیک رہنے پراظہار تشویش کیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: برطانیہ الیکشن: ہندوتوا کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو تنظیم نے ہندو منشور مسترد کردیا

شکایت کنندہ نے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کے مطالبے کے علاوہ وزرات برائے ٹرانسپورٹ اور ہائی وے کی جانب سے طے شدہ پیرامیٹر کے مطابق پلوں کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ نے کہا ہے کہ ’’یہ تشویش کا معاملہ ہے کہ بہار ملک کی سب سے زیادہ سیلاب سے متاثرہ ریاست ہے اور ریاست کا ۶۸؍ ہزار، ۸۰۰؍ مربع کلومیٹر (۶ء۷۳؍ فیصد) علاقہ سیلاب سے متاثر ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK