• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جیل کتابچہ میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی منظوری، سپریم کورٹ نے اسے پریشان کن قرار دیا

Updated: July 11, 2024, 5:43 PM IST | New Delhi

گزشتہ دن ہندوستانی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے معاملے کو اجاگر کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جیل کتابچہ میں موجود کچھ شقوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پریشان کن قرار دیا۔

Supreme Court. Photo: INN
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

ہندوستانی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کے معاملے کو اجاگر کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بدھ کوریاستی جیل کے دستورالعمل میں موجود کچھ شقوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت پریشان کن ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ، جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے ایوارڈ یافتہ صحافی سکنیا شانتھا کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کی اور دونوں فریقوں کی طرف سے مکمل دلائل سنے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نیٹو اجلاس میں یوکرین کی مدد کا فیصلہ، امریکہ نیا فضائی دفاعی نظام فراہم کریگا

درخواست میں ہندوستان کی بعض ریاستوں اور یوٹیز کی جیلوں میں ہونے والے امتیازی سلوک کو اجاگر کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اشارہ دیا کہ وہ وزارت داخلہ کو ہدایت دے گی کہ وہ ہندوستان کی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ختم کرنے کیلئے ایک نوڈل افسر مقرر کرے۔ اپنی درخواست میں، سکنیا نے ذکر کیا کہ پرانے اتر پردیش جیل مینول ۱۹۴۱ء میں قیدیوں کے ذات پات کے تعصبات کو برقرار رکھنے اور ذات کی بنیاد پر صفائی، تحفظ اور جھاڑو کے کام کا عہدہ فراہم کیا گیا تھا۔ تاہم، ۲۰۲۲ء میں ماڈل مینوئل کے ساتھ اس کی موافقت کرتے ہوئے اور ذات کی بنیاد پر کام الاٹ کرنے کی دفعات کو ہٹاتے ہوئے ترمیم کی گئی۔ اس تبدیلی کے باوجود ۲۰۲۲ء کا دستور العمل ذات پات کے تعصب کے تحفظ اور عادی مجرموں کی علاحگدی سے متعلق ایک اصول کو برقرار رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: قبرص: طلبہ کی عالمی برادری سے اپیل، ’’غزہ میں بچوں کو مرنے نہ دیں‘‘

درخواست گزار نے مزید دعویٰ کیا کہ راجستھان، مدھیہ پردیش، ادیشہ ، اتر پردیش، تمل ناڈو، دہلی، پنجاب، بہار اور مہاراشٹر سمیت ۱۳؍ بڑی ریاستوں کے ریاستی جیل مینوئل میں یکساں امتیازی قوانین موجود ہیں۔ لائیو لا کی رپورٹوں کے مطابق، اس سال جنوری میں مرکزی حکومت اور ۱۳؍ ریاستی حکومتوں کو اس کی درخواست پر نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ بدھ کو سینئر ایڈوکیٹ ایس مرلی دھر اور ایڈوکیٹ دیشا واڈیکر شانتھا کی طرف سے پیش ہوئے اور دلیل دی کہ امتیازی سلوک تین طریقوں سے ہو رہا ہے: (۱) دستی مزدوری کی تقسیم کے ذریعے۔ (۲) ذات پات کی بنیاد پر بیرکوں کو الگ کرنے کے ذریعے۔ (۳) ریاستی جیل مینوئل میں موجودہ دفعات کے ذریعے جو، ڈی نوٹیفائیڈ قبائل سے تعلق رکھنے والے قیدیوں (جسے دستور میں مجرمانہ یا آوارہ اور خانہ بدوش قبائل کہا جاتا ہے) اور عادی مجرموں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی یوم آبادی (آج) کیوں منایا جاتا ہے اور اس بار اقوام متحدہ کا نعرہ کیا ہے؟

وکلاء نے دلیل دی کہ ماڈل جیل مینوئل اس حد تک ناکافی ہے کیونکہ ہندوستانی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ سینئر وکیل مرلی دھر نے کہا کہ ’’آپ ۲۸۹؍ شق دیکھئے۔ یہ واقعی پریشان کن ہے۔ عام قید کی سزا پانے والے مجرم کو اس وقت تک نچلی سطح کے فرائض انجام دینے کیلئے نہیں کہا جائے گا جب تک کہ وہ کسی ایسے طبقے یا کمیونٹی سے تعلق نہ رکھتا ہو جو اس طرح کے کام کرنے کا عادی ہو۔‘‘
درخواست گزار سکنیا شانتھا، جنہوں نے ہندوستانی جیلوں میں ریاست کی طرف سے منظور شدہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور علاحدگی پر تحقیقاتی کام کیا، مکتوب میڈیا سے کہا کہ ’’جبکہ عدالت دراصل ہماری طرف ہے، زیادہ تر ریاستوں نے حقیقت میں اس درخواست کو قبول نہیں کیا ہے۔ اس ضمن میں اب تک چار ریاستوں اور مرکزی حکومت نے سنجیدگی سے اپنا جواب داخل کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کے جوابات بھی امتیازی سلوک اور علاحدگی کا جواز پیش کرتے ہیں۔خاص طور پر، تمل ناڈو نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ انہیں قیدیوں کو ان کی ذات کی بنیاد پر الگ کیوں کرنا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK