مرکز نے وکلا اور بار کونسل کے احتجاج کے بعد ایڈوکیٹ ایکٹ میں ترمیم واپس لے لی۔ اس ترمیم کے تحت عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ یا ان سے غیر حاضری پر پابندی عائد کی جا سکتی تھی۔
EPAPER
Updated: February 23, 2025, 6:05 PM IST | New Delhi
مرکز نے وکلا اور بار کونسل کے احتجاج کے بعد ایڈوکیٹ ایکٹ میں ترمیم واپس لے لی۔ اس ترمیم کے تحت عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ یا ان سے غیر حاضری پر پابندی عائد کی جا سکتی تھی۔
مرکزی حکومت نے سنیچر کو متنازعہ ایڈوکیٹس ترمیمی بل۲۰۲۵ء کے مسودے کو واپس لے لیا، جس پر وکلا کی جانب سے احتجاج اور بار کونسل آف انڈیا کے سخت اعتراض درج کرایا تھا۔مرکزی قانون وزارت نے کہا کہ مسودہ قانون کو متعلقہ افراد کے ساتھ مشاورت کیلئے بھیجا جائے گا۔ یہ بل ۱۳؍ فروری کو عوامی مشاورت کیلئے شائع کیا گیا تھا اور ۲۸؍فروری تک اس پر تبصرے طلب کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: مدھیہ پردیش: ریوا کی عدالت میں لو جہاد کا الزام لگا کر ایک جوڑے پر وکلاء کا حملہ
اس مسودے کے تحت مرکز کا مقصد ۱۹۶۱ء کے ایڈوکیٹ ایکٹ میں ترمیم کرنا تھا۔ لیکن اسے وکلا اور بار کونسل آف انڈیا کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ مانن کمار مشرا نے بدھ کو مرکزی قانون وزیر ارجن رام مہتوال کو ایک خط میں کہا تھا کہ یہ بل بار کونسل آف انڈیا کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بل میں مرکزی حکومت کو بار کونسل آف انڈیا میں تین ارکان نامزد کرنے، کونسل کو ہدایات جاری کرنے اور غیر ملکی وکلا اور قانونی فرم کیلئے ضوابط مرتب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ ایڈوکیٹس ایکٹ میں تجویز کردہ ترمیم ایک نیا سیکشن متعارف کراتی، جس کے ذریعے عدالتی کارروائیوں کے بائیکاٹ یا ان سےغیر حاضری پر پابندی عائد کی جا سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: شرانگیزوں کا دبائو، درگاہ کے احاطہ میں انہدامی کارروائی
حزب اختلاف نے کہا کہ بل غیر معیاری طریقے سے تیار کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا کہ متعلقہ افراد و تنظیم کے ساتھ مزید مشاورت تک اسے روک دیا جائے۔ کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی نے جمعرات کو کہا تھا، کہ ’’وکلا کو ان کی شکایات اور مسائل اٹھانے کیلئے ایک مناسب فورم فراہم کرنے کے بجائے، تجویز کردہ بل وکلا کے حقوق کو چھین لیتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ تجویز کردہ بل پیشہ ورانہ ریگولیٹری اداروں کی تشکیل، پریکٹس اور طریقہ کار میں حکومتی مداخلت کی اجازت دیتا ہے، جو ہندوستان کی سپریم کورٹ کے ذریعے برقرار رکھے گئے خود مختاری اور خود انحصاری کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔‘‘