• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

چین: آبادی میں مسلسل تیسرے سال کمی، حکومت اور معیشت کے لئے بڑا چیلنج

Updated: January 19, 2025, 11:00 AM IST | Inquilab News Network | Beijing

۱۹۸۰ء کی دہائی میں چینی حکومت نے "ایک بچے کی پالیسی" اپنائی۔ اگرچہ یہ پالیسی قانونی طور پر نافذ نہیں کی گئی لیکن اس پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

چینی حکومت نے جمعہ کو بتایا کہ ملک کی آبادی میں مسلسل تیسرے سال کمی واقع ہوئی ہے۔ ۲۰۲۴ء کے آخر میں چین کی آبادی سمٹ کر ۴۰۸ء۱ بلین ہوگئی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے تقریباً ۱۴ لاکھ کم ہے۔ آبادی میں کمی کی وجہ سے چین کے آبادیاتی چیلنجز میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں دوسری سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین، معمر افراد کی تعداد میں اضافہ اور جوان اور کرنے کی عمر کے لوگوں کی تعداد میں زبردست کمی جیسے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ بیجنگ حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار دنیا بھر کے، خاص طور پر مشرقی ایشیائی ممالک جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کے آبادیاتی رجحانات سے مختلف نہیں ہیں جہاں خاص طور پر شرح پیدائش میں کمی نوٹس کی گئی ہے۔ تین سال قبل، چین، جاپان اور مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک کے گروہ میں شامل ہوا جن کی آبادی میں کمی آ رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جنوبی کوریا: آبادی میں کمی اور بڑھتی عمر سے معاشرہ معمر ہو رہا ہے

آبادی میں کمی کی وجوہات

بیشتر ممالک میں آبادی میں کمی کی وجوہات میں شرح پیدائش میں کمی، رہائش کے بڑھتے اخراجات اور سخت خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسیاں شامل ہیں۔ زندگی کے بڑھتے اخراجات، نوجوانوں کو اعلی تعلیم اور کریئر کے حصول کے دوران شادی اور بچے کی پیدائش کو روکنے یا مسترد کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس درمیان آبادی کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے شرح اموات میں کمی آئی ہے اور نئی شرح پیدائش کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ چین طویل عرصے سے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی قوموں میں شامل رہا ہے یہاں تک کہ ہندوستان نے ۲۰۲۲ء میں اسے پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ اور ۱۹۴۹ء میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد، چین میں بڑے خاندان دوبارہ ابھرے اور آبادی صرف ۳ دہائیوں میں دگنی ہو گئی۔ ثقافتی انقلاب کے خاتمہ اور رہنما ماؤ زے تنگ کی موت کے بعد، کمیونسٹ نوکر شاہوں کو اس بات کی فکر ستانے لگی کہ ملک کی آبادی خود کو کھانا کھلانے کی صلاحیت کو پیچھے چھوڑ رہی ہے جس کے بعد ۱۹۸۰ء کی دہائی میں انہوں نے سختی سے "ایک بچے کی پالیسی" اپنائی۔ اگرچہ یہ پالیسی کبھی قانونی طور پر نافذ نہیں کی گئی لیکن اس پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا۔ خواتین کو بچہ پیدا کرنے کیلئے درخواست دینا پڑتی تھی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جبری اسقاط حمل، بھاری جرمانہ اور بچوں کو شناختی کارڈ سے محرومی کردیا جاتا تھا، جس سے وہ مؤثر طریقے سے غیر شہری بن جاتے تھے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں صنفی تناسب میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، اور معاشرے میں مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں بڑھ گئی۔ جمعہ کو جاری کردہ رپورٹ میں ہر ۱۰۰ خواتین کے مقابلے ۱۰۴ مرد کا جنسی عدم توازن بتایا گیا۔ جبکہ آزاد مطالعات میں اس عدم توازن کو کافی زیادہ بتایا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی معیشت ترقی کر رہی ہے، غریب ممالک کے لئے کوئی راحت نہیں

معاشی اثرات

آبادی میں کمی کی بدولت چین کی معیشت پر بھی شدید اثرات واقع ہو رہے ہیں۔ کام کرنے والی آبادی میں کمی کی وجہ سے صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے۔ چین کی معیشت طویل عرصہ سے کم اجرت اور زیادہ پیداوار پر انحصار کرتی رہی ہے لیکن اب مزدوروں کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ عمر رسیدہ آبادی میں اضافہ سے حکومت کے سماجی تحفظ کے نظام پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، چین کی کل آبادی کا پانچواں حصہ، یعنی تقریباً ۳۱ کروڑ افراد کی عمر ۶۰ سال یا اس سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ۲۰۳۵ تک یہ تعداد کل آبادی کے ۳۰ فیصد سے تجاوز کر جائے گی اور حکومت کیلئے انہیں پینشن اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو چین "امیر ہونے سے قبل بوڑھا ہو جائے گا"۔ یعنی چین کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جائے گی اور سماجی و معاشی مسائل میں اضافہ ہو گا۔ چین میں دیہی سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً، دیہی علاقے خالی ہو رہے ہیں اور شہری علاقوں میں بھیڑ بڑھ رہی ہے۔ یہ تبدیلیاں ملک کی معاشی اور سماجی ساخت میں عدم توازن پیدا کر رہی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK