Updated: October 04, 2024, 1:54 PM IST
| Goma
کیو لیک میں گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی کنارے پر لنگر انداز ہوتے وقت ڈوبنے سے کم از کم ۵۰؍ افراد جاں بحق ہو گئے، ۱۰؍ افراد کو بچا لیا گیا، باقی مسافروں کی تلاش جاری ہے۔ حکام کے مطابق جہاز رانی کے اصولوں کو نظر انداز کرنےاور ۳۰؍ مسافروں کی گنجائش والی کشتی میں تقریباً ۱۰۰؍ افراد سوار ہونے کے سبب یہ حادثہ پیش آیا۔
اسو شی ایٹیڈ پریس کے مطابق کیو لیک میں مسافروں سے بھر ایک کشتی، غرقاب ہو نے سے کم از کم ۵۰؍ افراد جاں بحق ہو گئے۔عینی شاہدین کے مطابق مسافروں کی اصل تعداد کا تو علم نہیں لیکن انہوں نے راحتی کارکنوں کو پانی سے ۵۰؍ لاشیں نکالتے ہوئے دیکھا۔جبکہ ۱۰؍ افراد کو بچا لیا گیا ، جنہیں مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ گجنائش سے زیادہ مسافروں سے بھری یہ کشتی اس وقت ڈوب گئی جب اسے کنارے پر لنگر اندازکرانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔یہ کنارے سے محض چند میٹر کی دوری پر تھی۔ ایک عینی شاہد کے مطابق یہ کشتی جنوبی کیوو صوبے کے منووا سے شمالی کیووکے گوما جا رہی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: سپریم کورٹ نے جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر کام سونپنے کو غیر آئینی قرار دیا
مقامی حکام کے مطابق بچاؤ کی کوششیں جاری ہیں، فی الحال جاں بحق ہونے والوں کی کل تعداد کا علم نہیں ہے۔اس سے قبل جنوری میں ہوئے حادثہ میں بھی ۵۰ٌٔٔ ؍ مسافر جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس حادثہ کے بعد کیوو کے گورنر جین جیک پوروسی نے مقامی ریڈیو اسٹیشن کو بتایا کہ اس کشتی تقریباً ۱۰۰؍ مسافر سوار تھے، جبکہ اس میں محض ۳۰؍ مسافروں کی گنجائش تھی۔
مرکزی افریقی ملک میں حد سے زیادہ مسافروں کے سبب کشتی غرقاب ہونے کا یہ تازہ ترین حادثہ ہے۔جبکہ اس میں جہاز رانی کے بنیادی اصولوں کی بھی پاسداری نہیں کی گئی تھی۔کانگو کے حکام اکثر کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر کے خلاف انتباہ جاری کرتے رہتے ہیں، ساتھ ہی اس کے ذمہ دارواں کے خلاف کارروائی کی بات بھی کرتے ہیں،لیکن دور دراز کے علاقوں میں آمد و رفت کے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی استعداد نہ ہونے کے سبب عوام اس ذرائع کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔اس حادثہ کے متاثرین کے اہل خانہ نے حکام پر حفاظتی اقدام کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی کمیٹی برائے مذہبی آزادی نے ہندوستان کو ’’تشویشناک‘‘ فہرست میں شامل کیا
جب سے فوج اور باغیوں کے مابین مسلح تصادم کا آغاز ہوا ہے، گوما اور کیوو شہروں کے درمیان زمینی راستہ ناقال استعمال ہو گیا ہے۔اس کے نتیجے میں مقامی تاجر غذائی اجناس کی نقل حمل کیلئے آبی راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔لیکن خستہ حال کشتیوں کی غرقابی کی پیشنگوئی بآسانی کی جا سکتی ہے۔ اس حادثہ میں بچ جانے والے ایک ۲۷؍ سالہ شخص بینفیت سیماتمبا کہنا ہے کہ اگر حکام یہ جنگ روک دیتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک اور عینی شاہد نیما چیمانگا نے بتایا کہ وہ اب بھی صدمے میں ہیں،
انہوں نے بتایا کہ ’’ ہم نے دیکھاکشتی میں پانی بھر رہا ہے، اس کا دروازہ کھل گیا تھا، ہم نے اسے بند کرنے کی کوشش کی لیکن پانی اندر آچکا تھا، اور کشتی جھکنا شروع ہو گئی، میں نے پانی میں چھلانگ لگا دی، اور تیرنا شروع کر دیا، مجھے یاد نہیں میں کس طرح پانی سے باہر آئی۔‘‘