عدالت عظمیٰ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت دی کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر کام تفویض کرنے کی وکالت کرنے والی تمام دفعات کو ہٹانے کیلئے اپنے جیل مینوئل پر نظر ثانی کریں۔
EPAPER
Updated: October 03, 2024, 8:03 PM IST | New Delhi
عدالت عظمیٰ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت دی کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر کام تفویض کرنے کی وکالت کرنے والی تمام دفعات کو ہٹانے کیلئے اپنے جیل مینوئل پر نظر ثانی کریں۔
سپریم کورٹ نے کئی ریاستوں کے جیل مینوئل میں لکھی ان دفعات کو خارج کردیا جو قیدیوں کو ذات کی بنیاد پر کام فراہم کرنے کی وکالت کرتی تھیں۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ جمعرات کو ایوارڈ یافتہ صحافی سکنیا شانتا کی پی آئی ایل پر سماعت کررہی تھی۔ شانتا نے دی وائر میں شائع ہوئے اپنے مضمون کی بنیاد پر ایک پٹیشن فائل کی تھی جس میں انہوں نے راجستھان، مدھیہ پردیش، ادیشہ، اتر پردیش، تمل ناڈو، دہلی، پنجاب، بہار، مہاراشٹرا جیسی ۱۳ ریاستوں کے جیل مینول میں یکساں امتیازی قوانین کو اجاگر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ہیتی: ۷؍ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں: یو این
سپریم کورٹ نے کہا کہ پسماندہ ذات کے قیدیوں کو صفائی اور جھاڑو لگانے کا کام دینا جبکہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو کھانا پکانے کا کام سونپنا براہ راست ذات پات کی تفریق کے دائرے میں آتا ہے اور یہ ہندوستانی آئین کی دفعہ ۱۵ کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے اتر پردیش جیل مینول کی ان دفعات پر اعتراض کیا جن کے مطابق سادہ قید کی سزا پانے والے شخص کو نچلے درجہ کے کام نہیں سونپے جاسکتے، تاہم اگر وہ نچلی ذات سے تعلق رکھتا ہو تو اسے اس نوعیت کے کام پر مامور کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے راجستھان جیل مینوئل پر بھی تنقید کی جس میں غیر شناخت شدہ قبائل کا حوالہ دیا گیا ہے۔
بدلاپور جنسی زیادتی معاملہ: اسکول کے دو ٹرسٹی گرفتار
عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں سے موقف اختیار کرتے ہوئے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت دی کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر کام تفویض کرنے کی حمایت کرنے والی تمام دفعات کو ہٹانے کیلئے اپنے جیل مینوئل پر نظر ثانی کریں۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو بھی ہدایت دی کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق سے نپٹنے کیلئے اپنے رہنما جیل قوانین میں ضروری تبدیلیاں متعارف کرائے۔ چیف جسٹس چندرچڈ نے فیصلہ سنایا کہ قیدیوں کو ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے ذات پات کی تفریق کو تقویت ملے گی۔ قیدیوں کو بھی عزت کا حق حاصل ہے۔ ان کے ساتھ انسانیت سوز اور ظلم کے بغیر سلوک کیا جانا چاہئے۔ جیل کے نظام کو قیدیوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس چندرچڈ نے زور دیا کہ جیل کے رجسٹروں میں ذات کے کالموں کو ختم کیا جائے۔ فیصلہ سنانے سے قبل چیف جسٹس نے پی آئی ایل کی تعریف کی اور اس کی تحقیقی نوعیت کی ستائش کی۔ چیف جسٹس نے اس معاملہ پر مؤثر انداز میں بحث کرنے کیلئے وکلاء کو بھی مبارکباد پیش کی۔