Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

دہلی عدالت نے ۲۰۲۰ء کی نفرت انگیز تقریر کیس میں کپل مشرا کی درخواست مسترد کی

Updated: March 08, 2025, 4:28 PM IST | New Delhi

دہلی ہائی کورٹ نے بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کی عرضی کو مسترد کیا ہے جس میں انہوں نے مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا۔ مجسٹریٹ نے ان کے نفرت انگیز ٹویٹ پر داخل کی گئی ایف آئی آر پر سمن جاری کیا تھا۔

BJP leader Kapil Mishra. Photo: X
بی جے پی لیڈر کپل مشرا۔ تصویر: ایکس

دہلی ہائی کورٹ نے بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کی عرضی مسترد کی ہے جس میں انہوں نے مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا جس نے انہیں ۲۰۲۰ءمیں ان کے ٹویٹس پر درج کی گئی ایف آئی آر پر سمن جاری کیا تھا۔ اپنے ٹویٹ میں مشرا نے الزام عائد کیا تھا کہ ’’عام آدمی پارٹی (آپ) اور کانگریس نے شاہین باغ میں ’’چھوٹا پاکستان‘‘ بنایا ہے اور دہلی اسمبلی انتخابات ’’پاکستان اور ہندوستان ‘‘ کے درمیان مقابلہ ہوں گے۔‘‘ اس ضمن میں دہلی کے روس ایونیو کورٹ کے خصوصی جج جتیندر سنگھ نے کہا کہ ’’انہوں (بی جے پی لیڈر)نے فرقہ وارانہ تقسیم کی سیاست، جسے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، سے مبرا ہوکراپنے بیان کے ذریعے نفرت پھیلانے کیلئے لفظ ’’پاکستان‘‘ بڑی مہارت سے استعمال کیا ہے۔‘‘یاد رہے کہ آفس آف دی ریٹرننگ آفیسر کے یہ الزام عائد کرنے کے بعد کہ انہوں (بی جے پی لیڈر) نے ضابطہ اخلاق اور ریپریزینٹیشن آف دی پیپل ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے، مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: ۱۵؍ سالوں میں۱۷۰؍ سے زائد مائیں اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل: رپورٹ

مشرا نے مبینہ طور پر طبقات کے درمیان نفرت پھیلانے کیلئے دہلی کے قانون ساز اسمبلی الیکشن ۲۰۲۰ء سے متعلقہ ٹویٹ کیا تھا۔جج نے یہ کہا کہ ’’ہندوستان میں انتخابات کے درمیان ووٹ حاصل کرنے کیلئے فرقہ وارانہ تقاریر کرنا ٹرینڈ بن گیا ہے۔‘‘عدالت نے نشاندہی کی ہے کہ ’’یہ تقسیم کی سیاست کا نتیجہ ہے جس نے ملک کی جمہوریت اور اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ استعماریت کی ’’تقسیم اور اقتدار‘‘ کی پالیسی کو آج بھی ہندوستان میں اپنایا جارہا ہے۔‘‘مشرانےدلیل پیش کی ہے کہ ان کا بیان کسی مخصوص ذات، مذہب، نسل یا زبان کیلئے نہیں تھا جبکہ اس میں ایک ایسے ملک کا ذکر کیا گیا ہے جو آر پی ایکٹ کے سیکشن ۱۲۵؍ کے تحت ممنوع نہیں ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: آر بی آئی نے چار این بی ایف سی پرجرمانہ عائد کیا

تاہم، عدالت نے کہا کہ ’’اس مبینہ بیان میں کسی مخصوص ’’ملک‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا مقصد ’’کسی مخصوص مذہبی طبقے‘‘ کے افراد کو واضح طور پرنقصان پہنچانے کے مترادف ہے اور اس کا مقصد ’’مذہبی طبقات‘‘ کے درمیان دشمنی پھیلانا ہے۔یہ بات کوئی اناڑی بھی سمجھ سکتا ہے۔‘‘عدالت نے کہا کہ ’’مشرا کےبیان میں بلاواسطہ کسی مخصوص ’’ملک‘‘ کا حوالہ دے کر مذہبی بنیادوں پر دشمنی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے جسے بدقسمتی سے اکثر کسی ایک مذہب کے افراد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ عدالت نے درخواست کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹرائل کورٹ سے متفق ہے کہ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے داخل کی گئی شکایت، الیکشن کمیشن کی نوٹی فکیشن اور دیگر کاغذات آ رپی ایکٹ کے سیکشن ۱۲۵؍کے تحت کئےگئے جرم کا نوٹس لینے کیلئے کافی ہیں۔‘‘عدالت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’یہ الیکشن کمیشن (ای سی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ امیدواروں کو فرقہ ورانہ کشیدگی پھیلانے سے باز رکھے اور شفاف اور آزادانہ انتخابات کا ماحول بنائے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: مالیگائوں میں ابو عاصم اعظمی کی حمایت میں احتجاج

جنوری میں مشرا نے دہلی کے اسمبلی انتخابات کا موازنہ ’’ہندوستانی بمقابلہ پاکستان‘‘ مقابلے سے کیا تھا جس کیلئے الیکشن کمیشن نے ۴۸؍گھنٹے کیلئے ان کی الیکشن مہم پر پابندی عائد کی تھی۔ کپل مشرا، جو نفرت پھیلانے کیلئے جانے جاتے ہیں، پر فروری۲۰۲۰ء کے دہلی کے قتل عام کے دوران نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے تشدد کو ہوا دینے کا الزام بھی ہے۔ ۲۳؍فروری ۲۰۲۰ء کو تشددپھوٹنے سے قبل مشرانے شمال مشرقی دہلی کے موجپورکے قریب ڈپٹی کمشنر آف پولیس وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں خطاب کیا تھا۔اپنی تقریر میں انہوں نے الٹم میٹم دیا تھا کہ پولیس جعفر آباد میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو ہٹائے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: نصف سے کم آبادی کو اسرائیلیوں سے ہمدردی، ۲۵؍ سال میں کم ترین فیصد: سروے

انہوں نے متنبہ کیا تھا  کہ اگر پولیس یہ کرنے میں ناکامیاب ہوتی ہے تو ان کے حامی اس معاملےکو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ان کی تقریر کے فوراً بعد ہی تشدد پھوٹ پڑا تھا جس کے نتیجے میں ۵۳؍افرادنے اپنی جانیں گنوائی تھیں جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ لوگوں کے جانوں کے ضیاع کے علاوہ کئی گھر،دکانیں اور عبادتگاہیں تباہ ہوگئی تھیں۔بعد ازیں بی جے پی نے مشرا کو دہلی کے اسمبلی انتخابات کیلئے ٹکٹ بھی دیا تھا اور وہ شمال مشرقی دہلی کی کاراوال نگرسیٹ سے کامیاب بھی ہوئے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK