Updated: March 08, 2025, 12:06 PM IST
| London
دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق دستاویزسےحاصل اعداد و شمارکے مطابق برطانیہ میں گزشتہ ۱۵؍ سالوں میں ۱۷۰؍ مائیں اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں، جس کی سب کی بڑی وجہ ذہنی بیماری ہے، اس کے علاوہ ہر تیسرے دن ایک خاتون قتل ہوتی ہے، مزید یہ کہ محض ۴۲؍ فیصد قتل میں ہی سزا دی جا سکی۔
دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق، ایک فیمیسائیڈ سینسس کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ۱۵؍ سالوں میں برطانیہ میں ہلاک ہونے والی تقریباً۱۰؍ میں سے۱؍ خاتون وہ تھیں جو اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ یہ رپورٹ۲۰۰۹ء سے اب تک۲۰۰۰؍ خواتین کے قتل کا تجزیہ کرتی ہے، جس میں سے۱۷۰ء سے زائد خواتین ایسی تھیں جو اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل کی گئیں۔ ان میں سے۵۸؍ فیصد واقعات میں ذہنی بیماری کو ایک اہم عنصر بتایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ منشیات کا استعمال، مالی انحصار، اور سستی رہائش کی کمی کی وجہ سے بالغ بچوں کا والدین کے ساتھ رہنا بھی ان قتل کے پیچھے کارفرما عوامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ماں کو بعض اوقات بچوں کیلئے تشدد کرنے کا ’’محفوظ مقام‘‘ سمجھا جاتا ہے، جبکہ عورتوں کے خلاف نفرت (میزوجینی) کو بھی ایک وجہ بتایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین حامی غیر ملکی امریکیوں کو گرفتار کرکے ان کی شہریت ختم کرو: ٹرمپ کا حکم
آکسفورڈ اور مانچسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر ریچل کونڈری اور ڈاکٹر کیرولائن مائلز کی فیمیسائیڈ سینسس کے ساتھ مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ماؤں کے قاتل ذہنی بیماری کا شکار تھے۔اس کے باوجود، کونڈری نے کہا کہ ذہنی بیماری میں مبتلا بیٹوں کی دیکھ بھال کرنے والی ماؤں کیلئےکوئی مخصوص روک تھام کی پالیسی موجود نہیں ہے۔فیمیسائیڈ سینسس کی شریک بانی کیرن انگالا اسمتھ نے کہا کہ یہ انتہائی سنگین حقیقت ہے۔قتل ہونے والی خواتین کے علاوہ بھی متعدد متاثر مائیں ہیں جو انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق۲۰۰۹ء سے اب تک برطانیہ میں ہر تیسرے دن ایک خاتون قتل ہوئی ہے، جس کے بعد حکومت نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی تعداد کو ایک دہائی میں نصف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
سنیچرکو عالمی یوم خواتین سے قبل شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ۶۱؍ فیصد خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ ساتھیوں نے قتل کیا،۹؍ فیصد خواتین کو ان کے بیٹوں نے،۶؍ فیصد کو دیگر خاندانی ارکان نے،۱۵؍ فیصد کو دیگر جاننے والے مردوں نے، اور۱۰؍ فیصد کو ان مردوں نے قتل کیا جوشناسا نہیں تھے۔ قریبی خاندانی ارکان کے ہاتھوں قتل ہونے والی۲۱۳؍ خواتین میں سے۸۰؍ فیصد مائیں تھیں جو اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل کردی گئیں۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطینیوں نے اسرائیل کے ذریعے ۶۰۰؍ لاشوں کو روکنے کی جانب توجہ دلائی
رپورٹ میں خواتین کے قتل کے مجرم مردوں کو دی گئی سزاؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے مطابق،۶۰؍ فیصد مردوں کو قتل کا مجرم پایا گیا، جبکہ۲۲؍ فیصد کو قابل مواخذہ قتل کی بنیاد پر قتل کا مجرم قراردیا گیا جبکہ۱۲؍ فیصد نے خودکشی کر لی۔ صرف ۲۰؍ مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی،جو کل مجرموں کا صرف ۱؍ فیصد ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کم سفاکی کی بنیاد پر قتل کے مجرم ٹھہرائے گئے بیٹوں اور ساتھیوں یا سابقہ ساتھیوں کے مقدمات میں فرق ہے۔۷۶؍ فیصد بیٹوں کو ذہنی صحت کے اداروں میں بھیجا گیا، جبکہ صرف۴۲؍ فیصد ساتھیوں اور سابقہ ساتھیوں کو سزا ملی۔
رپورٹ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار نے حکومت پر ماں کے قتل سے نمٹنے، بیٹوں کی جانب سے ماں کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی بڑھانے، اور متاثرین کو مدد فراہم کرنے کیلئے مخصوص اقدامات کرنےپر مجبور کیا ہے۔