Updated: August 10, 2024, 9:32 PM IST
| New Delhi
دہلی فساد کے دوران پولیس پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کےالزامات لگے تھے،ایک ویڈیو میں فیضان اور دیگر چار مسلمانوں کو پولیس بے تحاشہ پیٹ رہی تھی،جس کے بعد فیضان جاں بحق ہو جاتا ہے، اس ویڈیو کی بنا پر ہائی کورٹ نے معاملے کی سی بی آئی جانچ کا حکم دیا ہے۔
۲۰۲۰ء کے دہلی فساد کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این
دہلی ہائی کورٹ نے دہلی فساد کے دوران پولیس کے ذریعے بے رحمی سے پٹائی کے بعد ایک مسلم نوجوان فیضان کی موت کی سی بی آئی تحقیق کا حکم دیا ،سی بی آئی نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ ایک ویڈیو میں۲۴ ؍ فروری ۲۰۲۰ء کو فیضان اوردیگر چارمسلموں کو پولیس کے ایک گروپ کے ذریعے لاٹھیوں سے پٹائی کرتے ہوئے انہیں قومی ترانہ اور وندے ماترم گانے پر مجبور کرتے دکھایا گیا ہے۔اس اذیت رسانی کے بعد پولیس انہیں حراست میں لے گئی،اور اگلے دن انہیں رہا کیا۔اس معاملے میں فیضان کی والدہ قسمتن کا کہنا ہے کہ فیضان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ، باوجود اس کے فیضان کی حالت دگر گوں تھی،اسے اسپتال جانے کی اجازت نہیں دی۔
یہ بھی پرھئے: ریسرچ اسکالر سید شاہ میر حسین کی دریافتیں اے ایس آئی میں رجسٹرڈ
ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو دو ویڈیو کی بنا پر تفتیش کرنےکا حکم دیا ہے، جس میں پولیس والوں کو پانچ مسلم مردوں کو پیٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔جولائی کے آخر میں جسٹس بھمبھانی نے ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ’’ اس معاملے کی تحقیق میں چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک ایک بھی پولیس والے کی شناخت تک نہیں ہو پائی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: حالیہ فسادات اورہنگامہ آرائی میں ملوث متعدد سفید فام انتہاپسندوں کو سزائیں سنائی گئیں
انہوں نے مزید کہا کہ ’’جہاں تک پولیس کے غیر آئینی عمل کا تعلق ہے، یہ معاملہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی بھی نشاندہی کر تا ہے،ان پولیس والوں کی شناخت اس بنا پر بھی ضروری ہے کہ پولیس ہی وہ محکمہ ہے جس کے ہاتھوں میں قانون کی پاسداری کے نفاذ کے اختیارات ہوتے ہیں،ان کے اس عمل سے مذہبی منافرت کی بو آرہی ہے۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’’ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ فیضان اور اس کے ساتھیوں کو فساد کے دوران کچھ چوٹیں آئی ہوں لیکن ویڈیو میں واضح طو ر پر پولیس والوں کو فیضان اور اس کے ساتھیوں کو گھیرے ہوئے، گھسیٹتے ہوئے،لات مارتے ہوئے،ضرب لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘